اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کیلیے 6 شرائط رکھ دیں ترک میڈیا
رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاہے کہ اسرائیل نےغزہ سے فوج کی واپسی اورفلسطینیوں کوگھروں میں واپسی کی اجازت دینےکی پیش کش کی ہے۔
اسرائیل نے حماس کے ساتھ 2 ماہ تک جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے 6 شرائط پیش کردیں اور اگلے 48 گھنٹوں کے دوران پیش رفت کا امکان ہے۔
ترک سرکاری خبررساں ایجنسی انادولو کے مطابق اسرائیلی نیوز چینل 12 نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے 6 شرائط پیش کردیے ہیں اور اب ثالثوں کے ذریعے فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے جواب کا منتظر ہے اور اس کا جواب 48 گھنٹوں کے دوران متوقع ہے۔
چینل 12 کے مطابق حماس سے بات کرنے کے بعد ثالثوں کا جواب آج یا کل تک آنے کا امکان ہے، جس میں طے ہوگا کہ آیا اس پر پیش رفت ہوسکتی ہے یا نہیں جبکہ حماس کا مطالبہ ہے جب تک اسرائیل غزہ کو آزاد نہیں چھوڑ دیتا، تب تک جنگ جاری رہے گی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی اسی وقت ہوگا۔
اسرائیلی عہدیدار کا نام ظاہر کیے بغیر رپورٹ میں بتایا گیا کہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم مذاکرات شروع کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم کی ہٹ دھرمی؛ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کی پیشکش مسترد
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کو بتایا تھا کہ اسرائیل نے 2 ماہ کی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے پیش کش کی ہے لیکن شرائط کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا۔
چینل 12 نے دعویٰ کیا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت نے 6 شرائط رکھ دی ہیں، جس میں سب سے اہم غزہ میں جنگ بندی کے جواب میں قیدیوں کا تبادلہ ہے، جو اس وقت اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دوران قید ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ ہونے والا معاہدہ خفیہ رکھا جائے گا اور عوامی سطح پر نہیں لایا جائے گا اور حماس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کو انسانی بنیادوں پر ہونے والے اقدام کے طور پر پیش کرے گا۔
قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس بتدریج قیدیوں کو رہا کرے گی اور ابتدا میں خواتین، بزرگ اور زخمیوں کو آزاد کیا جائے گا او اس کے بعد ایسے افراد جو فوج کا حصہ نہ رہے ہوں اور آخر میں اسرائیلی فوج اور پھر ہلاک افراد کی لاشیں واپس کردی جائیں گی۔
تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگ بندی کا عمل کئی ہفتوں یا ممکنہ طور پر دو سے تین ماہ جاری رہے گا اور قیدیوں کا مکمل تبادلہ کیا جائے گا، قیدیوں کے نام ان کی رہائی سے قبل دیے جائیں گے اور ہر مرحلے پر اس سے آگاہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں حماس کیخلاف کارروائی کے دوران دھماکا؛ 24 اسرائیلی فوج ہلاک
چینل 12 نے دعویٰ کیا کہ پانچویں شرط کے تحت غزہ پٹی میں اسرائیل اپنے فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی کرے گا اور رہائشی علاقوں سے فوج واپس بلائے گا، فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیل نے حماس کے سامنے چھٹی شرط یہ رکھی ہے کہ اسرائیل اس دوران کسی بھی موقع پر جنگ کے خاتمے کا وعدہ نہیں کرے گا جبکہ حماس اس سے قبل کئی مرتبہ واضح کرچکی ہے کہ وہ اس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک غزہ میں مکمل طور پر جنگ بندی نہیں ہوتی۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق مصر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ حماس نے قیدیوں کی رہائی کے لیے دو ماہ کی جنگ بندی کی اسرائیل کی پیش کش مسترد کردی ہے اور حماس کی قیادت نے غزہ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا ہے اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اپنی فوج غزہ سے مکمل طور پر واپس بلائے اور فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت دی جائے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیلی حکام نے حماس کے انکار کی رپورٹ سے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ انہیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے جواب میں شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 25 ہزار 490 فلسطینی شہید اور 63 ہزار 354 زخمی ہوچکے ہیں جبکہ 1200 اسرائیلی بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی بدترین کارروائیوں کے باعث غزہ کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے اور انھیں غذائی قلت، پانی اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے اور غزہ کا 60 فیصد انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔
ترک سرکاری خبررساں ایجنسی انادولو کے مطابق اسرائیلی نیوز چینل 12 نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے 6 شرائط پیش کردیے ہیں اور اب ثالثوں کے ذریعے فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے جواب کا منتظر ہے اور اس کا جواب 48 گھنٹوں کے دوران متوقع ہے۔
چینل 12 کے مطابق حماس سے بات کرنے کے بعد ثالثوں کا جواب آج یا کل تک آنے کا امکان ہے، جس میں طے ہوگا کہ آیا اس پر پیش رفت ہوسکتی ہے یا نہیں جبکہ حماس کا مطالبہ ہے جب تک اسرائیل غزہ کو آزاد نہیں چھوڑ دیتا، تب تک جنگ جاری رہے گی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی اسی وقت ہوگا۔
اسرائیلی عہدیدار کا نام ظاہر کیے بغیر رپورٹ میں بتایا گیا کہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم مذاکرات شروع کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم کی ہٹ دھرمی؛ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کی پیشکش مسترد
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کو بتایا تھا کہ اسرائیل نے 2 ماہ کی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے پیش کش کی ہے لیکن شرائط کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا۔
چینل 12 نے دعویٰ کیا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت نے 6 شرائط رکھ دی ہیں، جس میں سب سے اہم غزہ میں جنگ بندی کے جواب میں قیدیوں کا تبادلہ ہے، جو اس وقت اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دوران قید ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ ہونے والا معاہدہ خفیہ رکھا جائے گا اور عوامی سطح پر نہیں لایا جائے گا اور حماس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کو انسانی بنیادوں پر ہونے والے اقدام کے طور پر پیش کرے گا۔
قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس بتدریج قیدیوں کو رہا کرے گی اور ابتدا میں خواتین، بزرگ اور زخمیوں کو آزاد کیا جائے گا او اس کے بعد ایسے افراد جو فوج کا حصہ نہ رہے ہوں اور آخر میں اسرائیلی فوج اور پھر ہلاک افراد کی لاشیں واپس کردی جائیں گی۔
تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگ بندی کا عمل کئی ہفتوں یا ممکنہ طور پر دو سے تین ماہ جاری رہے گا اور قیدیوں کا مکمل تبادلہ کیا جائے گا، قیدیوں کے نام ان کی رہائی سے قبل دیے جائیں گے اور ہر مرحلے پر اس سے آگاہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں حماس کیخلاف کارروائی کے دوران دھماکا؛ 24 اسرائیلی فوج ہلاک
چینل 12 نے دعویٰ کیا کہ پانچویں شرط کے تحت غزہ پٹی میں اسرائیل اپنے فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی کرے گا اور رہائشی علاقوں سے فوج واپس بلائے گا، فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیل نے حماس کے سامنے چھٹی شرط یہ رکھی ہے کہ اسرائیل اس دوران کسی بھی موقع پر جنگ کے خاتمے کا وعدہ نہیں کرے گا جبکہ حماس اس سے قبل کئی مرتبہ واضح کرچکی ہے کہ وہ اس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک غزہ میں مکمل طور پر جنگ بندی نہیں ہوتی۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق مصر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ حماس نے قیدیوں کی رہائی کے لیے دو ماہ کی جنگ بندی کی اسرائیل کی پیش کش مسترد کردی ہے اور حماس کی قیادت نے غزہ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا ہے اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اپنی فوج غزہ سے مکمل طور پر واپس بلائے اور فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت دی جائے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیلی حکام نے حماس کے انکار کی رپورٹ سے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ انہیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے جواب میں شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 25 ہزار 490 فلسطینی شہید اور 63 ہزار 354 زخمی ہوچکے ہیں جبکہ 1200 اسرائیلی بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی بدترین کارروائیوں کے باعث غزہ کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے اور انھیں غذائی قلت، پانی اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے اور غزہ کا 60 فیصد انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔