اقتصادی و معاشی مسائل کا حل

پاکستان کے بیرونی اور ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے


Editorial January 24, 2024
پاکستان کے بیرونی اور ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فوٹو: فائل

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کو اگلے 3 سال میں 71 ارب 88 کروڑ ڈالر کی بیرونی فنانسنگ درکار ہے، بیرونی فنڈنگ میں شارٹ فال یا سست روی کی صورت میں حکومت کو مہنگے مقامی قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب عالمی بینک نے سماجی تحفظ کے لیے پاکستان کو ساڑھے بیالیس کروڑ ڈالر کی اضافی فنڈنگ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آر اے ایم پروگرام کے تحت پسماندہ طبقے کو چھوٹے قرض فراہم کیے جائیں گے۔

پاکستان کے بیرونی اور ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شرح مبادلہ میں متواتر اتار چڑھاؤ نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔

ملک ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار رہتا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قرضوں اور مالی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے مسائل یہیں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا شمار طویل مدتی موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین خطرات کا سامنا کرنے والے پہلے دس ممالک میں بھی ہوتا ہے۔یعنی پاکستان کے معاشی چیلنجز کثیر جہتی ہیں لیکن اصلاحات اور اقدامات سے بہتری کے امکانات موجود ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے ہم مسلسل اقتصادی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ اپنی صلاحیت اور دستیاب وسائل کے باوجود پاکستانی معیشت کو بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ معاشی مشکلات ہی پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان اپنی تاریخ میں اقتصادی ترقی اور ناکامیوں کے ادوار کا تجربہ کیا ہے، جو اکثر سیاسی عدم استحکام اور بیرونی عوامل سے متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان مسلسل بڑے مالیاتی خسارے سے دوچار ہے۔ جہاں حکومتی اخراجات محصولات سے زیادہ ہیں۔ یہ خسارہ ملک کے قرضوں کے بحران میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بھاری قرضے لینے کا باعث بنا ہے۔

مہنگائی کی اونچی شرح نے اوسط پاکستانی کی قوت خرید کو ختم کر دیا ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اسی تناسب سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ توانائی کی قلت اور مہنگائی صنعتی اور کاروباری ترقی میں رکاوٹ ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ پاکستان کی تمام حکومتیں توانائی بحران کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کے مسائل اور دہشت گردی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکا ہے اور معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ادارہ جاتی بدعنوانی بھی ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جہاں امن و امان کی خراب صورتحال نے معاشی ترقی کو روکا ہے، وہیں بیوروکریٹک ہتھکنڈوں، قوانین، ضابطوں دائرہ اختیارکی اوورلیپنگ نے بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں بلکہ مقدمہ بازی کو بھی بڑھایا ہے۔

سیاسی عدم استحکام بھی معاشی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ قیادت میں متواتر تبدیلیاں، بدعنوانی کے اسکینڈلز اور طویل مدتی پالیسی کے تسلسل کی کمی نے اقتصادی منصوبہ بندی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

مختلف حکومتوں میں متضاد اقتصادی پالیسیوں نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ناقص اور ناکافی انفراا سٹرکچر نے صنعتی ترقی اور برآمدی صلاحیت کو روکا ہے۔ وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری اور ایک بڑی غیر رسمی معیشت نے حکومتی محصولات کو محدود کر دیا ہے اور مالیاتی خسارے میں حصہ ڈالا ہے۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ معیاری تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت تک رسائی سے محروم ہے جس کے نتیجے میں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔

اس وقت بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت معاشی حوالے سے پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران پاکستان میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے میگا اسکینڈلز منظر عام پر آئے۔ معاشی گروتھ کی رفتار سست رہی، منصوبے غیر معمولی تاخیرکا شکار ہوئے۔ اقربا پروری اور سیاسی مفاد کے کلچر نے معاشی ترقی کو زوال پذیرکردیا۔

پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم تشویش ناک حد تک بڑھ گیا۔ غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا، ٹیکس نیٹ وسیع نہ کیا جا سکا۔ خاندان امیر ہوگئے اور پاکستان غریب ہوگیا، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق دس کروڑ شہری غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

ریاستی اداروں کے افسروں کے بے جا اور یکطرفہ اختیارات، مبہم اور نامکمل قوانین، ناقص نظام انصاف کی وجہ سے پاکستان میں طاقتور کے لیے تو آسانیاں ہیں لیکن عام لوگوں کی زندگی ظلم و جبر کے پنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل کرنے کے بعد بھی وفاقی حکومت کے اخراجات کم نہ ہوئے بلکہ صوبوں کے اخراجات مزید بڑھ گئے، جن ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے سفارشات تیار کی گئیں ان پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا، یہ تو وہ عوامل تھے جو معاشی نمو کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ ملک کی افرادی قوت کا تقریباً 37 فیصد اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبے ہی کپاس اور ایسا دیگر خام مال پیدا کرتا ہے جس سے ملک میں کپڑے کی صنعت چلتی ہے، تاہم چھوٹے پیمانے پر زرعی سرگرمیوں اور جدت کے فقدان کے باعث اس شعبے کی استعداد ناکافی ہے۔

اس کا بالواسطہ نتیجہ غذائی عدم تحفظ، دیہی علاقوں میں بے روزگاری اور غربت کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ کسانوں کے لیے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان بنانے سے ان کی استعداد اور پیداوار میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مالی وسائل تک بہتر رسائی کی بدولت کاشت کاروں کے لیے بڑے پیمانے پر زرعی سرگرمیاں ممکن ہو سکیں گی اور وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف خود کو بہتر طور سے تیار کرسکیں گے۔

اقوام متحدہ کے بین الحکومتی ادارے ' کانفرنس برائے تجارت و ترقی' (یو این سی ٹی اے ڈی) نے صنعت، زراعت اور نقل و حمل کے شعبوں میں ماحول دوست اقدامات کے ساتھ پائیدار سرمایہ کاری کو پاکستان کے ان مسائل کا حل قرار دیا ہے۔

اس حوالے سے ادارے نے پاکستان سمیت ایشیا کے چار بڑے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس سے انھیں پائیدار ترقی کے اہداف تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔ صنعتی سرگرمیوں کو ماحول دوست بنانے کے اس منصوبے میں پاکستان کے علاوہ ملائیشیا، قازقستان اور ترکی کو بھی مدد فراہم کی جانا ہے۔

اس منصوبے کے تحت ان ممالک کو مالی مدد مہیا کرنے کے ساتھ قومی سطح پر بہتر پالیسیوں کے لیے مربوط حکمت عملی کی تیاری، ممالک کے مابین ان پالیسیوں کے اشتراک اور علاقائی سطح پر معاشی تعاون سے کام لیا جائے گا۔ جنوبی دنیا کے مابین علم اور مہارتوں کے تبادلے میں سہولت دینا اور ماحول دوست صنعت کاری کے حوالے سے چین کے تجربات سے سیکھنا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔

معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ بدعنوانی سے نمٹنے اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے جامع گورننس اصلاحات ضروری ہیں۔

مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور عوامی مالیات کو ذمے داری سے منظم کرنے کے لیے موثر مالیاتی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر عملدرآمد ضروری ہے۔

ٹیکس وصولی کے طریقہ کارکو بہتر بنانا، اور ٹیکس چوری کو روکے بغیرکوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ صنعتی ترقی کو آسان بنانے اور برآمدی مسابقت کو بڑھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، جیسے سڑکیں، بندرگاہیں اور توانائی کے منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے اور بہتری کی راہ ہموار کرنے کے لیے کئی انقلابی اور حقیقت پسندانہ اقدامات کی ضرورت ہے، ہمیں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اورکاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا، جس کے لیے ہنر مند افراد کو تیارکرنا نہایت اہم ہے۔

کمزور آبادیوں کو اقتصادی اصلاحات کی منفی حکومتی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن کو اپنا کر بہت سے مسائل سے نکل سکتے ہیں۔ علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی استحکام کو اقتصادی پالیسیوں میں ضم کرنا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور طویل مدتی منصوبوں کو یقینی بنایا جا سکے۔

اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ تعاون کے ساتھ طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کو تیارکرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہوگا، اگر ہم یہ فیصلے کرتے ہیں تو مشکل حالات اور بڑی بڑی رکاوٹوں کے باوجود گو کہ سیاسی استحکام، مالیاتی نظم و ضبط، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ پر توجہ مرکوزکرنے کے کلیدی شعبے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی ماڈل کو حقیقی معنوں میں عوامی اور جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا جمہوری نظام جس میں چیک اینڈ بیلنس کے اصول کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی جائے،جب تک ریاست کے بااختیار اور طاقتور عہدوں کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا میکنزم نافذ نہیں ہوتا، اس وقت تک معاشی ترقی ہوسکتی ہے نہ جمہور کو ان کا حق مل سکتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔