ہماری پسماندگی اور تاریخ کے اوراق آخری حصہ
ہم اب تک ترقی دوست، روشن خیال ماحول کو تخلیق کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں
دنیا تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ زیادہ ترقی پذیر بالخصوص ہمارے خطے کے ملکوں نے سائنس، معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ہونے والی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے لیے خود کو شعوری طور پر تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس ضمن میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم اب تک ترقی دوست، روشن خیال ماحول کو تخلیق کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
میں زیر نظر کالم میں اس حقیقت کو اجاگر کر رہی ہوں کہ مغرب چند صدیوں میں تاریک دور سے نکل کر ایک جدید، مہذب اور ترقی یافتہ دور میں کس طرح داخل ہوا۔ نوجوان نسل کو یہ ضرور بتایا جائے کہ مغربی استعمار نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کا کتنا بھیانک استحصال کیا لیکن اس کے ساتھ انھیں یہ بتانا شاید کہیں زیادہ اہم ہے کہ مغرب کے دانشوروں، فلسفیوں اور سائنسدانوں نے پسماندگی اور تاریکی سے نکلنے کے لیے کتنی کٹھن جدوجہد کی۔
اس حوالے سے اب آئیے اٹھارہویںصدی کی طرف۔ 1764 میں جمز واٹ بھاپ کے انجن کی ایجاد کی طرف پہلا قدم اٹھاتا ہے اور کنڈنسر تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور صرف گیارہ برس بعد 1775 میں وہ بھاپ کا انجن ایجاد کرلیتا ہے۔
اور اس کے ساتھ اٹھارہویں صدی اس بات پر ناز کرنے میں حق دار ہوجاتی ہے کہ صنعتی انقلاب اس کے حصے میں آیا۔ یہ وہ انقلاب ہے جس نے صرف مغرب کی نہیں ساری دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ تمام دنیا کے عقل پرست سائنسی نظریات کے ہتھیار سے لیس ہوئے اور اس کے اہل ہوئے کہ ہزاروں برس پرانے لاتعداد عقائد یکے بعد دیگرے باطل کرتے جائیں۔
یہ اٹھارہویں صدی ہے جب سائنسی فکر کی بالادستی قائم ہوئی، نئی قدروں نے جنم لیا، پیداوار کے نئے طریقے وجود میں آئے۔ ہزار ہا سال سے دنیا کے مختلف معاشروں میں لہراتے ہوئے زرعی معاشرت کے پھریرے لپیٹے گئے اور صنعتی معاشرت کا پرچم ہر شعبہ حیات میں بلند ہوا۔ صنعتی طرز زندگی نے انسان کی ہزار ہا برسوں میں مستحکم ہونے والی تہذیب، تمدن اور معاشرت کو متغیر کردیا اور ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوا۔
اس جائزے کے بعد مختصراً دیکھا جائے کہ گزشتہ صدیوں میں انسان نے کتنی بے مثال ترقی کی۔ 18 ویں صدی میں امریکی انقلاب اور انقلاب فرانس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی صدی میں مشینی دور کا آغاز ہوا۔ کارخانوں میں بھاری مقدار میں پیداوار ہونے لگی۔ نو آبادی دور شروع ہوا۔ کوئلے، لوہے، فولاد اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں وجود میں آئیں۔
سڑکوں، پلوں اور ریلوے کا جال بچھنے لگا۔ بین الاقوامی تجارت کا حجم بہت بڑھ گیا اور زراعت کے شعبے میں بھی انقلاب آگیا۔ اس صدی میں تاریخ کے کئی عظیم لوگ پیدا ہوئے جن میں امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن، آئزک نیوٹن، نپولین بونا پارٹ، امریکی صدر اور ادیب، سیاستدان، سائنسدان، موجد اور اعلیٰ پائے کا سفارتکار، بنجامن فرینکلن، مغرب کی دنیائے موسیقی کا عظیم ترین موسیقار موزارٹ، بیتھوین، مصنف جین آسٹن، جان لاک، ولیم ورڈس ورتھ، والٹیر،کانت، جدید دورکا بابائے معیشت آدم اسمتھ، گوئٹے، روسو، تھامس پین، ان گنت مشہور لوگ شامل تھے۔
جب ہم 19 ویں صدی پر نظر ڈالتے ہیں تو ابراہم لنکن، البرٹ آئن اسٹائن، چارلس ڈارون، چارلس ڈکنز، چارلی چپلن، ہیلن کلر، میری کیوری، پبلوپیکاسو، تھیوڈور روز ویلٹ، تھامس ایڈسن، ونسٹ وان گو، ونسٹن چرچل، ملکہ وکٹوریہ، بسمارک، سن یات سن اور مہاتما گاندھی کے علاوہ بے شمار عظیم شخصیات پیدا ہوئیں۔
یہ ایجادات کی صدی بھی کہلاتی ہے۔ 19 ویں صدی میں بھاپ کا انجن، پہلی آٹو موبائل، پہلا برقی ٹیلی گراف، پہلا میکینیکل کمپیوٹر، ربڑ کا پہلا غبارہ، پہلی ماچس، پہلا ریوالور، کمرشل لائٹ بلب، جدید بائیسکل، کوکا کولا، پہلا ایکسرے، پہلی موٹر کار، جیسی درجنوں ایجادات ہوئیں۔
اب ایک نظر بیسویں صدی پر بھی ڈالی جائے جس میں لینن، ماؤ، فیڈل کاسترو، کمال اتا ترک، پنڈت نہرو، دینگ زیاؤپنگ، مارٹن لوتھر کنگ، مارلن منرو، پرنسس ڈیانا، نیلسن منڈیلا جیسے عظیم لوگ پیدا ہوئے۔ چرچل، البرٹ آئن اسٹائن، فرنیکلن روز ویلٹ، میخائل گورباچوف، مہاتما گاندھی کو اس صدی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیات میں شامل کیا جاتا ہے۔
اس صدی کے دوران کمپیوٹر، انٹرنیٹ جیسی انسانی تاریخ کی بہترین ایجادات ہوئیں، آزادی کی بے مثال تحریکیں کامیاب ہوئیں۔ دنیا کی ہر بڑی زبان میں بے مثال ادب پیدا ہوا۔ 20 ویں صدی کی نمایاں خصوصیت یقینا تیز رفتار ترقی تھی لیکن یہ صدی بھیانک ترین جنگوں اور خانہ جنگیوں کے حوالے سے بھی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1918 تک جاری ہے۔ جس میں 90 لاکھ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کو 20 ویں صدی کی سب سے بڑی جنگ کہا جاتا ہے۔ جو 1939 میں شروع ہوکر 1945 میں ختم ہوئی۔ 1940 میں دنیا کی آبادی 2 ارب 30 کروڑ تھی۔ جس کی 3 فیصد آبادی اس جنگ کی نذر ہوگئی۔
محتاط ترین اندازوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 80 کروڑ سے زیادہ تھی۔ ان دو عالمی جنگوں کے علاوہ کوریا، ویت نام کی جنگیں ہوئیں جس کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوگیا جو 1945 سے شروع ہوکر 1991 میں سوویت یونین کے انہدام پر ختم ہوئی۔ اس صدی میں لاکھوں انسان آزادی کی تحریکوں اور خانہ جنگیوں میں مارے گئے۔
قبائلی اور زرعی معاشروں میں استحصالی طبقات نے نئے تمدن اور انقلاب کی بھرپور مزاحمت کی اور اس کے لیے مذاہب کو ایک کاری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ صنعتی انقلاب نے اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے روشن خیالی اور خرد افروزی کے چراغ روشن کیے لیکن اس انقلاب کے چند تاریک پہلو بھی تھے۔
صنعتی انقلاب کے بطن سے پیدا ہونے والے سرمایہ دارانہ نظام نے جلد ہی سامراجیت کا روپ دھار لیا اور دو تہائی سے زیادہ دنیا، چند سامراجی ملکوں کی نو آبادی بن گئی۔ نوآبادی تسلط کو برقرار رکھنے کی خاطر محکوم ملکوں کے عوام کو تقسیم کیا گیا ۔
قومی آزادی کی تحریکوں اور مظلوم طبقوں کی انقلابی جدوجہد کو ناکام بنانے کی غرض سے خرد افروزی، روشن خیالی اور جمہوریت کے مغربی علمبرداروں نے مذہبی انتہا پسندی کا جو بھیانک استعمال کیا وہ بلاشبہ انسانی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔
تاہم یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ فقط تغیرکو ہے ثبات زمانے میں۔ ارتقا کا سفر کبھی نہیں رکتا۔ بیسویں صدی نے سائنس او ر ٹیکنالوجی کاانقلاب برپا کیا جس نے اٹھارہویں صدی میں تشکیل پانے والے صنعتی تمدن کو زمین بوس کردیا۔ اب اکیسویں صدی ایک نئی دنیا تشکیل کرنے والی ہے۔ اس صورت حال نے جہاں انتہائی ترقی یافتہ تمدن اور صنعتی ترقی کی انتہا کو چھونے والے معاشروں کے لیے نئے چیلنج پیدا کیے ہیں، وہیں عصر حاضر میں سانس لینے والے مسلم معاشروں کو انتہائی بنیادی سوالات سے دوچار کردیا ہے۔
ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ عصر حاضر کے تقاضوں کی تفہیم اور اس سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا وہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں گے یا پسپائی اختیار کر کے خود کو دنیا سے الگ تھلگ کرلیں گے؟ یہ امر خوش آیند ہے کہ عرب ممالک اپنی روایتی قدامت پسندی سے باہر نکلنے کے لیے اپنے معاشی اور سماجی نظام میں انقلابی اصلاحات لارہے ہیں۔
خلیج کی عرب ریاستیں جس طور تبدیل ہو رہی ہیں چند برس پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عصر حاضر کا تقاضہ ہے کہ سائنس کی بالادستی، ٹیکنالوجی کے فروغ، روشن خیالی کے پھیلاؤ اور خرد افروزی کی توسیع کے لیے اپنے ہم ذہن و دل کے دروازے کھول دیں۔ نئے نظریات اور تازہ تصورات کو اپنا کر ہی ہم دور جدید کے ثمرات سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔
اس ضمن میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم اب تک ترقی دوست، روشن خیال ماحول کو تخلیق کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
میں زیر نظر کالم میں اس حقیقت کو اجاگر کر رہی ہوں کہ مغرب چند صدیوں میں تاریک دور سے نکل کر ایک جدید، مہذب اور ترقی یافتہ دور میں کس طرح داخل ہوا۔ نوجوان نسل کو یہ ضرور بتایا جائے کہ مغربی استعمار نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کا کتنا بھیانک استحصال کیا لیکن اس کے ساتھ انھیں یہ بتانا شاید کہیں زیادہ اہم ہے کہ مغرب کے دانشوروں، فلسفیوں اور سائنسدانوں نے پسماندگی اور تاریکی سے نکلنے کے لیے کتنی کٹھن جدوجہد کی۔
اس حوالے سے اب آئیے اٹھارہویںصدی کی طرف۔ 1764 میں جمز واٹ بھاپ کے انجن کی ایجاد کی طرف پہلا قدم اٹھاتا ہے اور کنڈنسر تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور صرف گیارہ برس بعد 1775 میں وہ بھاپ کا انجن ایجاد کرلیتا ہے۔
اور اس کے ساتھ اٹھارہویں صدی اس بات پر ناز کرنے میں حق دار ہوجاتی ہے کہ صنعتی انقلاب اس کے حصے میں آیا۔ یہ وہ انقلاب ہے جس نے صرف مغرب کی نہیں ساری دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ تمام دنیا کے عقل پرست سائنسی نظریات کے ہتھیار سے لیس ہوئے اور اس کے اہل ہوئے کہ ہزاروں برس پرانے لاتعداد عقائد یکے بعد دیگرے باطل کرتے جائیں۔
یہ اٹھارہویں صدی ہے جب سائنسی فکر کی بالادستی قائم ہوئی، نئی قدروں نے جنم لیا، پیداوار کے نئے طریقے وجود میں آئے۔ ہزار ہا سال سے دنیا کے مختلف معاشروں میں لہراتے ہوئے زرعی معاشرت کے پھریرے لپیٹے گئے اور صنعتی معاشرت کا پرچم ہر شعبہ حیات میں بلند ہوا۔ صنعتی طرز زندگی نے انسان کی ہزار ہا برسوں میں مستحکم ہونے والی تہذیب، تمدن اور معاشرت کو متغیر کردیا اور ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوا۔
اس جائزے کے بعد مختصراً دیکھا جائے کہ گزشتہ صدیوں میں انسان نے کتنی بے مثال ترقی کی۔ 18 ویں صدی میں امریکی انقلاب اور انقلاب فرانس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی صدی میں مشینی دور کا آغاز ہوا۔ کارخانوں میں بھاری مقدار میں پیداوار ہونے لگی۔ نو آبادی دور شروع ہوا۔ کوئلے، لوہے، فولاد اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں وجود میں آئیں۔
سڑکوں، پلوں اور ریلوے کا جال بچھنے لگا۔ بین الاقوامی تجارت کا حجم بہت بڑھ گیا اور زراعت کے شعبے میں بھی انقلاب آگیا۔ اس صدی میں تاریخ کے کئی عظیم لوگ پیدا ہوئے جن میں امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن، آئزک نیوٹن، نپولین بونا پارٹ، امریکی صدر اور ادیب، سیاستدان، سائنسدان، موجد اور اعلیٰ پائے کا سفارتکار، بنجامن فرینکلن، مغرب کی دنیائے موسیقی کا عظیم ترین موسیقار موزارٹ، بیتھوین، مصنف جین آسٹن، جان لاک، ولیم ورڈس ورتھ، والٹیر،کانت، جدید دورکا بابائے معیشت آدم اسمتھ، گوئٹے، روسو، تھامس پین، ان گنت مشہور لوگ شامل تھے۔
جب ہم 19 ویں صدی پر نظر ڈالتے ہیں تو ابراہم لنکن، البرٹ آئن اسٹائن، چارلس ڈارون، چارلس ڈکنز، چارلی چپلن، ہیلن کلر، میری کیوری، پبلوپیکاسو، تھیوڈور روز ویلٹ، تھامس ایڈسن، ونسٹ وان گو، ونسٹن چرچل، ملکہ وکٹوریہ، بسمارک، سن یات سن اور مہاتما گاندھی کے علاوہ بے شمار عظیم شخصیات پیدا ہوئیں۔
یہ ایجادات کی صدی بھی کہلاتی ہے۔ 19 ویں صدی میں بھاپ کا انجن، پہلی آٹو موبائل، پہلا برقی ٹیلی گراف، پہلا میکینیکل کمپیوٹر، ربڑ کا پہلا غبارہ، پہلی ماچس، پہلا ریوالور، کمرشل لائٹ بلب، جدید بائیسکل، کوکا کولا، پہلا ایکسرے، پہلی موٹر کار، جیسی درجنوں ایجادات ہوئیں۔
اب ایک نظر بیسویں صدی پر بھی ڈالی جائے جس میں لینن، ماؤ، فیڈل کاسترو، کمال اتا ترک، پنڈت نہرو، دینگ زیاؤپنگ، مارٹن لوتھر کنگ، مارلن منرو، پرنسس ڈیانا، نیلسن منڈیلا جیسے عظیم لوگ پیدا ہوئے۔ چرچل، البرٹ آئن اسٹائن، فرنیکلن روز ویلٹ، میخائل گورباچوف، مہاتما گاندھی کو اس صدی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیات میں شامل کیا جاتا ہے۔
اس صدی کے دوران کمپیوٹر، انٹرنیٹ جیسی انسانی تاریخ کی بہترین ایجادات ہوئیں، آزادی کی بے مثال تحریکیں کامیاب ہوئیں۔ دنیا کی ہر بڑی زبان میں بے مثال ادب پیدا ہوا۔ 20 ویں صدی کی نمایاں خصوصیت یقینا تیز رفتار ترقی تھی لیکن یہ صدی بھیانک ترین جنگوں اور خانہ جنگیوں کے حوالے سے بھی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1918 تک جاری ہے۔ جس میں 90 لاکھ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کو 20 ویں صدی کی سب سے بڑی جنگ کہا جاتا ہے۔ جو 1939 میں شروع ہوکر 1945 میں ختم ہوئی۔ 1940 میں دنیا کی آبادی 2 ارب 30 کروڑ تھی۔ جس کی 3 فیصد آبادی اس جنگ کی نذر ہوگئی۔
محتاط ترین اندازوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 80 کروڑ سے زیادہ تھی۔ ان دو عالمی جنگوں کے علاوہ کوریا، ویت نام کی جنگیں ہوئیں جس کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوگیا جو 1945 سے شروع ہوکر 1991 میں سوویت یونین کے انہدام پر ختم ہوئی۔ اس صدی میں لاکھوں انسان آزادی کی تحریکوں اور خانہ جنگیوں میں مارے گئے۔
قبائلی اور زرعی معاشروں میں استحصالی طبقات نے نئے تمدن اور انقلاب کی بھرپور مزاحمت کی اور اس کے لیے مذاہب کو ایک کاری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ صنعتی انقلاب نے اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے روشن خیالی اور خرد افروزی کے چراغ روشن کیے لیکن اس انقلاب کے چند تاریک پہلو بھی تھے۔
صنعتی انقلاب کے بطن سے پیدا ہونے والے سرمایہ دارانہ نظام نے جلد ہی سامراجیت کا روپ دھار لیا اور دو تہائی سے زیادہ دنیا، چند سامراجی ملکوں کی نو آبادی بن گئی۔ نوآبادی تسلط کو برقرار رکھنے کی خاطر محکوم ملکوں کے عوام کو تقسیم کیا گیا ۔
قومی آزادی کی تحریکوں اور مظلوم طبقوں کی انقلابی جدوجہد کو ناکام بنانے کی غرض سے خرد افروزی، روشن خیالی اور جمہوریت کے مغربی علمبرداروں نے مذہبی انتہا پسندی کا جو بھیانک استعمال کیا وہ بلاشبہ انسانی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔
تاہم یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ فقط تغیرکو ہے ثبات زمانے میں۔ ارتقا کا سفر کبھی نہیں رکتا۔ بیسویں صدی نے سائنس او ر ٹیکنالوجی کاانقلاب برپا کیا جس نے اٹھارہویں صدی میں تشکیل پانے والے صنعتی تمدن کو زمین بوس کردیا۔ اب اکیسویں صدی ایک نئی دنیا تشکیل کرنے والی ہے۔ اس صورت حال نے جہاں انتہائی ترقی یافتہ تمدن اور صنعتی ترقی کی انتہا کو چھونے والے معاشروں کے لیے نئے چیلنج پیدا کیے ہیں، وہیں عصر حاضر میں سانس لینے والے مسلم معاشروں کو انتہائی بنیادی سوالات سے دوچار کردیا ہے۔
ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ عصر حاضر کے تقاضوں کی تفہیم اور اس سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا وہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں گے یا پسپائی اختیار کر کے خود کو دنیا سے الگ تھلگ کرلیں گے؟ یہ امر خوش آیند ہے کہ عرب ممالک اپنی روایتی قدامت پسندی سے باہر نکلنے کے لیے اپنے معاشی اور سماجی نظام میں انقلابی اصلاحات لارہے ہیں۔
خلیج کی عرب ریاستیں جس طور تبدیل ہو رہی ہیں چند برس پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عصر حاضر کا تقاضہ ہے کہ سائنس کی بالادستی، ٹیکنالوجی کے فروغ، روشن خیالی کے پھیلاؤ اور خرد افروزی کی توسیع کے لیے اپنے ہم ذہن و دل کے دروازے کھول دیں۔ نئے نظریات اور تازہ تصورات کو اپنا کر ہی ہم دور جدید کے ثمرات سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔