رام مندر کا افتتاح حقیقت میں ایک یوم سیاہ

بھارت کو ایک ہندو مذہبی ریاست جسے بھارتی مفکر ’’اکھنڈ بھارت یا مہا بھارتا‘‘ کہتے ہیں میں تبدیل کیا جانا ہے



بھارتی شہر ایودھیا (اترپردیش) میں سن 29-1528ء میں مغل بادشاہ بابر کے دور میں سنبھل' پانی پت اور ایودھیا میں الگ الگ تین مساجد تعمیر کی گئی تھیں، ان تین مساجد میں سے ایودھیا کی معروف بابری مسجد کو سن 1992 میں ہندو بلوائیوں نے یہ کہہ کر شہید کر دیا کہ یہ ان کے مذہبی رہنما ''رام'' کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش ہے۔

ہندو اسکرپٹ میں تین راماؤں (پاراشو راما' بالاراما اور رام چندرا) کا ذکر ملتا ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق رام چندرا جو بہادری اور نیکی کا دیوتا ہے، خدا کا ساتواں روپ یعنی ''اوتارا'' ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور اسی جگہ پر رام مندر کی تعمیر اس بھارتی ریاستی پالیسی کا تسلسل ہے جس کے مطابق بھارت کو ایک ہندو مذہبی ریاست جسے بھارتی مفکر ''اکھنڈ بھارت یا مہا بھارتا'' کہتے ہیں میں تبدیل کیا جانا ہے۔ یاد رہے کہ اس مقصد کی تکمیل میں تمام بھارتی حکمران اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس مسجد کی شہادت کا واقعہ سن 1992میں ہی کیوں پیش آیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے دور میں اس کا افتتاح کیوں کیا جا رہا ہے؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا جدید ریاستی نظام اور موجودہ لبرل ورلڈ آرڈر جس کا داعی اور محافظ امریکی قیادت میں پورا مغرب ہے۔

اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی مذہب کے مقدس مقام کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کا دعویٰ کرنے والی ریاست بھارت کو یہ زیب دیتا ہے کہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی مقام کو ملیامیٹ کرکے ہندو مندر تعمیر کرے؟ پانچواں سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص مسلم ممالک کا اس پر رسپانس کیا ہے؟

بابری مسجد پر ہندو بلوائیوں نے سن 1992 میں اس وقت حملہ کیا جب امریکی صدر کلنٹن کے دور میں امریکا اور بھارت کے درمیان قربتیں بڑھنی شروع ہوئیں اور بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم ''راشٹریہ سویم سینگ'' جسے آر ایس ایس بھی کہا جاتا ہے کا سربراہ نرسیما راؤ بھارت کا وزیراعظم تھا۔ راؤ کو عصر حاضر کا ''کوٹیلہ چانکیہ'' بھی کہا جاتا ہے۔

1925میں قائم ہونے والی اس تنظیم کا مقصد پورے بھارت میں ہندو مذہب کا راج اور ''اکھنڈ بھارت'' کے پروجیکٹ کی تکمیل تھا جس کے حصول کو تقسیم ہند نے وقتی طور پر ملتوی کر دیا۔ ساری دنیا جس وقت نام نہاد مسلم دہشت گردوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھی، ایسے میں بھارت اپنے ''اکھنڈ بھارت'' کے پروجیکٹ کی تکمیل میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔

2000 مسلمانوں کا قتل عام جس کے کئی عینی شاہدین اب بھی موجود ہیں ،اسی مقصد کا ایک ضمنی منصوبہ تھا۔ جس وقت مسلمانوں نے ہندو بلوائیوں کو روکنے کی کوشش کی تو ان فسادات میں بھارتی ریاستی مشینری نے مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے بلوائیوں کی سرپرستی کی۔

سن 2019 میں دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت اور سیکولر ریاست کی سپریم کورٹ نے ہندوؤں کا بابری مسجد پر دعویٰ درست قرار دیتے ہوئے 217ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے رام مندر کی تعمیر کی اجازت بھی دی اور ساتھ مسلمانوں کے لیے ایک ویران جگہ پر پچیس ایکڑ زمین مسجد تعمیر کرنے کے لیے مختص کر دی۔

ہندو مذہبی جنونیوں' بھارتی سپریم کورٹ اور حکومت کا گٹھ جوڑ اس وقت بے نقاب ہو گیا جب اس عدالت نے نریندرا مودی کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو جائز قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کے حق پر ڈاکا مارنے میں ہندو انتہاپسندوں کی مدد کی۔

یہ بات بھی آن ریکارڈ رہنی چاہیے کہ نرسیما راؤ دور (1996) میں ہی بھارتی ایٹمی سائنسدان عبدالکلام نے بھارتی حکومت کو ایٹمی دھماکے کرنے کا کہا جنھیں بھارت میں سن 1996کے الیکشن کی وجہ سے دو سال کے لیے ملتوی کر دیا گیا اور واجپائی حکومت نے یہ کام سن 1998 مئی میں کیا، ان ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی انتہا پسند ہندوؤں نے پاکستان کو مٹانے تک کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔

22جنوری سن 2024 کو بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی بابری مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ تعمیر کیے گئے ''رام مندر'' کا افتتاح کردیا ہے تو ایسے میں تاریخی حقائق درست پیرائے میں ریکارڈ کرنا اور عام لوگوں تک پہنچانا عصر حاضر کے تاریخ دانوں کی اخلاقی ذمے داری اور ترجیح بھی ہونی چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ اٹل بہاری واجپائی' من موہن سنگھ اور نریندرا مودی حکومتی ادوار میں ہندو مذہبی دہشت گرد تنظیموں نے بھارت میں دیگر مذاہب بالخصوص مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیے رکھا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ آج جب عرب ممالک ہندو مندروں کے افتتاح کر رہے ہیں۔

بھارت میں مسلم کش فسادات ہوں یا کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی یا پھر بابری مسجد کی شہادت اس پر مغربی طاقتوں نے جہاں ہمیشہ چشم پوشی ہی کی ہے، وہاں اپنے معاشی مفادات کی خاطر مسلمان ممالک کی بے حسی بھی حیران کن ہے، صرف پاکستان ہے جس کی بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کی خاطر اٹھائی گئی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند ہے جو وقفے وقفے سے ہر فورم پر گونجتی نظر آتی ہے۔

جب جنوب ایشیائی سیاست کا امریکی مفکر اسٹیفن کوہن پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ ''پاکستان اپنے دو قومی نظریے کو ترک کر کے ایک سیکولر ریاست میں تبدیل ہو جائے۔'' 'جب کہ بھارتی مفکر فیصل دیوجی پاکستان کو اسلام کے قلعے کے بجائے اسلام کا مزار قرار دیتا ہے تو ایسے میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی زندگی پر لکھی گئی Narendra Modi:The Man,The Time کے مصنف نیلان جان کی بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ''مودی تاریخ میں اپنے آپ کو ایک بڑے آدمی کے طور پر زندہ رکھنا چاہتا ہے۔'' کیا بڑے آدمی ایسے ہوتے ہیں؟

دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست کا دعویٰ بھی کریں اور ریاست کے سربراہ ہو کر دوسرے مذاہب کے تاریخی مقامات اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کی لاشوں پر اپنے مذہب اور مذہبی مقامات کی بنیادیں رکھیں؟

اوپر مذکورہ کتاب کے مصنف کے مطابق ہندو مذہب کو مودی آیندہ الیکشن میں ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ''رام مندر'' کی تعمیر اور نریندرا مودی کے ہاتھوں اس کا افتتاح بالکل ایسے ہی ہے جیسے اسرائیل کا سربراہ نیتن یاہو اپنے مذہبی مقام بیت المقدس کی خاطر فلسطین کے نہتے عورتوں' بچوں اور بوڑھوں پر مہلک بم بھی برسا رہا ہے اور ان تک کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ ان تک ادویات کو بھی پہنچنے نہیں دے رہا۔

بلاشبہ آج کا سیاہ دن بھارت کے نام نہاد سیکولر روپ کے پیچھے چھپے جنونی مذہبی چہرے اور ریاستی سربراہی میں مسلمانوں اور ان کے مقدس تاریخی مقامات کے خلاف بھارتی دہشت گردی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں