عالمی یومِ تعلیم پائیدار امن کا ضامن
تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے، جو سرپرست اور ریاست کی ذمے داری ہے۔ یہ معاشرے کی ترقی کا راستہ، امید کی کرن اور تبدیلی کےلیے لازمی عنصر ہے۔ معاشروں کی تشکیل میں اس کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 24 جنوری کو عالمی یومِ تعلیم کے طور پر امن اور ترقی کےلیے تعلیم کے کردار کو منانے کا اعلان کیا۔
عالمی یومِ تعلیم کی اہمیت جغرافیائی، سماجی یا معاشی پس منظر سے قطع نظر، سب کےلیے معیاری تعلیم تک مساوی رسائی پر زور دینے میں مضمر ہے۔ یعنی تعلیم سب کےلیے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں تفاوت برقرار ہے، یہ دن تعلیمی عدم مساوات کو دور کرنے اور جامع انداز میں مل جل کر سیکھنے کے مواقع کو یقینی بنانے کی فوری ضرورت کی یاد دہانی کو فروغ دیتا ہے۔
ہر سال، بین الاقوامی یوم تعلیم کا ایک مخصوص موضوع (theme) ہوتا ہے، جو تعلیم کے کسی ایک خاص پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ سال 2024 کے عالمی یومِ تعلیم کا موضوع ''پائیدار امن کےلیے سیکھنا "Learning for lasting peace" ہے، جو دنیا بھر میں پائیدار امن کو فروغ دینے کےلیے ایک لازمی امر کے طور پر تعلیم کی گہری اہمیت کو اجاگر کررہا ہے۔ تعلیم کو جب افہام و تفہیم، رواداری اور عالمی شہریت کو فروغ دینے کے ایک آلے کے طور پر اپنایا جاتا ہے، تو یہ تنازعات کو کم کرنے، متنوع معاشروں اور تہذیبوں کے درمیان ربط قائم کرنے اور امن کی ثقافت کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
تعلیم ''پائیدار امن کےلیے سیکھنے'' میں جہالت، تعصب اور تقسیم کے خلاف ایک طاقت ور تریاق کے طور پر کام کرے گی۔ تعلیم امید کی وہ کرن ہے جو معاشروں کو ہم آہنگی، اتحاد اور ایک دوسرے کےلیے افہام و تفہیم اور احترام کے اصولوں پر بنائے گئے مستقبل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ مزید برآں! تعلیم پائیدار امن کے قیام میں کثیرالجہتی کردار ادا کرتی ہے۔
تنازعات کا حل: تعلیم افراد کو تنازعات کے حل کی حکمت عملیوں، ہم دردی اور مختلف نقطۂ نظر کو سمجھتے ہوئے ان کو پُرامن اور تعمیری طور پر تنازعات کو حل کرنے کےلیے ضروری مہارتوں سے آراستہ کرتی ہے۔ لوگوں کو یہ سکھانا کہ بغیر لڑے مسائل کو کیسے حل کیا جائے، نیز دوسروں کے احساسات کو سمجھنے اور چیزوں کو مختلف نقطۂ نظر سے دیکھنے اور انھیں پُرامن اور مثبت طریقے سے دلائل اور اختلافِ رائے سے نمٹنے کےلیے درکار صلاحیتوں کو سیکھنے میں تعلیم مدد کرتی ہے۔
رواداری اور احترام کا فروغ: تعلیم ثقافتی تنوع کے احترام کی حوصلہ افزائی، ہم دردی اور رواداری کو فروغ دیتی ہے۔ یہ افراد کو خوف زدہ کرنے یا ان کی توہین کرنے کے بجائے اختلافات کو فراخ دلی سے سنتے ہوئے ان میں سے کچھ چیزیں مثبت انداز میں اپنانا سکھانے کے ساتھ ثقافتی تنوع کو مزید دلچسپ انداز میں اپنانے اور پیش کرنے کے قابل بناتی ہے۔ تعلیم کی بدولت جب ہم مختلف ثقافتوں، عقائد اور زندگی کے طریقوں کے بارے میں سیکھتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کےلیے زیادہ سمجھ دار اور مہربان بن جاتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ دیکھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہمارے اختلافات کے باوجود، ہم بہت سی مشترکہ اقدار اور تجربات کا اشتراک کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ افہام و تفہیم ہماری برادریوں کو مضبوط اور متحد بنا کر ہمیں جوڑ کر رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
عالمی شہریت کو فروغ دینا: جب تعلیم ایک اچھا عالمی شہری بننے پر مرکوز ہوتی ہے تو یہ ہمیں ذمے دار، یک جہتی کے سفیر اور باہمی ربط کی اقدار کو فروغ دینے کے ساتھ تمام مخلوقات کی دیکھ بھال کرنا سکھاتی ہے۔ چاہے ہم کہیں بھی رہیں تعلیم ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم سب جڑے ہوئے ہیں۔ عالمی شہریت کے بارے میں سیکھنے کا مطلب یہ سمجھنا ہے کہ ہمارے اعمال ہم سے دور لوگوں اور مقامات کو متاثر کرسکتے ہیں۔ تعلیم ہمیں مہربان ہو کر دوسروں کی مدد اور ماحول کی حفاظت کرکے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی ذمے داری اُٹھانے کے قابل بناتی ہے۔ نتیجتاً! مل کر کام کرکے ہم اپنے اپنے معاشروں اور دنیا میں بڑا فرق لاسکتے ہیں۔
تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا: جب ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر کسی کو زندگی میں مناسب مواقع ملیں تو اس سے اُن مسائل کو روکنے اور حل کرنے میں مدد ملتی ہے جو اکثر لڑائیوں اور اختلاف کا باعث بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنانا کہ ہر کسی کو ایک جیسے مواقع حاصل ہوں، چاہے اس کا پس منظر کچھ بھی ہو یا وہ کہیں سے بھی آیا ہو۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں بھی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ یکساں، نیز تمام لوگوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے۔ تعلیم کے ذریعے ہم ان وجوہات کو روک سکتے ہیں جو لوگوں کو ناراض یا ناخوش کرتی ہیں اور ایک ایسی دنیا بنانے میں مدد کرسکتے ہیں جہاں ہر کوئی قابلِ احترام اور قابلِ قدر محسوس کرے۔ اس طرح ہم ایک ایسی دنیا کےلیے کام کرسکتے ہیں جس میں کم تنازعات اور لوگوں کے درمیان زیادہ سمجھ بوجھ ہو۔
نوجوانوں کو بااختیار بنانا: جب نوجوان دنیا میں ہونے والی اہم چیزوں کے بارے میں سیکھتے ہیں، تو وہ حقیقی معنوں میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ تعلیم انھیں مختلف مسائل کے بارے میں احتیاط سے سوچنے اور ان کا بہتر حل تلاش کرنے کی کلید فراہم کرتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں وہ حق بات کرکے دنیا کو ایک بہتر اور پُرامن جگہ بنانے کےلیے کام کرسکتے ہیں۔ تعلیم سے نوجوان یہ بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں کہ امن اتنا اہم کیوں ہے اور وہ امن کو یقینی بنانے میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔ وہ امن کی راہ میں حائل غیر منصفانہ یا تکلیف دہ امور کے خلاف کھڑے ہو کر دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اپنے معاشروں اور اس سے باہر امن اور مثبت تبدیلی کے لیے مضبوط آواز بن سکتے ہیں۔
خواتین کو بااختیار بنانا: جب خواتین کو تعلیم تک رسائی حاصل ہوتی ہے تو اس سے لامتناہی امکانات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ تعلیم خواتین کو زیادہ خود مختار، پُراعتماد اور اپنے حقوق سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے بارے میں باخبر فیصلے کرنے کےلیے علم اور ہنر دے کر بااختیار بناتی ہے۔ یہ خود مختاری دیرپا امن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اپنے گھروں اور معاشرے کی مختلف سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں فعال طور پر حصہ لینے اور قائدانہ کردار ادا کرنے کےلیے بہتر طریقے سے لیس ہوتی ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین اکثر اپنے بچوں کی تعلیم کو ترجیح دیتی ہیں، جس سے سیکھنے اور ترقی کا ایک سفر شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا، تعلیم کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانا نہ صرف ان کے انفرادی مستقبل میں سرمایہ کاری ہے بلکہ دنیا بھر کے معاشروں میں دیرپا امن اور استحکام کو فروغ دینے کےلیے ایک لازمی امر بھی ہے۔
عالمی یومِ تعلیم اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ تعلیم کس طرح ایک تبدیلی کی قوت کے طور پر کام کرتی ہے اور رواداری، تنازعات کے حل اور عالمی شہریت کو فروغ دیتی ہے۔ جامع تعلیمی ماحول کے ذریعے، اسکول، اساتذہ، طلبا، والدین، سرکاری و سول سوسائٹی کے ادارے ہمدردی کو فروغ دے کر تنوع کا جشن منانے کے ساتھ خواتین کو معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کےلیے بااختیار بناکر ایک مساوی، خوش حال اور ہم آہنگ معاشرے کے تصور کو پورا کرنے کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔ سماجی و اقتصادی تفاوت کو دور کرنے اور مساوات کے پیغام کو عام کرتے ہوئے، تعلیم ایک پرامن دنیا کی تشکیل کےلیے بنیاد فراہم کرتی ہے جس میں افہام و تفہیم، احترام اور اتحاد ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔