بچیوں سے زیادتی کرنے والے بھیڑیے ہیں جو کسی رعایت کے مستحق نہیںپشاور ہائیکورٹ
آٹھ سالہ مناہل کو زیادتی و قتل کے مجرم کی اپیل مسترد، دو بار سزائے موت اور دو بار عمر قید کو فیصلہ برقرار
پشاور ہائی کورٹ نے کمسن بچی سے زیادتی و قتل کے مجرم کی سزائے موت کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے لوگ انسانی شکل میں بھیڑیے ہیں جو کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق 2018ء میں نوشہرہ کلاں میں 8 سالہ بچی مناہل کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے ملزم کی سزائے موت کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ پشاور ہائی کورٹ نے مجرم کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چائلڈ پروٹیکشن کورٹ نے مجرم کو دو بار سزائے موت اور دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
آج عدالت نے سماعتوں کے بعد 26 صفحات مشتمل فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے تحریر کیا ہے۔ جج نے فیصلے میں کہا کہ مجرم یاسر نے 28 دسمبر 2018ء کو نوشہرہ کلاں میں آٹھ سالہ بچی مناہل کو زیادتی کے بعد قتل کیا تھا، ایسے لوگ کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں یہ لوگ انسانی شکل میں بھیڑیے ہیں ان کی وجہ سے معاشرہ غیر یقینی صورتحال کی طرف جارہا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئے روز بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور ان میں اضافہ ہورہا ہے، نہ جانے کتنے بچے روزانہ ایسی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں، ایک معصوم بچی کو مدرسے سے اغوا کیا گیا اور اسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا یہ ظلم کی انتہا ہے۔
جج نے مزید تحریر کیا ہے کہ ہر صبح ایسے ہی ظلم کی ایک داستان لے کر ابھرتی ہے ایسی معصوم جانیں روزانہ یہ سوال کرتی ہے کہ ان کا کیا قصور تھا؟ اس کا جواب نہ عدالت کے پاس ہے اور نہ معاشرے کے پاس، ایسی عناصر کو کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق 2018ء میں نوشہرہ کلاں میں 8 سالہ بچی مناہل کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے ملزم کی سزائے موت کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ پشاور ہائی کورٹ نے مجرم کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چائلڈ پروٹیکشن کورٹ نے مجرم کو دو بار سزائے موت اور دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
آج عدالت نے سماعتوں کے بعد 26 صفحات مشتمل فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے تحریر کیا ہے۔ جج نے فیصلے میں کہا کہ مجرم یاسر نے 28 دسمبر 2018ء کو نوشہرہ کلاں میں آٹھ سالہ بچی مناہل کو زیادتی کے بعد قتل کیا تھا، ایسے لوگ کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں یہ لوگ انسانی شکل میں بھیڑیے ہیں ان کی وجہ سے معاشرہ غیر یقینی صورتحال کی طرف جارہا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئے روز بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور ان میں اضافہ ہورہا ہے، نہ جانے کتنے بچے روزانہ ایسی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں، ایک معصوم بچی کو مدرسے سے اغوا کیا گیا اور اسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا یہ ظلم کی انتہا ہے۔
جج نے مزید تحریر کیا ہے کہ ہر صبح ایسے ہی ظلم کی ایک داستان لے کر ابھرتی ہے ایسی معصوم جانیں روزانہ یہ سوال کرتی ہے کہ ان کا کیا قصور تھا؟ اس کا جواب نہ عدالت کے پاس ہے اور نہ معاشرے کے پاس، ایسی عناصر کو کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔