انٹر بورڈ سائنس کے متنازع نتائج کے بعد آرٹس اور کامرس کےطلبہ کی ’اکثریت‘ فیل

انٹر بورڈ کے نتائج لمحہ فکریہ ہے اور افسوس ناک ہے امتحانات کی دوبارہ جانچ کی جائے۔وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی

—فائل فوٹو

والدین اور طلبہ شدید پریشان ہیں نگران وزیر اعلیٰ سندھ کے ردعمل نے طلبہ کی مایوسی میں مزید اضافہ کردیا جبکہ بڑی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق انٹر بورڈ کراچی میں سال اول کے نتائج میں طلبا کی اکثریت فیل ہوجانے پر طلبہ و والدین ایک ہفتے سے سراپا احتجاج ہیں۔ متنازع نتائج کے معاملے پر گورنر سندھ کامران ٹسوری نے کہا یہ تشویشناک بات ہے کہ کراچی کے 64 فیصد طلبہ گیارہویں جماعت میں فیل ہیں، کوئی اس نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔

انٹر آرٹس سال اول ریگولر میں 80فیصد اور انٹر آرٹس سال اول پرائیویٹ میں 72فیصد امیدوار ناکام ہوگئے جبکہ کامرس پرائیویٹ سال اول میں 63فیصد امیدوار ناکام ہوگئے ہیں جبکہ جامعات میں داخلہ انٹر کے نتائج کی بنیاد پر ہوتا ہے۔


اس حوالے سے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش ہشمت لودھی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا انٹر بورڈ کے نتائج لمحہ فکریہ ہے اور افسوس ناک ہے امتحانات کی دوبارہ جانچ کی جائے۔

انہوں نے کہا کورونا وائرس کے دوران میں کیمبرج ایگزامینیشنز کا نتیجہ خراب آیا تھا طلبہ و والدین کے شدید احتجاج کے بعد نتیجہ ری کنسیڈر کیا گیا طلبہ مطمئن ہوگئے اسی طرح انٹر بورڈ کی گیارہویں جماعت کے نتائج پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔

سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا انٹربورڈ کے نتائج انتہائی خراب آئے ہیں یہی طلبہ جب ہماری یونیورسٹی میں داخلہ ٹیسٹ دیتے ہیں تو اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں اس کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کی بڑی جامعات کے داخلے ٹیسٹ کے نتائج اور ان ہی طلبہ کے بورڈ کے نتائج کا موازنہ کیا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ کمشنر کراچی و چیئرمین انٹر بورڈ سلیم راجپوت نے کہا ہے میٹرک میں 80 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے کسی دس طلبا و طالبات کی کاپیوں کی اسکروٹنی میں نمبر ری ٹوٹل کیے جائیں گےوہ خود اسکروٹنی کے لیے کاپیوں کو چیک کریں گے متنازع نتائج پر نہ صرف طلبا سراپا احتجاج ہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی طلبا کو انصاف فراہم کرنے اور نتائج کو منسوخ کرنے کامطالبہ کیا ہے۔
Load Next Story