وادی سون کی سردیاں اور شبِ تنور گزشت
ہر موسم اپنی رعنائیوں کے ساتھ آتا ہے اور جاتے ہوئے اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے
دنیا بھر میں موسم کی تبدیلی معمولات زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ موسمیات کے عالمی ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ موسم کی تبدیلی کے اثرات نظام زندگی بری طرح متاثر کریں گے ۔ گزشتہ ایک ماہ سے پنجاب میں دھند نے چادر اوڑھ رکھی ہے، اوپرشدید سردی اوراس کی شدت میں روز بروز اضافے سے معمولات زندگی کسی حد تک مفلوج ہیں ۔
شدید سردی اور خشک سالی کے سبب بیماریوں نے بھی گھیرا ڈال رکھا ہے ۔ خشک سالی کی مدت طویل ہو گئی ہے جو فصلوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے ۔لاہور میں پچھلے دو ہفتوں سے سورج ہی نظر نہیں آرہاہے، چاروں اطراف کہر چھائی ہوئی ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں برف باری نہ ہونے کے باعث ماہرین یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو گرمیوں میں پانی کی کمی ہوجائے گی، پانی کی یہ کمی فصلوں کی کاشت اور بجلی کی پیدوار کو شدید متاثر کرے گی جس کا اثر لامحالہ عوام پر پڑے گا اور وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورپیداوار میں کمی کے باعث غذائی اجناس کی مہنگائی برداشت کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ہر موسم اپنی رعنائیوں کے ساتھ آتا ہے اور جاتے ہوئے اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔لاہور کے یخ بستہ دنوںاور راتوں کی اطلاع جب گاؤں میں پہنچی تو وہاں سے ٹیلی فون آیا کہ گاؤں کا چکر لگا لیں کیونکہ وادی سون جو وسطی پنجاب میں سرسبزپہاڑوں میں گھری ایک دلفریب وادی ہے جہاں پر دن کو سورج اپنی پوری آب وتاب سے تمتماتا ہے البتہ رات کو سردی اپنی رنگ خوب جماتی ہے ۔ صاف شفاف آب و ہوا میں چند روز گزارنے کے لالچ میںگاؤں کا رخ کیا ہے۔
وادی سون میں دن بھر سورج کی تمازت اپنا رنگ خوب جما رہی ہے لیکن رات کو موسم منفی درجہ میں چلا جاتا ہے جس کی اطلاع کھیتوں میں جمی کہرے کی سفید چادر دیتی ہے۔ صبح سویرے پانی کے گھڑوں کے ڈھکن اٹھانے سے پتا چلتا ہے کہ رات کو موسم کی صورتحال کیا تھی کیونکہ برف کی ہلکی سی تہہ پانی کی سطح پر جمی ہوتی ہے، پہاڑی علاقوں میں سرد موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے خشک لکڑیوں کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے ۔
ہر گھر میں ایک ایسا کمرہ ضرور ہوتا ہے جہاں آگ جلائی جاتی ہے اوراس کے ارد گرد بچھی چٹائیوں پر گھر کے تمام افراد بیٹھ کر سردی کی شدت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اسی کمرے میں جلتی آگ پر چولہے پر کھاناپکتا ہے اور پھر یہیں پر بیٹھ کر کھایا جاتا ہے۔ آگ اور دھوئیں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر خشک لکڑی دستیاب ہو تو دھواں کم ہوتا ہے لیکن اگر گیلی لکڑیوں کی آگ جلائی جائے تو دھواں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
وادی سون کے لوگ مہمان نواز ہیں لیکن اس خطے کی آب و ہوا بھی مہمان نواز ہے۔ وادی سون کے پہاڑوں کے دامن میں گھری تین وسیع و عریض جھیلیں سردیوں کے موسم میں مہمان پرندوں کا مسکن بنتی ہیں ۔ سرد موسم کے آغاز میں سائبیریا کے برف زاروں سے پرندے ہجرت کرکے کم سرد خطوں کا رخ کرتے ہیں۔
وادی سون کا مہمان نواز موسم ان مہمان پرندوں کا میزبان ہے۔یہاں ایک حکایت یاد آرہی ہے جس کا ذکر انھی کالموں میں آپ کئی بار پڑھ چکے ہوں گے کیونکہ یہ حکایت میرے مرحوم والد صاحب کی پسندیدہ حکایت تھی۔ ''سردیوں کے دن تھے، ایک درویش اور ملنگ سردی میں کانپتا ہوا ، ان خیموں کی کی طرف بڑھا جو شکاریوں نے شب بسری کے لیے لگا رکھے تھے۔
اس فقیر نے جس خیمے میں بھی جھانکا، اسے جگہ نہ مل سکی، اس جھانکا جھانکی میں وہ عام خیموں سے الگ سردار کے خیمے کی جانب بڑھ گیا کیونکہ بڑے لوگوں کے پاس کسی مہمان کی گنجائش ہوتی ہے چنانچہ اس نے بڑی امید کے ساتھ سردار کے خیمے کا پردہ اٹھایا تو محافظوں نے اسے جھاڑ دیا اوروہاں سے چلے جانے کو کہا۔ درویش ملنگ کو قریب ہی ایک تندور دکھائی دیا جو بجھ چکا تھا مگر گرمی ہنوز باقی تھی۔
وہ اپنی گدڑی میں لپٹ کر اس تنور کے ساتھ لگ کر سو گیا جب صبح اٹھا تو ا سے یاد آیا کہ اس کے قریب ہی رات کو ایک رئیس نے سمور اور اونی کپڑوں میں رات بسر کی ہے، اس پر فقیر نے بے ساختہ ایک بات کہی جو ضرب المثل بن گئی کہ 'شبِ سمور گزشت و شبِ تنور گزشت۔ یعنی سمور اور گرم کپڑوں میں بھی رات گزر گئی اور تنور کے ساتھ لپٹ کر بھی رات گزر ہی گئی۔
شدید سردی اور خشک سالی کے سبب بیماریوں نے بھی گھیرا ڈال رکھا ہے ۔ خشک سالی کی مدت طویل ہو گئی ہے جو فصلوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے ۔لاہور میں پچھلے دو ہفتوں سے سورج ہی نظر نہیں آرہاہے، چاروں اطراف کہر چھائی ہوئی ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں برف باری نہ ہونے کے باعث ماہرین یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو گرمیوں میں پانی کی کمی ہوجائے گی، پانی کی یہ کمی فصلوں کی کاشت اور بجلی کی پیدوار کو شدید متاثر کرے گی جس کا اثر لامحالہ عوام پر پڑے گا اور وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورپیداوار میں کمی کے باعث غذائی اجناس کی مہنگائی برداشت کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ہر موسم اپنی رعنائیوں کے ساتھ آتا ہے اور جاتے ہوئے اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔لاہور کے یخ بستہ دنوںاور راتوں کی اطلاع جب گاؤں میں پہنچی تو وہاں سے ٹیلی فون آیا کہ گاؤں کا چکر لگا لیں کیونکہ وادی سون جو وسطی پنجاب میں سرسبزپہاڑوں میں گھری ایک دلفریب وادی ہے جہاں پر دن کو سورج اپنی پوری آب وتاب سے تمتماتا ہے البتہ رات کو سردی اپنی رنگ خوب جماتی ہے ۔ صاف شفاف آب و ہوا میں چند روز گزارنے کے لالچ میںگاؤں کا رخ کیا ہے۔
وادی سون میں دن بھر سورج کی تمازت اپنا رنگ خوب جما رہی ہے لیکن رات کو موسم منفی درجہ میں چلا جاتا ہے جس کی اطلاع کھیتوں میں جمی کہرے کی سفید چادر دیتی ہے۔ صبح سویرے پانی کے گھڑوں کے ڈھکن اٹھانے سے پتا چلتا ہے کہ رات کو موسم کی صورتحال کیا تھی کیونکہ برف کی ہلکی سی تہہ پانی کی سطح پر جمی ہوتی ہے، پہاڑی علاقوں میں سرد موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے خشک لکڑیوں کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے ۔
ہر گھر میں ایک ایسا کمرہ ضرور ہوتا ہے جہاں آگ جلائی جاتی ہے اوراس کے ارد گرد بچھی چٹائیوں پر گھر کے تمام افراد بیٹھ کر سردی کی شدت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اسی کمرے میں جلتی آگ پر چولہے پر کھاناپکتا ہے اور پھر یہیں پر بیٹھ کر کھایا جاتا ہے۔ آگ اور دھوئیں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر خشک لکڑی دستیاب ہو تو دھواں کم ہوتا ہے لیکن اگر گیلی لکڑیوں کی آگ جلائی جائے تو دھواں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
وادی سون کے لوگ مہمان نواز ہیں لیکن اس خطے کی آب و ہوا بھی مہمان نواز ہے۔ وادی سون کے پہاڑوں کے دامن میں گھری تین وسیع و عریض جھیلیں سردیوں کے موسم میں مہمان پرندوں کا مسکن بنتی ہیں ۔ سرد موسم کے آغاز میں سائبیریا کے برف زاروں سے پرندے ہجرت کرکے کم سرد خطوں کا رخ کرتے ہیں۔
وادی سون کا مہمان نواز موسم ان مہمان پرندوں کا میزبان ہے۔یہاں ایک حکایت یاد آرہی ہے جس کا ذکر انھی کالموں میں آپ کئی بار پڑھ چکے ہوں گے کیونکہ یہ حکایت میرے مرحوم والد صاحب کی پسندیدہ حکایت تھی۔ ''سردیوں کے دن تھے، ایک درویش اور ملنگ سردی میں کانپتا ہوا ، ان خیموں کی کی طرف بڑھا جو شکاریوں نے شب بسری کے لیے لگا رکھے تھے۔
اس فقیر نے جس خیمے میں بھی جھانکا، اسے جگہ نہ مل سکی، اس جھانکا جھانکی میں وہ عام خیموں سے الگ سردار کے خیمے کی جانب بڑھ گیا کیونکہ بڑے لوگوں کے پاس کسی مہمان کی گنجائش ہوتی ہے چنانچہ اس نے بڑی امید کے ساتھ سردار کے خیمے کا پردہ اٹھایا تو محافظوں نے اسے جھاڑ دیا اوروہاں سے چلے جانے کو کہا۔ درویش ملنگ کو قریب ہی ایک تندور دکھائی دیا جو بجھ چکا تھا مگر گرمی ہنوز باقی تھی۔
وہ اپنی گدڑی میں لپٹ کر اس تنور کے ساتھ لگ کر سو گیا جب صبح اٹھا تو ا سے یاد آیا کہ اس کے قریب ہی رات کو ایک رئیس نے سمور اور اونی کپڑوں میں رات بسر کی ہے، اس پر فقیر نے بے ساختہ ایک بات کہی جو ضرب المثل بن گئی کہ 'شبِ سمور گزشت و شبِ تنور گزشت۔ یعنی سمور اور گرم کپڑوں میں بھی رات گزر گئی اور تنور کے ساتھ لپٹ کر بھی رات گزر ہی گئی۔