تیسری قوت کا صبر اور امتحان

تحریک انصاف عوام کو گمراہ کرنے کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا شور مچا رہی ہے


Muhammad Saeed Arain January 25, 2024
[email protected]

سپریم کورٹ کے واضح حکومت کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ بعض عناصر 8فروری کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتے اور پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے چند ارکان کی قرارداد تو کیا سلامتی کونسل کی قرارداد بھی ملک میں انتخابات نہیں روک سکتی کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان صاف کہہ چکے ہیں کہ 8فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر ہیں اور انھیں کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں انتخابی ماحول نظر نہیں آ رہا حالانکہ بہت بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے ہیں اور 23جنوری تک امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری ہو جائیں گی۔

کاغذات چھینے جانے کا شور مچانے والی پی ٹی آئی نے تمام پارٹیوں سے زیادہ کاغذات بھی جمع کرائے ہیں جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ہمیں الیکشن لڑنے نہیں دیا جا رہا۔ ہمارے رہنما اور امیدوار گرفتاری کے خوف سے منظر عام پر نہیں آ رہے۔

انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کو رکاوٹوں کا سامنا ہے تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ کاغذات کیسے جمع اور مسترد کاغذات 86 فیصد سے زیادہ الیکشن ٹریبونل میں کیسے بحال ہوگئے۔

کاغذات نامزدگی جمع نہ کیے جانے کی کوئی شکایت ہوئی نہ کوئی بلامقابلہ منتخب ہوا جب کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا مگر کاغذات چھینے جانے کی شکایت پی ٹی آئی نے کی اور اس نے کاغذات بھی سب سے زیادہ جمع کرائے جن میں وکیلوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے اور وکلا سے پولیس ان سے کاغذات چھیننے کی جرأت کر ہی نہیں سکتی تھی البتہ پولیس نے اس موقع پر مقدمات میں مطلوب پی ٹی آئی کے مفروروں کو پکڑنے کی کوشش ضرور کی مگر پی ٹی آئی کی حکمت عملی سے پولیس کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی مگر پی ٹی آئی کا پروپیگنڈا کامیاب رہا۔

تحریک انصاف عوام کو گمراہ کرنے کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا شور مچا رہی ہے جب کہ اس کے بانی چیئرمین ایسا پروپیگنڈا کرنے کے عادی رہے ہیں جس پر ان کے رہنما عمل کر رہے ہیں۔

ایسا شور تو 2018 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے بھی نہیں مچایا تھا جو پی ٹی آئی چور مچائے شور کے مطابق کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ اسے اب بھی 2018 کی طرح الیکشن لڑنے کا موقعہ مل جائے مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی سانحہ 9 مئی کرا کر بالاتروں کی مدد سے محروم ہو چکی ہے اور سانحہ 9 مئی میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ملوث ہونے کے ثبوت مسلسل سامنے آ رہے ہیں مگر پی ٹی آئی اپنی مذموم روش اور دباؤ ڈالنے کی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم مسلسل ریاستی اداروں کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔

جن عدالتوں سے پی ٹی آئی کو ریلیف مل رہا ہے وہاں کے ججز کی تعریف کی جا رہی ہے اور جہاں ایسا نہیں ہوا وہاں شرم ناک پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔

ریاستی اداروں کے خلاف پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر جو زہر اگل رہی ہے ایسا ماضی میں کسی پارٹی نے نہیں کیا۔ پی ٹی آئی ملک کے اہم اداروں کو دباؤ میں لا کر سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ اسے مخصوص عدلیہ کا غیبی تعاون بھی حاصل رہا ہے مگر بالاتر اب پارٹی بننے کو تیار نہیں اور بہت کچھ برداشت بھی کر رہے ہیں۔ ملک میں بعض ایسے عدالتی فیصلے اور اقدامات ہوئے ہیں جن کا ماضی میں تصور نہیں تھا۔

ماضی میں ملک میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس کی وجہ چیئرمین پی ٹی آئی تھے جن کی وجہ سے ملک کا نقصان ہوا جس پر سیاست سیاستدانوں پر چھوڑ دی گئی جس پر اس وقت کے وزیر اعظم چاہتے تھے کہاسٹیبلشمنٹ ان کی حکومت کے غلط اقدامات پر ان کا ساتھ دے مگر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی بات ماننے کی بجائے غیر جانبدار رہنے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھا جس کے نتیجے میں ملک میں پہلی بار آئینی طور پر حکومت تبدیل ہوئی ۔

اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی قیادت کے جھوٹے الزامات برداشت کیے اور سیاست سے لاتعلق رہی جس پر پی ٹی آئی قیادت نے سانحہ 9 مئی کرایا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور عسکری ادارے کی املاک پر حملے، شہیدوں کی بے حرمتی اور جھوٹے الزامات لگائے گئے مگر اسٹیبلشمنٹ خاموش رہی۔

دو سالوں سے پی ٹی آئی نے ملک دشمن انتہا پسند سوشل میڈیا پر رویہ اختیار کر رکھا ہے ، مذموم پروپیگنڈا جاری ہے۔

8 ماہ گزرنے کے باوجود سانحہ 9 مئی کے ملزموں میں کسی ایک ملزم کو سزا نہیں ہوئی اور حد تو یہ ہے کہ 9 مئی کے ملزمان الیکشن بھی لڑ رہے ہیں کیونکہ انھیں عدلیہ سے اجازت ملی اور ضمانتیں بھی بھرپور طور جاری ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا صبر آزمایا جا رہا ہے جس کی حد ہوگئی ہے اور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبداری کے امتحان سے گزر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ بعض سیاسی عناصر چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا صبر جواب دے جائے اور تیسری قوت وہ کچھ کرنے پر مجبور ہو جائے جو ماضی میں عام حالات میں ہو جاتا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں