کس کے ساتھ ہوگا ہاتھ

جو قانونی طور پر پابند نہیں ہیں کہ کامیاب ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں ہی شمولیت اختیار کریں

ashfaqkhan@express.com.pk

آٹھ فروری کے عام انتخابات کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور صف اول کے کئی اہم راہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ الیکشن تک 9 مئی میں مطلوب مزید چند اور امیدوار نا اہل قرار دے دیے جائیں گے۔

بحیثیت جماعت تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے آنے والے انتخابات کے سیاسی منظر نامے سے مٹ چکی ہے۔

ان سے ان کی پہچان ''بلے کا انتخابی نشان'' واپس لیا جا چکا ہے، مگر قومی اور چاروں صوبوں کی ہر اسمبلی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار موجود ہیں۔ تحریک انصاف نے تمام قومی اور صوبائی کی تقریباً تمام نشستوں پر اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے اور ان کے نام اور نشانات بھی اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دیے ہیں۔

مقامی تنظیمیں ان آزاد امیدواروں سے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کامیابی کے بعد عمران خان نیازی سے وفاداری کا حلف لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنی مقامی تنظیموں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ تحریک انصاف کے سیاسی پلیٹ فارم سے، جھنڈے کے ساتھ اپنے اپنے امیدوار کی انتخابی مہم چلائیں۔

تحریک انصاف کے کارکن پوری طرح متحرک ہیں مگر یہ حقیقت ہے عدالتی فیصلے کے بعد ملک بھر کی قومی و صوبائی سیٹوں پر کھڑے پی ٹی آئی کے امیدوار بے جماعت یعنی بے در ہوچکے ہیں، بلے کے انتخابی نشان کی بجائے کسی کو بینگن، کسی کو تلوا، کسی کو گاجر، کسی کو چمچہ، کسی کو بوتل اور کسی کو لوٹا ملا،تمام امیدوار آزاد حیثیت سے علیحدہ انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد آیندہ الیکشن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا دوسرا الیکشن ہوگا جس میں آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس اقدام سے مسلم لیگ نون کو ''واک اوور'' مل گیا ہے۔ وہ بآسانی عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکیں گے اور چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف ہی ہوں گے۔

بادی النظر میں یہ تجزیہ درست نہیں، کیونکہ پاکستانی سیاست کسی پراسرار زنبیل سے کم نہیں، یہاں جو نظر آرہا ہے ہوتا نہیں اور جو ہونے والا ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ اس وقت بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں نوازشریف اور ان کی جماعت کی راہ سے تمام کانٹے چن کر ان کی جگہ پھول بچھا دیے گئے ہیں۔

اس پر ہم چند ہفتے قبل ایک پورا کالم لکھ چکے ہیں اوراسی کالم کے ذریعے اپنے قارئین کو وہ منظر نامہ دکھا چکے ہیں جو بظاہر تو نظر نہیں آرہا، لیکن غالب امکان ہے کہ حقیقت میں وہی ہوگا۔ مگر نواز شریف اور ان کی جماعت پر امید ہیں کہ انھیں پکی پکائی دیگ ملے گی، جس طرح انھیں لندن سے لایا گیا، ائیرپورٹ سے لے کر جاتی امرا تک اور تب سے اب تک انھیں پروٹوکول دیا گیا اور دیا جارہا ہے، عدالتوں سے برق رفتار انصاف ملا تو وہ اپنے تئیں وزیراعظم بن کر بیٹھے ہیں لیکن مجھے دیگ کہیں اور جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

ہم تجزیہ کرتے وقت ہمیشہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ملکی سیاست میں سب سے ہوشیار سیاستدان آصف علی زرداری ہیں، جن کے بارے میں مشہور اور ان کی جماعت کا مقبول ترین سیاسی نعرہ ہے''ایک زرداری سب پر بھاری۔'' پاکستانی سیاست کی یہ ایک ثابت شدہ بات ہے یہ صرف نعرہ نہیں حقیقت ہے کہ ماضی میں اکثر مواقع پر زرداری سب پر بھاری ثابت ہوئے ہیں۔

ہم ایک بار نہیں کئی بار لکھ چکے ہیں کہ گزشتہ دو سال سے آصف علی زرداری سب پر بھاری چلے آرہے ہیں اور لگتا ہے اس بار وہ کچھ زیادہ ہی بھاری ثابت ہونگے۔ جو منظر نامہ بن رہا ہے اسے دیکھ کر تو لگ رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے لے کر انتخابات تک پوری بساط آصف علی زرداری ہی کے لیے بچھائی گئی ہے کیونکہ آزاد امیدواروں کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام قومی و صوبائی امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، اور لگتا ہے کہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والوں کی تعداد بھی اس بار ریکارڈ ہوگی۔


جو قانونی طور پر پابند نہیں ہیں کہ کامیاب ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں ہی شمولیت اختیار کریں، وہ آزاد ہیں اور آزاد ممبران ہمیشہ برائے فروخت ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر منڈی لگے گی، خرید و فروخت ہوگی اور وہ بھی ''قانونی'' ہوگی۔

جب کثیر تعداد میں آزاد امیدوار برائے فروخت موجود ہونگے'ایسی صورتحال میں آصف زرداری ہی ایسے سیاستدان ہیں جو نواز شریف سمیت سب پر بھاری ثابت ہوں گے تو پھر کون ان کو اپنی زندگی میں بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کے ارمان و خواب کو پورا کرنے سے روک سکے گا؟ ہاں مگر آصف علی زرداری کے لیے ایک رکاوٹ جہانگیر ترین کی شکل میں موجود ہے 'وہ اچھے کاروباری ہیں۔

وہ بھی آزاد اراکین کی مہمان نوازی کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں، 2018ء کے الیکشن میں پنجاب کی صوبائی نشستوں پر کامیاب تقریباً تمام آزاد ممبران اور قومی اسمبلی کے تقریباً 80 فیصد ممبران کو اپنانے میں کامیاب ہوئے اسی مہم میں ان کا جہاز کافی شہرت حاصل کرچکا ہے۔

انھوں نے نا صرف مرکز میں عمران خان کی مانگے تانگے کی حکومت کھڑی کی بلکہ پنجاب میں اقلیت میں ہوتے ہوئے غیر متوقع طور پر تحریک انصاف کی حکومت بنوائی۔ اگر جہانگیر ترین کا جہاز پروازیں نہ بھرتا تو شاید پی ٹی آئی اقتدار کی کرسی کے کسی پائے تک بھی نہ پہنچ پاتی۔

اس وقت جہانگیر ترین اپنی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ سیاست میں ''ون مین آرمی'' سمجھے جاتے ہیں اگر 2018 کی طرح انکے جہاز نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد بھی اڑان بھری تو غالب امکان ہے کہ وہ آزاد اراکین کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

یوں ان کی اپنی جماعت اقتدار میں بڑا شیئر حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوگی اور ایسی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہوگا کہ استحکام پاکستان پارٹی اور پیپلز پارٹی ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ یوں جسے نہا دہلا کر نئے کپڑے پہنا کر دولہا بنانے کا وعدہ کرکے لایا گیا ہے، اس کی جگہ دولہا بلاول بھٹو زرداری کو بنایا جائے گا۔

اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے آصف زرداری اور بلاول بھٹو پوری طرح سرگرم ہیں۔ نواز شریف کی لاپرواہی اور آصف علی زرداری کی سیاست پر توجہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے چشم تصور سے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ نواز شریف جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر لندن سے پاکستان آئے وہ ٹرک ایوان وزیر اعظم کی طرف نہیں کہیں اور جا رہا ہے۔

اوپر سے انھوں نے جمعیت علماء اسلام سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا موقع گنوا کر خوداپنی جیت کے امکان کو کم کر لیا۔مسلم لیگ ن بھی چھانگا مانگا کی سیاست کا تجربہ رکھتی ہے لیکن یہ نوے کی دہائی نہیں نہ ابھی ان کی مقتدرہ کے ساتھ وہ ہم آہنگی ہے اس کے علاوہ میدان میں اور بھی بڑے تابعدار موجود ہیں۔

مگر اگر اب بھی نواز شریف دانشمندی کا مظاہرہ کریں، اپنے کمزور پہلوؤں کا جائزہ لے کر اصلاح کریں، انتخابی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لیں، جمعیت علماء اسلام اور استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ حکمت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں تو شاید چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہو ورنہ پنجاب بھی ہاتھ سے نکلنے کا اندیشہ ہے۔

موجودہ سیاسی منظر نامے کو دیکھ کر فیصل واوڈا کی باتیں بلکہ پیشگوئیوں نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال رکھاہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک کے بعد ایک سچ ثابت ہورہی ہیں، وہ گزشتہ دو سال سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ''آیندہ الیکشن آزاد امیدواروں کا الیکشن ہوگا'' انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ''جو بھی حکومت بنے گی وہ دو سال بھی نہیں چلے گی۔'' اللہ نہ کرے ان کی یہ پیشگوئی بھی سچ ثابت ہو، اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے تباہ کن ہوگا موجودہ حالات میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت ہی اس ملک کو اس معاشی دلدل سے نکال سکتی ہے، ہم ہر دو سال بعد الیکشن الیکشن کھیلنے اور اربوں روپے خرچ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
Load Next Story