پاکستان ایک نظر میں کیا آپ نئے بجٹ کے لیے تیار ہیں

ہم ترقی یافتہ ملک اس وقت بن سکتے ہیں جب ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح 75اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح 25 فیصد تک ہوگی


عاقب علی June 03, 2014
ٹیکس حکومتی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں،اس وقت ان ڈائریکٹ ٹیکس ( اشیاء کی خریداری ،جی ایس ٹی و دیگر) 60فیصد سے زائد ہے جبکہ ڈائریکٹ (امیر،انڈسٹریزپر لاگو ٹیکس) وصولی بہت کم ہے: فائل فوٹو

بجٹ جسے اردو میں میزانیہ بھی کہتے ہیں ، جو دنیا کے تمام ہی ممالک میں ہر سال پیش کیا جاتا ہے ،جس کا مقصد آمد وسائل اور اخراجات کا تخمینہ لگانا ہے۔پاکستانی بجٹ کو سیاستدان اور ماہرین معاشیات الفاظ کا گورکھ دھندہ بھی کہتے ہیں۔آج ن لیگ کی حکومت 2014-15کا بجٹ پیش کررہی ہے ۔اس میزانیے میں عوام کیلئے کیا ہوگا اور کیا نہیں،اس پر بات قبل از وقت ہی ہوگی ۔

لیکن اس سے پہلے ایک مثال پیش خدمت ہے'' ایک گھر کی سالانہ آمدن 10 لاکھ روپے ہو اور ان کے اخراجات 11 لاکھ ہوں ، یعنی انہیں ہر سال 1لاکھ روپیہ قرضہ لینا پڑتا ہو،تو10 سال بعد کیا ہوگا ؟آمدن اور قرضہ برابر ہوکر وہ خاندان زبردست مالی بحران کا شکار ہوجائیگا ،وہ قرض کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لے گا اور پھر اس پر سود ادا کرنے کے ساتھ قرض دینے والے کی جائز و ناجائز ہدایت پر عمل بھی کریگا اور بل آخر وہ گھرانہ دیوالیہ ہوجائیگا ۔یہ مثال ویسے پاکستانی کی معاشی صورتحال کی بھی عکاس ہے۔ایسے میں کیا کیا جائے۔سادہ سی بات یہ ہے کہ اس میں دو ہی صورتیں ہیں،یا تو اخراجات میں کمی کی جائے،اور دوسرا آمدن میں اضافہ کیا جائے۔مگر کیسے؟ یہ وہ سوال ہے جو یقیناًوفاقی وزیر خزانہ کو درپیش ہے اور توقع ہے کہ وہ بجٹ تقریر میں اس کا خاطر خواہ حل پیش کرینگے۔

لیکن ہم اِس حوالے سے کچھ تذکرہ کرلیتے ہیں کہ بجٹ پیش کرتے وقت کن اُمور پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔پہلے نمبر پر توانائی بحران ہے،موجودہ حکومت نے گزشتہ ایک ماہ میں دھڑا دھڑ بجلی کی منصوبے کا افتتاح کرکے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے معاملہ بس آئندہ دو سالوں میں ہمیشہ کیلئے حل ہوگیا۔لیکن توانائی میں صرف بجلی تو شامل نہیں،گیس اور کھربوں روپے کی سی این جی انڈسٹری بھی ہے،ان دونوں شعبہ جات میں ہم تباہ ہوگئے،سی این جی انڈسٹری بنانے اور گیس کی قلت پیدا کرنے والوں منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہوئی،گیس کی کمی کو پورا کرنے کے تمام منصوبے گزشتہ 1دہائی سے لٹکے ہوئے ہیں،انڈسٹری کی پیداواری قوت متاثر ہورہی ہے اور پاکستان ایک سال کے دوران جی ایس پی پلس کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہے ۔

دوسرے درجے پر امن و امان کی صورتحال ہے، پاکستان کا معاشی حب کراچی ٹارگٹ کلرز سے متاثر ہے ،تو خیبر پختونخوا کے بعض علاقے طالبان کے زیر اثر ہیں،بلوچستان میں حقوق کے نام پر بدامنی کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔اس صورتحال میں حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا مگر متاثر رہا۔ لیکن اصل توجہ کراچی پر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صنعتی شہر ہے،اس میں دو کروڑ انسان بستے ہیں،جہاں سے ماضی میں ریونیو کا بڑا حصہ قومی خزانے کو ملتا رہا ہے، جن کی اکثریت اسٹریٹ کرائم سے متاثر ہے ،لیکن ٹارگٹ کلنگ نے شہر کا سکون ہی تباہ کرکے رکھ دیا ہے ،جب کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے نتائج بھی عوامی توقع سے مطابقت نہیں رکھتے۔

تیسرے نمبر پرسماجی ترقی کے ساتھ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ ہے۔یہ وہ شعبہ ہے جس میں تعلیم و تربیت ،صحت اور ملکی باشندوں کیلئے تفریح کی سہولیات شامل ہیں،اس میں شک کی بات نہیں کہ تعلیم صوبوں کو منتقل ہونے سے قبل بھی نظر انداز شعبہ تھا اور اب بھی اس نے مثالی ترقی نہیں کی ۔ سرکاری سطح پر تربیت کے جومختلف پروجیکٹ جاری ہیں، اس سے وہ کچھ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ بنیادی صحت کے چھوٹے مراکز یا بڑے اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر توبہ کرنے کو دل چاہتا ہے، دوا ہے تو عملہ غائب ،اور یہ دونوں میسر آجائیں توبیڈ خستہ حال ہے ،غریب یا امیر پرائیویٹ اسپتالوں کو ترجیح دینے لگا ۔

چوتھے درجہ ملکی ٹرانسپورٹیشن کو حاصل ہے،ریلوے تو گزشتہ 10سال سے ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہ تھا،ساتھ ہی بسوں کا سفر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے باعث مسافروں کیلئے عذاب بن چکا ہے،ضرورت فوراً موٹرویز بنانے کی نہیں بلکہ سڑکوں کے نظام کو بتدریج جدید کرنے کی ہے۔درجہ پانچ پر سیاحت کا فروغ ہے،دنیا کے کئی ممالک میں ٹورازم ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکا ہے، لیکن ہم ناکام ہیں اس کی ایک وجہ امن و امان کی ابتر صورتحال ہے مگر اس کہ اہم وجہ ترجیحات کی فہرست میں اس کا شامل نہ ہونا بھی تھا ۔ ساتھ ساتھ حکومت کو اس بات کا اعتراف بہر حال کرنا ہوگا کہ بطور محکمہ ایف بی آر ناکام ہوگیا،یہ محکمہ گزشتہ کئی سالوں سے ہدف کے حصول میں ناکام ہے۔ ٹیکس حکومتی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں،اس وقت ان ڈائریکٹ ٹیکس ( اشیاء کی خریداری ،جی ایس ٹی و دیگر) 60فیصد سے زائد ہے جبکہ ڈائریکٹ (امیر،انڈسٹریزپر لاگو ٹیکس) وصولی بہت کم ہے بلکہ ہر دور حکومت میں صنعت کاروں کو مراعات دیدی جاتی ہیں۔ماہرین معاشیات اس حوالے سے ہمیشہ دو باتیں کہتے ہیں ٹیکس کی شرح میں اضافہ ٹیکس چوری کی راہ ہموار کرنا کا ذریعہ ہے اور دوسری ہم ترقی یافتہ ملک اس وقت بن سکتے ہیں جب ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح 75اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح 25فیصد تک ہوگی۔

ان سب باتوں سے قبل ہمیں بطور قوم اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ زرعی ملک ہیں یا صنعتی ؟۔کیونکہ ہم دونوں شعبہ جات پر بیک وقت توجہ نہیں دے سکتے ،ہم گزشتہ دو دہائیوں سے دو نوں شعبوں کے ساتھ لے کر چل رہے ہیں،ان کی بہتری کیلئے اربوں روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں، مگر ہم ان میں کسی حوالے سے خود کفیل نہیں ہوسکے۔ میرے خیال میں معیشت کی بنیادی نقاط یہ ہونے چاہیں اور آپ کے خیال میں؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں