سوشل میڈیا کا منفی استعمال نقصان دہ

انتخابی عمل کو مشکوک اور الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا زوروں پر ہے


Editorial January 26, 2024
انتخابی عمل کو مشکوک اور الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا زوروں پر ہے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کا مقصد بے یقینی، افراتفری اور مایوسی پھیلانا ہے، سوشل میڈیا کی خبروں کی تحقیق بہت ضروری ہے، تحقیق اور مثبت سوچ کے بغیر معاشرہ افراتفری کا شکار رہتا ہے، وہ اگلے روز پاکستان نیشنل یوتھ کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔

اس موقع پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستانی نوجوان ہماری آبادی کا 65 فیصد ہیں، ان کی شمولیت اور تعاون کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح ممکن نہ تھی، پاکستانی نوجوان قومی سلامتی کے اس ابھرتے ہوئے چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

پاک فوج کے سربراہ اور نگران وزیراعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔

جہاں سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کے درمیان فاصلوں کو کم کردیا ہے اور بہت سے معاشی اور معاشرتی فوائد بھی دیے ہیں، وہیں پر سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز کو شرپسند گروہوں نے غیر قانونی، تخریبی، غیر اخلاقی اور منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا ہے، ایسے شرپسند عناصر کے پراپیگنڈے کی وجہ سے بہت سے سادہ لوح افراد کی زندگیاں تباہ کی گئیں، کئی خودکشی پر مجبور ہوگئے، گزشتہ کچھ عرصے سے مخصوص گروہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کررہا ہے۔

اس گروہ کا ہدف پاکستان کی سلامتی کے ذمے دار ادارے اور شخصیات ہیں۔ اس گروہ کے ارکان غلط اور بے بنیاد معلومات، ٹیمپرڈ ویڈیوز پھیلا کر سادہ لوح سوشل میڈیا یوزرز کو گمراہ کررہے ہیں، عوام میں نفرت اور تقسیم کے بیج بو رہے ہیں، دہشت گردوں، شرپسندوں اور تخریب کاروں کو مظلوم بنانے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔

انتخابی عمل کو مشکوک اور الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا زوروں پر ہے، پاکستان کے مفادات کے بجائے افغانستان اور ایران کے مفادات کو ترجیح دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سیاسی اختلاف کی بنیاد پر توہین و تضحیک اور بہتان تراشی کی مہم چلانا غیرجمہوری ہی نہیں بلکہ غیرقانونی بھی ہے ۔مذہبی تعلیمات اور اخلاقی قدریں بھی ایسے رویے کی اجازت نہیں دیتی ہیں، وطن کے مفادات کے خلاف مہم چلانا تو ناقابل معافی جرم ہے، دنیا کی کوئی ریاست ایسے لوگوں کے ساتھ نرم پالیسی اختیار نہیں کرتی۔ جو گروہ پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔

قومی سلامتی کے اداروں کے بارے میں گمراہ کن پراپیگنڈا کررہے ہیں، پاک فوج کے شہدا کی تذلیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کے لیے لوگوں کو اکسا رہے ہیں، انھیں نہ تو سادہ لوح کہا جاسکتا ہے نہ وہ بیوقوف ہیں، وہ جو کچھ کررہے ہیں، پورے منصوبے کے تحت کررہے ہیں، ریاست پاکستان کے وسائل پر پلنے والا ایک متمول طبقہ اپنی باری آنے پر ریاست اور عوام کے مفادات کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ایسے گروہ یا گروہوں کی بیخ کنی لازم ہوچکی ہے کیونکہ پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات کو مٹھی بھر بااثر گروہ کے مفادات پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔

یہ ہماری تاریخ ہے کہ عہد قدیم میں جنھیں زیرو کیا گیا، آج کے وہ مقبول ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں علم و حکمت پہلے روز سے موجود تھی لیکن اُن کے ہم عصر نے چند مسائل میں اختلاف کو اُن سے اتفاق پہ غالب کردیا۔ اختلافات کو ہوا دی اور اُن کا علم و فن اُسی اختلاف میں چُھپ کر رہ گیا۔ جب آنے والی صدیوں میں اختلاف و فتویٰ کی گرد دور ہوئی تو لوگوں کو اُن کے علمی مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوا۔

ممکن ہے آج ہم بھی کسی شخصیت کے ساتھ چند سیاسی مسائل و شخصیات پر اختلاف کی وجہ سے اسی رویے کے مرتکب ہو رہے ہوں، اگر ہم اس نقصان کو فائدے اور اس منفی رویے کو مثبت رویے میں بدل سکیں تو سوشل میڈیا کو اپنے حق میں مفید بنا سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے صارفین میں سے اکثر نوجوان نئے نئے سیاست اور سوشل میڈیا سے وابستہ ہوئے ہیں۔ انھیں مکالمہ و کلام اور اختلافِ آداب کی تربیت اور تعلیم نہیں ہوتی اور نہ انھیں اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ ایسے یکلخت رد کرنے اور کلی طور پر تردید کر نے سے وہ اپنا نقصان کرتے ہیں۔

صاحب علم سے اختلاف کی ایک وجہ ہے تو اتفاق کی ننانوے وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ سیاست کے بہت سے معاملات و مسائل ہیں جن میں ہمیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا اور غلط معلومات کا '' ریاستی پالیسی کے کاٹ دار ہتھیار'' کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔

مختلف مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کو مجبوری قرار دے کر اُسی بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو نشے کے عادی افراد کرتے ہیں، وہ اکثر سوشل میڈیا کے بارے میں حد سے زیادہ فکر مند رہتے اور اسے استعمال کرنے کی بے قابو خواہش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس لت کی علامات مزاج، ادراک، جسمانی و جذباتی ردعمل، باہمی اور نفسیاتی مسائل میں ظاہر ہوسکتی ہیں۔

سوشل میڈیا کا ایک طویل عرصے سے استعمال ذہنی صحت کے مسائل مثلاً تناؤ، اضطراب اور افسردگی میں اضافے اور طویل مدتی فلاح و بہبود کے کاموں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ وسطی سربیا اور امریکا میں ہائی اسکول کے طلبا کے مابین سوشل میڈیا پر گزرا وقت افسردہ علامات سے بھرپور رہا۔ ساتھ ہی تعلیمی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال سے مجموعی گریڈ پوائنٹ کم آئے، بالخصوص ویڈیو گیمنگ کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال اور ملٹی ٹاسکنگ سے تعلیمی کارکردگی متاثر ہوئی۔

امریکن لیبارٹری میں کیے گئے تجربات کے مطابق ٹیکسٹنگ، ای میل، میسنجر اور فیس بک پر ملٹی ٹاسکنگ کے ذریعے سیکھنے سے کارکردگی کم ہوئی جب کہ ٹوئٹر کی چینی شکل ویبو کے استعمال سے چینی طالب علموں میں معلومات کی تفہیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔کسی بھی فرد کی مجموعی شخصیت کو محض اس کے سیاسی نقطہ نظر سے نہیں پرکھنا چاہیے۔

اس کی زندگی کے اور بھی علمی و سماجی پہلو ہوتے ہیں۔ اس کی مثال تاریخ کے مضمون سے سمجھی جاسکتی ہے، جب آپ تاریخ کو صرف سیاست تک محدود کریں گے تو آپ کے رویے متوازن نہیں بن پائیں گے۔

سوچ اور رویہ تب متوازن ہوتا ہے جب ثقافت، تہذیب، اقوام، رسوم و رواج، تعلقات کے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی پہلو بھی غور و فکر میں شامل کرتے ہیں۔ اِسی طرح سوشل میڈیا پر متوازن رویہ اختیار کریں گے تو تبھی ہم سوشل میڈیا سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔حقائق کو توڑنے مروڑنے سے لاحق خطرات اور عدم تحفظات سے نمٹنے کے لیے ریاست کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرے۔

سوشل میڈیا کا استعمال اس وقت سب سے زیادہ سیاسی پارٹیز کررہی ہیں، مختلف سوشل میڈیا پیجز پر پارٹی منشور، پارٹی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جارہا ہوتا ہے۔ دنیا کے سب سے جدید ترین ملک امریکا کے حالیہ الیکشن کو اگر دیکھا جائے تو دو نوں بڑے صدارتی امیدواروں کی صدارتی کمپئین سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر کی گئی، دونوں صدارتی امیدواروں نے جہاں اپنے منشور اور ترجیحات کو عوام الناس تک پہنچایا وہی پر اپنے مخالف امیدوار کے خلاف تند و تیز جملوں کے ساتھ حملہ آوار ہوتے ہوئے بھی نظر آئے۔

پاکستان میں بھی سیاسی لیڈران کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو ان کے کیے گئے ہر ٹویٹ اور پوسٹ پر اپنا ردعمل بھی دیتے ہیں اور ان کو پسند بھی کرتے ہیں اور وہی پر ان لیڈران کے ناقدین ان پر تنقید کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کسی بھی چند گھنٹوں میں ہیرو بھی بنا سکتے ہیں اور زیرو بھی۔ مین اسٹریم میڈیا جس میں اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز شامل ہیں۔

تمام تر خرابی کے باوجود ان پلیٹ فارمز سے منفی اور ریاست مخالف پراپیگنڈا نہیں کیا جاسکتا، سوشل میڈیا کے بارے میں بات کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت پاکستان میں ہر مذہب، ہر فرقہ، ہر مکتبہ فکر، ہر شعبہ زندگی کے افراد بشمول کاروباری افراد، ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے پیجز بنائے ہوئے ہیں جن کی بدولت وہ اپنا منشور، نقطہ نظر اور تنقید پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔

دنیا جہاں میں سوشل میڈیا کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے بہت سے قوانین بن چکے ہیں اور ان پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے منفی اور غیر اخلاقی استعمال کی روک تھام کے لیے سائبر کرائمز قوانین بن چکے ہیں، بہت سے افراد اس وقت قانون کی گرفت میں آبھی چکے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ کی لامحدود وسعت کے باعث اس وسعت میں چھپے ہوئے دہشت گرد اورکریمنل مافیاز تک پہنچنا آسان کام نہیں ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب سیاسی، معاشی، مذہبی اور ریاستی مشینری میں شامل نقاب پوش شرفاء بھی دہشت گردوں اور کریمنل مافیاز کا حصہ بن جائیں، لہٰذا پاکستان کو بچانے کے لیے سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز استعمال کرنے والے شرپسندوں کو گرفت میں لانا ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں