مودی راج

1857 کا معرکہ ہو یا 1947 کا انقلاب دونوں کی کامیابی کا سہرا ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ کاوشوں کا ثمر ہے

S_afarooqi@yahoo.com

انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں برصغیر کے ہندو اور مسلمان برابر کے شریک تھے۔

1857 کا معرکہ ہو یا 1947 کا انقلاب دونوں کی کامیابی کا سہرا ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ کاوشوں کا ثمر ہے۔1947 میں بھارت میں حکومت کی باگ ڈور کانگریس پارٹی نے سنبھالی جس کے بعد 1950 میں ملک کا آئین تیار ہوکر سامنے آیا جس کی تیاری میں کانگریس کے قائدین ایم کے گاندھی اور وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا کردار قابل ِ ذکر ہے۔

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر جو مجلس آئین ساز کے سربراہ تھے اور کانگریس کے مرکزی قائدین کے ہم خیال اور ہم نوا تھے دنیا بھر کے آئینوں کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے کہ بھارت کے استحکام کا تقاضہ یہ ہے کہ بھارت کا آئین سیکولر ہو اور اِس کے تحت مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوں تاکہ کسی بھی شہری کی حق تلفی نہ ہو، چناچہ ڈاکٹر امبیڈکر نے دنیا کے جمہوری اور سیکولر آئینوں کا گہرا مطالعہ کیا جس کے نتیجہ میں بھارت کو ایک بہترین آئین میسر آیا۔

بھارت کی انتہائی متعصب ہندو پارٹیوں کو یہ آئین قطعی پسند نہیں آیا کیونکہ یہ اُن کے مذموم عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا چناچہ اِن متعصب جماعتوں نے جس میں ہندو مہاسبھا آر ایس ایس وشوا ہندو پریشد، بھارتیہ جنتا پارٹی اور بجرنگ بلی وغیرہ شامل تھیں ایک مشترکہ محاذ کی تیاری شروع کردی لیکن چونکہ کانگریس پارٹی ایک انتہائی منظم اور مستحکم سیاسی جماعت تھی اس لیے اِن زہریلی ہندو جماعتوں کی سازش کامیاب نہیں ہوسکی۔

فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ گربہ کشتن روزِ اوّل جس کا مطلب ہے کہ بلی کو پہلے ہی دن ہلاک کردینا چاہیے تا کہ وہ اپنا سر نہ اٹھا سکے،اگر کانگریس پارٹی نے انتہا پسند ہندو جماعتوں کا سر شروع ہی میں کچل دیا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا اور یہ سیاسی سانپ پلتے رہے۔

یہ اِسی کا نتیجہ تھا کہ آر ایس ایس کے ایک سرگرم کارکن ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو انتہائی سفاکی سے قتل کردیا جو بھارتی سیکولرازم پر پہلا اور سب سے سنگین وار تھا۔پنڈت جواہر لال نہرو کی شخصیت اتنی رعب دار اور قد آور تھی کہ کسی کو اُن پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔

پنڈت نہرو کی عالمگیر مقبولیت کی وجہ سے بھارت کو عالمی برادری میں انتہائی بلند مقام حاصل ہوا۔ نہرو کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد کانگریس پارٹی میں اتنا دَم خم نہیں رہا کہ وہ انتہا پسند ہندو جماعتوں کا مقابلہ کرسکے۔

اِس کے علاوہ کانگریس کی قیادت نے انتہائی غفلت اور بے توجہی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے وہ عام انتخابات میں بری طرح ہار گئی اور یوں حکومت کی باگ ڈور اُس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔یہ اِسی کا شاخسانہ ہے کہ بھارت پر بی جے پی کا تسلط قائم ہے اور وہ تیسری مرتبہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی ہے۔


تماشہ دیکھیے کہ وہ شخص جس نے بھارت کے سیکولر آئین کے تحت وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تھا بھارتی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے رام مندر کی افتتاحی تقریب کا مہمان خصوصی بنا جو بھارت کے سیکولر آئین کی سراسر اور کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور کوئی اُس کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوا۔ستم بالائے ستم بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی جس نے بھارتی آئین کے تحت سیکولر رہنے کا حلف اٹھایا وہ بھی شریک ِ تقریب ہوا۔

آئین کی رُو سے یہ سب کچھ آئین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف اور سب سے بڑا اور ناقابل ِ معافی جرم ہے۔ اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ ملک کا سب سے بڑا مجرم بھارت پر قابض ہے۔

آئین کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اِس مجرم پر آئین شکنی کے جرم کا ارتکاب کرنے کی بنا پر دیس کی عدالت ِ عالیہ میں مقدمہ چلا کر سزا سنائی جاتی لیکن ملک کے قانون کے رکھوالے بشمول وکلا برادری نے چُپ سادھ رکھی ہے۔

سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چاروں کے چاروں شنکر آچاریہ مودی کی اِس پالیسی کے سراسر خلاف تھے جس کی بنا پر اُنھوں نے اِس تقریب میں شرکت سے صاف انکار کردیا اور اُن کا کہنا یہ تھا کہ دھرم کی آڑ میں سیاست کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے جو سراسر غلط اور ناجائز ہے، اگرچہ مودی کو ہندو دھرم کے اِن چاروں عالموں کے فتوی پر باز آجانا چاہیے تھا تاہم ایسا کرنے کے بجائے وہ اپنی ڈھٹائی پر اڑا رہا جس سے مودی کی ہٹ دھرمی صاف نظر آتی ہے۔

ہندو مذہب کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ کوئی بھی شادی شدہ مرد اگر کسی بھی مذہبی تقریب میں اپنی بیوی کو اپنے ساتھ شریک نہ کرے تو یہ بہت بڑا پاپ ہے لیکن مودی نے ایسا کرنے سے کھلم کھلا گریز کیا جس کی وجہ یہ ہے کہ مودی نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کی ہوئی ہے چناچہ مودی ہندو دھرم کے نکتہ نظر سے انتہائی گنہگار ثابت ہوا ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ رام چندر بھی جنھیں ہندو اپنا بھگوان سمجھتے ہیں اپنی بیوی سیتا کے سچّے عاشق تھے جس کی وجہ سے تمام ہندو رام کا نام لینے سے پہلے سیتا کا نام لیتے ہیں اور جے شری رام پکارنے سے پہلے جے سیتا رام کہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہندو عقیدہ کی رُو سے بھی مودی کا کردار صاف نہیں ہے۔

22 جنوری کو مودی کے راج میں سرکاری طور پر منایا گیا اور اِس دن کے منانے پر غریب بھارت میں جہاں کی جنتا بھوک اور بیروزگاری کا شکار ہے سرکاری خزانہ سے دھڑلے کے ساتھ روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ اِس دن زور زبردستی تعلیمی ادارے اور دفاتر بند رکھے گئے۔ بھارت کے مسلمان جو ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت ہیں اور برابر کے شہری ہیں اپنے اپنے گھروں میں ڈرے سہمے بیٹھے رہے۔

اندیشہ یہ ہے کہ مودی کے تیسری مرتبہ برسر اقتدار آنے کے بعد بھارتی اقلیتوں کا کیا حشر ہوگا جس میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی، سِکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شامل ہیں۔
Load Next Story