ملک میں بارہویں عام انتخابات 8 فروری 2024 کو متوقع ہیں۔ تمام پارٹیوں کی انتخابی مہم جو جنوری کے آغاز تک ٹھنڈی نظر آرہی تھی اب جنوری کے آخری ہفتے میں اس میں بھی تیزی دکھائی دے رہی ہے اور صحیح معنوں میں انتخابی ماحول بن چکا ہے، جس میں حریف جماعتیں ایک دوسرے پر وار کرتی نظر آرہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنی توپوں کا رُخ مسلم لیگ (ن) کی طرف کیا ہوا ہے، جس میں وہ خاص طور پر میاں نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر میاں نواز شریف یا مریم نواز ان کی تنقید کا جواب نہیں دے رہے، البتہ چند مسلم لیگی قائدین نے پیپلز پارٹی کی تنقید کا جواب دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی توپوں کا رخ پاکستان تحریک انصاف کی طرف ہے، جو بادی النظر میں تو ختم ہوگئی ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ان سے بلے کا نشان بھی واپس لے لیا گیا ہے اور پی ٹی آئی کی باقیات کو الیکشن کمیشن کی طرف سے جو نشان الاٹ کیے گئے وہ عجیب و غریب ہیں۔ خیر یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بھی یہ تجربہ کرچکی ہیں۔ تجزیہ نگار اپنے تجربے کی بنیاد پر پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ فلاں جماعت حکومت بنائے گی جبکہ بیشتر تجزیہ نگار اور اینکر پرسنز متفق ہیں کہ مخلوط حکومت ہی بنے گی کیونکہ کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اس تمام صورتحال میں عام آدمی جہاں انتخابی سرگرمیوں سے محظوظ ہو رہا ہے وہاں اس کے ذہن میں بہت سے سوال بھی ابھر رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ پاکستان کے قیام کو کم و بیش پون صدی بیت چکی ہے اور پہلے الیکشن سے لے کر موجودہ الیکشن تک مخصوص طبقہ ہی اسمبلیوں میں نظر آتا ہے۔ عام آدمی سوال کرتا ہے کہ کیا کبھی وہ بھی اسمبلیوں میں پہنچ کر صحیح معنوں میں اپنے مسائل کو حل کروا سکے گا؟ کیا وہ اپنے حقوق سے متعلق آئین سازی کروا سکے گا اور اس پر عملدرآمد کروا سکے گا؟ کیا اقلیتوں کی نشستیں جنہیں وہ کم سجھتی ہے وہ بڑھ سکیں گی؟ کیا اقلیتیں کبھی براہ راست الیکشن میں حصہ لے سکیں گی یا اُنہیں سلیکشن کے لالی پاپ پر ٹرخایا جاتا رہے گا؟ کیا کبھی الیکشن میں ایسی تبدیلیاں آئیں گی کہ عام آدمی بھی الیکشن میں حصہ لے سکے گا؟
عام آدمی دیکھتا ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے اس ملک پر اشرافیہ ہی قابض ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس قسم کی ترامیم کرنی چاہئیں کہ عام آدمی بھی الیکشن میں باآسانی حصہ لے سکے، اپنے محدود وسائل میں انتخابی مہم بھی چلا سکے اور اسمبلیوں میں پہنچ کر اپنے مسائل کے حل کےلیے خود آواز اٹھا سکے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم اپنے ساتھ وجود میں آنے والے یا بعد میں بننے والے ممالک پر نظر دوڑائیں اور آپ ان کی ترقی کا موازنہ اپنے ملک سے کریں تو ہم حیران ہوجائیں گے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں ان سے کتنا پیچھے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پھر وہی جماعتیں اور وہی چہرے اقتدار میں آجائیں گے اور عام آدمی کے مسائل، جن کا وہ اپنے انتخابی منشور میں واویلا کر رہے ہیں وہ دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
عام آدمی سوال کرتا ہے کہ ملک میں مہنگائی پر قابو پانا موجودہ حکومت کا کام ہوتا ہے لیکن ان حکومتوں نے تو عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے اور ہر حکومت سابقہ حکومت کو ان مسائل کا ذمے دار ٹھہرا کر بری الذمہ ہوجاتی ہے۔ عام آدمی کا موجودہ بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور آپ مشاہدہ کریں کہ کبھی مہنگائی کو پٹرول اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جوڑا جاتا ہے اور کبھی آئی ایم ایف سے قرض کی قسط لینے کےلیے اس سے جوڑتے ہیں۔ لیکن مہنگائی کم کرنے کےلیے کوئی حکومت بھی ٹھوس اقدام نہیں کرتی۔
عام آدمی سوال کرتا ہے کہ اب تو ڈالر بھی نیچے آگیا ہے اور اب تو پٹرول بھی سستا ہوگیا ہے اور اب تو آئی ایم ایف سے قرض کی قسط بھی مل چکی ہے تو اب بھی روزمرہ کے استعمال کی چیزیں مہنگی کیوں ہیں؟ یوٹیلٹی بلز ہر ماہ کیوں بڑھ رہے ہیں؟ مٹن اور بیف تو عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھا ہی لیکن اب مرغی اور انڈے بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئے ہیں۔ پھل اور ڈرائی فروٹ تو اس کےلیے کسی خواب سے کم نہیں ہیں۔ تعلیم اور صحت کے اخراجات نے الگ سے اس کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔
اس لیے وہ پالیسی ساز اداروں سے درخواست کرتا ہے کہ مستقبل میں ایسے اقدامات کیے جائیں کہ وہ انتخابی عمل میں براہ راست حصہ لے سکے اور اپنے مسائل کے حل کےلیے وہ اپنی آواز خود بن سکے۔ عام آدمی اس کےلیے بلدیاتی نظام حکومت کو موزوں قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندوں نے تو وہ آئینی اصلاحات کرنی ہیں جس سے اس کے اقتدار کو دوام ملے، لیکن عام آدمی کے مسائل کا حل بلدیاتی اداروں کے موثر ہونے سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس لیے جہاں الیکشن کمیشن اور پالیسی ساز اداروں کو عام آدمی کو انتخابات میں شمولیت کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے ہیں، وہاں بلدیاتی نظام کےلیے بھی آواز بلند کرنی ہے۔
عام آدمی ایک اور سوال بھی کرتا ہے کہ جو سیاستدان ملک میں صدر اور وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ان کےلیے کوئی ایسا ادارہ بنایا جائے جہاں وہ ''تھنک ٹینک'' کے طور پر ملک کی ترقی کےلیے کام کرسکیں۔ کتنی جگ ہنسائی ہوتی ہے کہ ملک کے سابق صدر اور وزیراعظم ایم این اے کےلیے لڑ رہے ہیں اور الیکشن جیتنے کےلیے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ خدارا اس پر قد غن لگائی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ موروثی سیاست کا ایشو بھی اہم ہے۔ آپ مشاہدہ کریں کہ مختلف پارٹیوں میں باپ، بیٹا، بیٹی، بھائی، چچا، تایا، خالہ غرض سب کے سب الیکشن لڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس کےلیے بھی آئینی ترمیم کرنی چاہیے اور اگر کوئی سیاست دان گزشتہ چار، پانچ برسوں سے الیکشن لڑ رہا ہے تو اس پر بھی پابندی لگائی جائے اور ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں ہر الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ نئے چہروں کو سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کا موقع دیں۔
عام آدمی یہ سوال بھی کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ہمیں بھی ملک کو ترقی یافتہ بنانے کےلیے دور رس پالیسیاں بنانی چاہئیں اور ہر حکومت کو ان پر عمل پیرا ہونے کےلیے پابند کیا جائے۔ حکومت چاہے کوئی بھی ہو، اُن پالیسیوں کو جاری رکھنا اُن کا اولین فرض ہو اور کوئی بھی حکومت اُن کو ختم نہ کرسکے۔ عام آدمی کے مطابق یہی وہ اقدامات ہیں جس کے ذریعے ملک کے عام آدمی کے مسائل انتخابی عمل میں براہ راست شامل ہوکر حل ہوسکیں گے ورنہ ہمیشہ کی طرح اگلے انتخابات میں بھی ان ہی امراء اور اشرافیہ کو ہی اپنا مائی باپ سمجھتے ہوئے انہیں ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔