پاکستان میں ڈھائی کروڑ افراد نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں ماہرین
دنیا بھر میں ہر 8 میں سے ایک فرد ذہنی مرض کا شکار ہے، ماہر نفسیات
ماہر نفسیات پروفیسر نسیم چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ افراد نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں، یعنی دنیا بھر میں ہر 8 میں سے ایک فرد ذہنی مرض کا شکار ہے۔
حادثات کے نتیجے میں جھلس جانے والے،امراض قلب میں مبتلا افراد اور چھاتی کے سرطان سے متاثرہ خواتین کی ذہنی صحت بہتر کرنے کے لیے ماہرین نفسیات انہیں لازمی طبی مشاورت کی ہدایت کررہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کوشش ہے کہ ذہنی صحت کو جنرل ہیلتھ میں شامل کردیا جائے۔
اِن خیالات کا اظہار ماہر نفسیات اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) پروفیسر نسیم چوہدری نے جمعہ کو ادارے کی جانب سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے آڈیٹوریم میں منعقدہ سندھ مینٹل ہیلتھ پالیسی کی افتتاحی تقریب میں کیا،جس میں نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔
اس موقع پر نگراں وزیر تعلیم رعنا حسین،ماہرین نفسیات پروفیسر غلام رسول ،پروفیسر نسیم چوہدری اور پروفیسر عمران بشیر چوہدری سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
ماہر نفسیات پروفیسر نسیم چوہدری نے کہا کہ دنیا میں نفسیات کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں،دنیا بھر میں ہر 8 میں سے ایک فرد ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ افراد نفسیاتی مرض سے متاثرہ ہیں،ہم حدود کے باہر جاکر بھی مینٹل ہیلتھ پر کام کررہے ہیں۔ہم حادثات کے نتیجے میں جھلسے ہوئے افراد،امراض قلب کے متاثرہ افراد اور چھاتی کے سرطان کسے متاثرہ خواتین کی ذہنی صحت پر کام کررہے ہیں۔
ادارے نے اس سے قبل خودکشی اور نشے کی روک تھام کے لیے بھی پالیسی بنائی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پالیسی دستاویزات پر مبنی لائحہ عمل ہوتا ہے۔ ذہنی صحت کو جنرل ہیلتھ کا حصہ بنانا چاہیے۔ متاثرہ فرد کی مینٹل ہیلتھ بہتر کرنے کے لیے امتیازی سلوک یا رویے کو ختم کروانا ہوگا۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ آخری سال ہم نے کلینیکل سائیکالوجی بی ایس میں متعارف کروائی۔ سندھ میں آبادی کی نفسیاتی صحت اور سائکائٹری کے شعبے کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔
نگراں وزیر تعلیم سندھ رعنا حسین نے اس موقع پر کہا کہ آج کل بورڈ کے نتائج میں معیار برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ فرسٹ ائیر میں 67 فیصد بچے نتائج میں ناکام ہوئے ہیں۔ یقینا اس میں ہیومن ایرر ہے۔ آج کل افراد ٹیکنالوجی اور جدت سے گھبراتے ہیں۔ہر بچہ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتا۔اس طرح کے واقعات سے بھی بچوں اور والدین کی ذہنی صحت متاثر ہورہی ہے،اساتذہ ،والدین اور بچوں کی مینٹل ہیلتھ کو بہتر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
اس حوالے سے نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ایک چیز طے ہے کہ اگر نظریہ ہے تو کام کرنے کے لیے افراد ہیں۔ ان افراد کو پلیٹ فارم اور مواقع کی ضرورت ہے۔جتنا آپ ان افراد میں ملیں جلیں گے، اتنا ہی آپ کو اندازہ ہوگا کہ نیت اور نظریے کی کمی ہے۔ لوگوں میں کام کے جذبات اور بہتری کی کمی نہیں۔اللہ نے ہمیں حقوق العباد کے لیے بنایا،کیونکہ حقوق اللہ اور عبادت کے لیے فرشتوں کی کمی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جو ہورہا ہے اور جس طرح دنیا کے دیگر ممالک اس کو نظر انداز کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ جلد ہم بھی نہیں زندہ بچیں گے۔خود کو دوسرے سے اعلیٰ اور باوقار سمجھنا درست نہیں۔ ہم نے ابتدا میں خود کشی کے واقعات کا ڈیٹا بنایا۔پھر ہم نے نشہ آور اشیا کے حوالے سے پالیسی بنائی،آج کل والدین بہت نارمل طریقے سے کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ سگریٹ نہیں لیکن بس ویپنگ کرتا ہے۔بچوں کو نشہ آور اشیا کا عادی بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
حادثات کے نتیجے میں جھلس جانے والے،امراض قلب میں مبتلا افراد اور چھاتی کے سرطان سے متاثرہ خواتین کی ذہنی صحت بہتر کرنے کے لیے ماہرین نفسیات انہیں لازمی طبی مشاورت کی ہدایت کررہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کوشش ہے کہ ذہنی صحت کو جنرل ہیلتھ میں شامل کردیا جائے۔
اِن خیالات کا اظہار ماہر نفسیات اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) پروفیسر نسیم چوہدری نے جمعہ کو ادارے کی جانب سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے آڈیٹوریم میں منعقدہ سندھ مینٹل ہیلتھ پالیسی کی افتتاحی تقریب میں کیا،جس میں نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔
اس موقع پر نگراں وزیر تعلیم رعنا حسین،ماہرین نفسیات پروفیسر غلام رسول ،پروفیسر نسیم چوہدری اور پروفیسر عمران بشیر چوہدری سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
ماہر نفسیات پروفیسر نسیم چوہدری نے کہا کہ دنیا میں نفسیات کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں،دنیا بھر میں ہر 8 میں سے ایک فرد ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ افراد نفسیاتی مرض سے متاثرہ ہیں،ہم حدود کے باہر جاکر بھی مینٹل ہیلتھ پر کام کررہے ہیں۔ہم حادثات کے نتیجے میں جھلسے ہوئے افراد،امراض قلب کے متاثرہ افراد اور چھاتی کے سرطان کسے متاثرہ خواتین کی ذہنی صحت پر کام کررہے ہیں۔
ادارے نے اس سے قبل خودکشی اور نشے کی روک تھام کے لیے بھی پالیسی بنائی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پالیسی دستاویزات پر مبنی لائحہ عمل ہوتا ہے۔ ذہنی صحت کو جنرل ہیلتھ کا حصہ بنانا چاہیے۔ متاثرہ فرد کی مینٹل ہیلتھ بہتر کرنے کے لیے امتیازی سلوک یا رویے کو ختم کروانا ہوگا۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ آخری سال ہم نے کلینیکل سائیکالوجی بی ایس میں متعارف کروائی۔ سندھ میں آبادی کی نفسیاتی صحت اور سائکائٹری کے شعبے کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔
نگراں وزیر تعلیم سندھ رعنا حسین نے اس موقع پر کہا کہ آج کل بورڈ کے نتائج میں معیار برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ فرسٹ ائیر میں 67 فیصد بچے نتائج میں ناکام ہوئے ہیں۔ یقینا اس میں ہیومن ایرر ہے۔ آج کل افراد ٹیکنالوجی اور جدت سے گھبراتے ہیں۔ہر بچہ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتا۔اس طرح کے واقعات سے بھی بچوں اور والدین کی ذہنی صحت متاثر ہورہی ہے،اساتذہ ،والدین اور بچوں کی مینٹل ہیلتھ کو بہتر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
اس حوالے سے نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ایک چیز طے ہے کہ اگر نظریہ ہے تو کام کرنے کے لیے افراد ہیں۔ ان افراد کو پلیٹ فارم اور مواقع کی ضرورت ہے۔جتنا آپ ان افراد میں ملیں جلیں گے، اتنا ہی آپ کو اندازہ ہوگا کہ نیت اور نظریے کی کمی ہے۔ لوگوں میں کام کے جذبات اور بہتری کی کمی نہیں۔اللہ نے ہمیں حقوق العباد کے لیے بنایا،کیونکہ حقوق اللہ اور عبادت کے لیے فرشتوں کی کمی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جو ہورہا ہے اور جس طرح دنیا کے دیگر ممالک اس کو نظر انداز کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ جلد ہم بھی نہیں زندہ بچیں گے۔خود کو دوسرے سے اعلیٰ اور باوقار سمجھنا درست نہیں۔ ہم نے ابتدا میں خود کشی کے واقعات کا ڈیٹا بنایا۔پھر ہم نے نشہ آور اشیا کے حوالے سے پالیسی بنائی،آج کل والدین بہت نارمل طریقے سے کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ سگریٹ نہیں لیکن بس ویپنگ کرتا ہے۔بچوں کو نشہ آور اشیا کا عادی بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔