انتخابی وعدے تقریر کی لذت بجا مگر…
انتخابی وعدے سننا دل کو بھلا لگتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ پاسبان عقل مزہ کرکرا کیے دیتا ہے
انتخابات ہونے والے ہیں، تاہم انتخابی نتائج کے بارے میں ہمیں کوئی خاص فکر نہیں ہے ،وجہ بہت سادہ ہے جب بھی فکر مند ہوئے نتائج مختلف نکلے، سو فکر کرنا چھوڑ دیا!
رات دن گردش میں ہیں آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
ہاں البتہ انتخابی مہم سے ہمیں ہمیشہ بہت دلچسپی رہی اور اس بار بھی ہے۔یوں تو سیاست دان اپنے مخالف کے بارے میں ہمیشہ'' سچ'' ہی بولتے ہیں لیکن انتخابی مہم کے موقع پر تو وہ '' سچ'' کی انتہاء کر دیتے ہیں۔
کم از کم دوسروں کے بارے میں سچ سننے کے شوق نے کسی بھی انتخابی مہم نے ہمیں مایوس نہیں کیا۔ جاری انتخابی مہم میں جوں جوں گرم جوشی بڑھ رہی ہے، "سچ" کی بہتات بڑھ رہی ہے۔ سچ کی اس بہتات کی وجہ سے میڈیا پر بھی رونق لگی ہوئی ہے ۔
انتخابی مہم میں دلچسپی کی دوسری وجہ انتخابی وعدے وعید ہیں۔ ہمارے ہاں پچھلے 35/40 سالوں سے سیاست دانوں کی کم و بیش ایک ہی کھیپ سیاست میں غالب ہے۔
ان میں سے بڑی جماعتوں کو کئی بار حکومت کرنے کا موقع ملا۔ انھیں جہاں بانی اور عوام کی خدمت کرنے کے ارمان نکالنے کا موقع ملا لیکن انتخابی مہم کے دوران ان کی جانب سے وعدوں کی جو بہار سننے اور دیکھنے میں آتی ہے اس کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
ان وعدوں پر کچھ لمحوں کے لیے اگر یقین کر لیا جائے تو سمجھئے کہ فیض کے اس شعر میں بھٹکتی ہوئی سحر کو جائے قرار ملا کہ ملا :
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہمیں موقع دیں پاکستان میں 30لاکھ گھر بنا کر خواتین کو مالکانہ حقوق اور نوجوانوں کو روزگار کے لیے سہولتیں دیں گے۔
یوتھ کارڈ لے کر آئیں گے۔ چھ ماہ میں مفت علاج کا اسپتال بنا کر دکھاؤں گا۔ حکومت ملی تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ کریں گے۔ مستحق لوگوں کو 300یونٹ تک بجلی مفت دلواؤں گا۔
ن لیگ کے نواز شریف کا کہنا ہے کہ عوام کو تکلیف میں دیکھ کر مجھے جتنی تکلیف ہوتی ہے میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔ ہم اس نظام کو بدلیں گے، میرے دل کو سکون تب ملے گا جب آپ کو نوکریاں ملیں گی۔
آپ کے گھروں میں روشنی کے چراغ جلیں گے، لوگ بجلی گیس کے بلوں سے پریشان ہیں، مہنگائی سے پریشان ہیں، پاکستان کا یہ حشر نواز شریف کے جانے کے بعد ہوا، ہم اس نظام کو بدلیں گے۔
ہم وہ کام کر کے جائیں گے جو تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ نواز شریف جو وعدہ کرتا ہے وہ پورا کرتا ہے۔ میں وہ نہیں جس نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا یہ ہمارا شیوہ نہیں۔
پی ٹی آئی کو معمول کی انتخابی مہم چلانے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ اسے اپنی شناخت کے لیے صبح و شام جگہ جگہ جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ بلا نشان واپس لیے جانے کے بعد جماعتی طور پر الیکشن لڑنا اس کے لیے ناممکن ہوا۔ انتظامی ماحول پہلے ہی اس کے لیے مشکلات سے اٹا ہوا ہے۔ اس عالم میں کہاں کا منشور اور کیسے وعدے۔
انتخابی وعدے سننا دل کو بھلا لگتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ پاسبان عقل مزہ کرکرا کیے دیتا ہے۔ سوال اٹھتے ہیں کہ اپنے اپنے وقت میں بڑی جماعتوں کو بھرپور مواقع ملے، وعدے پورے کرنے کا بھرپور وقت بھی ملا، اس وقت ایسی کون سی مجبوریاں حرز جاں بنیں کہ ان وعدوں کا عشر عشیر بھی پورا نہ ہو سکا۔ آج ان وعدوں پر یقین کر بھی لیا جائے تو آخر کیسے معلوم ہو کہ ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے راتوں رات ان جماعتوں کے پاس ایسا کون سا نسخہ کیمیا ہاتھ آ گیا جو پہلے موجود نہ تھا۔
بقول فیض پہلی محبت کی باتیں اپنی جگہ لیکن لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سماجی صورت حال اس قدر پیچیدہ اور مخدوش ہے کہ لوگ نا امید ہو رہے ہیں۔
دور کیا جانا بجلی اور گیس ہر گھر کی شب و روز کی ضرورت ہے لیکن بجلی اور گیس کے سیکٹر میں پچھلے 30/35 سال کے دوران جو بد انتظامیاں اور بد عنوانیاں ہوئیں ان کے فوائد سمیٹنے والے اپنی اپنی تجوریاں بھر کر یہ جا وہ جا لیکن آج ملکی معیشت کو 5.7ٹریلین روپے کے سرکلر ڈیٹ کا سامنا ہے ، جس میں بجلی کا سرکلر ڈیٹ 2.7 ٹریلین روپے اور گیس کا تین ٹریلین روپے ہے۔
سرکلر ڈیٹ کے اس پہاڑ کا تناسب جی ڈی پی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ جی ڈی پی کا 5.4 فیصد ہے۔ بار بار قیمتیں بڑھانے کے باوجود یہ سرکلر ڈیٹ تو قابو میں نہیں آیا لیکن عوام قابو میں ہوتے ہوتے اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کی برداشت بے قابو ہونے کو ہے۔
ملکی معیشت اور سیاست کا دوسرا اہم ترین مسئلہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا ہے۔پچھلے 25سال کے دوران بیرونی قرضوں کا بوجھ شیطان کی آنت کی طرح بڑھا ہے۔
حکومتیں اپنے وسائل میں اضافہ کرنے سے گریزاں رہیں جب کہ اخراجات میں شاہانہ انداز کی خوگر پر عمل پیرا رہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکس کا جی ڈی پی تناسب 10فیصد سے نہیں بڑھ پایا جس کے نتیجے میں بجٹ خسارے نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ عالمی تجارت میں برآمدات مسلسل جمود کا شکار رہیں۔
جب کہ درآمدات میں مسلسل اضافہ رہا۔ اس متضاد معاشی جلن کے سبب تجارتی خسارہ اور مالیاتی جاری خسارہ دھیرے دھیرے اب اس مقام پر ہے کہ قرضوں کا پہاڑ 128ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
اصل واپس کرنے کی مجبوری اور سود کی ادائیگی کے بعد خزانے میں کچھ بچتا ہی نہیں۔سو پچھلی دو دہائیوں سے تمام حکومتوں کا ایک ہی چلن ہے، پچھلا اتاریں اور نیا قرض سر پہ چڑھا لیں۔ اسی سبب پاکستان کے بجٹ کا سب سے بڑا خرچہ قرضوں کی اور سود کی ادائیگی ہے۔سیاست دانوں کے ان وعدوں میں کہیں یہ نکتہ نہیں ہے کہ جو ہوا سو ہوا ، مستقبل میں ان کے پاس کیا منصوبہ ہے کہ خساروں کے اس عذاب سے چھٹکارا مل سکے۔
کہنے کو تو مسائل اور بھی بہت ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی ایک زمانے میں پاکستان سے زیادہ تھی لیکن بنگلہ دیش نے اپنی آبادی کنٹرول کر لی جب کہ پاکستان کو کوئی فکر نہیں۔ سالانہ آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کمیاب ہیں۔ اس کے اثرات سیاست، معیشت اور پورے سماجی ڈھانچے پر انتہائی منفی مرتب ہو رہے ہیں۔
پچھلے 25سال کے دوران صنعتی ترقی بمشکل 3.9فیصد رہی جب کہ زراعت میں اوسط ترقی اس سے بھی کم رہی۔ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان نے نئے مسائل کو جنم دیا ہے، شہروں میں رہنا مشکل اور ایک مسلسل آزمائش بنتا جا رہا ہے۔
انتخابی وعدوں کی بہار میں عقل عیار کے یہ سوال ہمارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں، لیکن کیا کریں پانچ سال کے بعد آئی بہار کے مزے لینا بھی ضروری ہے اور شب و روز کے مصائب کا سامنا کرنے کی مجبوری بھی ہے۔ ایسے میں خواہش ہے کہ کوئی تو ہو جو اس گھن چکر سے نکالنے کا راستہ سجھائے۔
انتخابی وعدے اچھی غزل کی طرح ہیں لیکن کیا کیجیے کہ غزل کا لطف مشاعرے اور مطالعے کی حد تک تو لیا جا سکتا ہے، مگر غزلیں چولہا روٹی کے کام نہیں آتیں۔ زندگی کے مصائب کا سامنا کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ بدقسمتی سے اس چارہ گری کی طرف کوئی توجہ نظر آتی ہے نہ اہلیت اور شاید نہ ضرورت۔ یہی صورت رہی تو اندیشہ ہے کہ اس انتخاب کی کوکھ سے بھی ایک اور رائیگاں سفر برآمد نہ ہو۔
رات دن گردش میں ہیں آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
ہاں البتہ انتخابی مہم سے ہمیں ہمیشہ بہت دلچسپی رہی اور اس بار بھی ہے۔یوں تو سیاست دان اپنے مخالف کے بارے میں ہمیشہ'' سچ'' ہی بولتے ہیں لیکن انتخابی مہم کے موقع پر تو وہ '' سچ'' کی انتہاء کر دیتے ہیں۔
کم از کم دوسروں کے بارے میں سچ سننے کے شوق نے کسی بھی انتخابی مہم نے ہمیں مایوس نہیں کیا۔ جاری انتخابی مہم میں جوں جوں گرم جوشی بڑھ رہی ہے، "سچ" کی بہتات بڑھ رہی ہے۔ سچ کی اس بہتات کی وجہ سے میڈیا پر بھی رونق لگی ہوئی ہے ۔
انتخابی مہم میں دلچسپی کی دوسری وجہ انتخابی وعدے وعید ہیں۔ ہمارے ہاں پچھلے 35/40 سالوں سے سیاست دانوں کی کم و بیش ایک ہی کھیپ سیاست میں غالب ہے۔
ان میں سے بڑی جماعتوں کو کئی بار حکومت کرنے کا موقع ملا۔ انھیں جہاں بانی اور عوام کی خدمت کرنے کے ارمان نکالنے کا موقع ملا لیکن انتخابی مہم کے دوران ان کی جانب سے وعدوں کی جو بہار سننے اور دیکھنے میں آتی ہے اس کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
ان وعدوں پر کچھ لمحوں کے لیے اگر یقین کر لیا جائے تو سمجھئے کہ فیض کے اس شعر میں بھٹکتی ہوئی سحر کو جائے قرار ملا کہ ملا :
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہمیں موقع دیں پاکستان میں 30لاکھ گھر بنا کر خواتین کو مالکانہ حقوق اور نوجوانوں کو روزگار کے لیے سہولتیں دیں گے۔
یوتھ کارڈ لے کر آئیں گے۔ چھ ماہ میں مفت علاج کا اسپتال بنا کر دکھاؤں گا۔ حکومت ملی تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ کریں گے۔ مستحق لوگوں کو 300یونٹ تک بجلی مفت دلواؤں گا۔
ن لیگ کے نواز شریف کا کہنا ہے کہ عوام کو تکلیف میں دیکھ کر مجھے جتنی تکلیف ہوتی ہے میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔ ہم اس نظام کو بدلیں گے، میرے دل کو سکون تب ملے گا جب آپ کو نوکریاں ملیں گی۔
آپ کے گھروں میں روشنی کے چراغ جلیں گے، لوگ بجلی گیس کے بلوں سے پریشان ہیں، مہنگائی سے پریشان ہیں، پاکستان کا یہ حشر نواز شریف کے جانے کے بعد ہوا، ہم اس نظام کو بدلیں گے۔
ہم وہ کام کر کے جائیں گے جو تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ نواز شریف جو وعدہ کرتا ہے وہ پورا کرتا ہے۔ میں وہ نہیں جس نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا یہ ہمارا شیوہ نہیں۔
پی ٹی آئی کو معمول کی انتخابی مہم چلانے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ اسے اپنی شناخت کے لیے صبح و شام جگہ جگہ جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ بلا نشان واپس لیے جانے کے بعد جماعتی طور پر الیکشن لڑنا اس کے لیے ناممکن ہوا۔ انتظامی ماحول پہلے ہی اس کے لیے مشکلات سے اٹا ہوا ہے۔ اس عالم میں کہاں کا منشور اور کیسے وعدے۔
انتخابی وعدے سننا دل کو بھلا لگتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ پاسبان عقل مزہ کرکرا کیے دیتا ہے۔ سوال اٹھتے ہیں کہ اپنے اپنے وقت میں بڑی جماعتوں کو بھرپور مواقع ملے، وعدے پورے کرنے کا بھرپور وقت بھی ملا، اس وقت ایسی کون سی مجبوریاں حرز جاں بنیں کہ ان وعدوں کا عشر عشیر بھی پورا نہ ہو سکا۔ آج ان وعدوں پر یقین کر بھی لیا جائے تو آخر کیسے معلوم ہو کہ ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے راتوں رات ان جماعتوں کے پاس ایسا کون سا نسخہ کیمیا ہاتھ آ گیا جو پہلے موجود نہ تھا۔
بقول فیض پہلی محبت کی باتیں اپنی جگہ لیکن لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سماجی صورت حال اس قدر پیچیدہ اور مخدوش ہے کہ لوگ نا امید ہو رہے ہیں۔
دور کیا جانا بجلی اور گیس ہر گھر کی شب و روز کی ضرورت ہے لیکن بجلی اور گیس کے سیکٹر میں پچھلے 30/35 سال کے دوران جو بد انتظامیاں اور بد عنوانیاں ہوئیں ان کے فوائد سمیٹنے والے اپنی اپنی تجوریاں بھر کر یہ جا وہ جا لیکن آج ملکی معیشت کو 5.7ٹریلین روپے کے سرکلر ڈیٹ کا سامنا ہے ، جس میں بجلی کا سرکلر ڈیٹ 2.7 ٹریلین روپے اور گیس کا تین ٹریلین روپے ہے۔
سرکلر ڈیٹ کے اس پہاڑ کا تناسب جی ڈی پی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ جی ڈی پی کا 5.4 فیصد ہے۔ بار بار قیمتیں بڑھانے کے باوجود یہ سرکلر ڈیٹ تو قابو میں نہیں آیا لیکن عوام قابو میں ہوتے ہوتے اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کی برداشت بے قابو ہونے کو ہے۔
ملکی معیشت اور سیاست کا دوسرا اہم ترین مسئلہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا ہے۔پچھلے 25سال کے دوران بیرونی قرضوں کا بوجھ شیطان کی آنت کی طرح بڑھا ہے۔
حکومتیں اپنے وسائل میں اضافہ کرنے سے گریزاں رہیں جب کہ اخراجات میں شاہانہ انداز کی خوگر پر عمل پیرا رہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکس کا جی ڈی پی تناسب 10فیصد سے نہیں بڑھ پایا جس کے نتیجے میں بجٹ خسارے نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ عالمی تجارت میں برآمدات مسلسل جمود کا شکار رہیں۔
جب کہ درآمدات میں مسلسل اضافہ رہا۔ اس متضاد معاشی جلن کے سبب تجارتی خسارہ اور مالیاتی جاری خسارہ دھیرے دھیرے اب اس مقام پر ہے کہ قرضوں کا پہاڑ 128ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
اصل واپس کرنے کی مجبوری اور سود کی ادائیگی کے بعد خزانے میں کچھ بچتا ہی نہیں۔سو پچھلی دو دہائیوں سے تمام حکومتوں کا ایک ہی چلن ہے، پچھلا اتاریں اور نیا قرض سر پہ چڑھا لیں۔ اسی سبب پاکستان کے بجٹ کا سب سے بڑا خرچہ قرضوں کی اور سود کی ادائیگی ہے۔سیاست دانوں کے ان وعدوں میں کہیں یہ نکتہ نہیں ہے کہ جو ہوا سو ہوا ، مستقبل میں ان کے پاس کیا منصوبہ ہے کہ خساروں کے اس عذاب سے چھٹکارا مل سکے۔
کہنے کو تو مسائل اور بھی بہت ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی ایک زمانے میں پاکستان سے زیادہ تھی لیکن بنگلہ دیش نے اپنی آبادی کنٹرول کر لی جب کہ پاکستان کو کوئی فکر نہیں۔ سالانہ آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کمیاب ہیں۔ اس کے اثرات سیاست، معیشت اور پورے سماجی ڈھانچے پر انتہائی منفی مرتب ہو رہے ہیں۔
پچھلے 25سال کے دوران صنعتی ترقی بمشکل 3.9فیصد رہی جب کہ زراعت میں اوسط ترقی اس سے بھی کم رہی۔ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان نے نئے مسائل کو جنم دیا ہے، شہروں میں رہنا مشکل اور ایک مسلسل آزمائش بنتا جا رہا ہے۔
انتخابی وعدوں کی بہار میں عقل عیار کے یہ سوال ہمارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں، لیکن کیا کریں پانچ سال کے بعد آئی بہار کے مزے لینا بھی ضروری ہے اور شب و روز کے مصائب کا سامنا کرنے کی مجبوری بھی ہے۔ ایسے میں خواہش ہے کہ کوئی تو ہو جو اس گھن چکر سے نکالنے کا راستہ سجھائے۔
انتخابی وعدے اچھی غزل کی طرح ہیں لیکن کیا کیجیے کہ غزل کا لطف مشاعرے اور مطالعے کی حد تک تو لیا جا سکتا ہے، مگر غزلیں چولہا روٹی کے کام نہیں آتیں۔ زندگی کے مصائب کا سامنا کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ بدقسمتی سے اس چارہ گری کی طرف کوئی توجہ نظر آتی ہے نہ اہلیت اور شاید نہ ضرورت۔ یہی صورت رہی تو اندیشہ ہے کہ اس انتخاب کی کوکھ سے بھی ایک اور رائیگاں سفر برآمد نہ ہو۔