پاک ایران سرحدی حملے

یہ بات طے ہے کہ پاکستان اپنے کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ کشیدگی کا قائل نہیں

mjgoher@yahoo.com

پاکستان کو عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر دنیا میں بالعموم اور ایشیا میں بالخصوص ایک اہم مقام حاصل ہے۔

اس کی جغرافیائی حیثیت دنیا بھر میں مسلمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سیاست میں پاکستان کے کردارکو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ جغرافیائی اور نظریاتی اعتبار سے پاکستان کے اپنے دیگر ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت، چین، افغانستان، ایران ، اسلامی دنیا اور عالمی قوتوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد کیا اور کیسی ہو، یہ موضوع نہ صرف قومی بلکہ عالمی سیاست کے ماہرین، مفکرین، مدبرین، سیاسی رہنماؤں اور ذرایع ابلاغ میں ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے۔

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا اسلامی ملک اور ایٹمی قوت ہونے کے ناتے مسلم دنیا میں سب سے بلند مقام پر نظر آتا ہے۔

پاکستان ایک ایسی آزاد خارجہ پالیسی کا حامی ہے جس میں تمام ہمسایہ ممالک اور خطے کے تمام ملک اور تمام عالمی دنیا سے برابری، خودمختاری کی بنیاد پر قائم ہو۔ ایک دوسرے کی نظریاتی اور جغرافیائی حدود کے احترام کے تمام عالمی اصولوں کی پابندی قومی خارجہ پالیسی کا بنیادی عامل ہے۔ اس باعث پاکستان سب ممالک کے ساتھ دوستانہ مراسم کو اہمیت دیتا ہے اور عالمی اصولوں و قوانین کی پابندی و احترام کرتا ہے۔

اپنے قیام کی سات دہائیوں کے دوران برادر ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ اگرچہ تعلقات زیر و زبرکا شکار رہے اور آج بھی ہیں تاہم ایران کے ساتھ اول دن سے پاکستان کے دیرینہ، برادرانہ، تہذیبی، ثقافتی اور دوستانہ تعلقات قائم رہے۔

ایران ہی وہ پہلا ملک ہے جس نے نوزائیدہ پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور رضا شاہ پہلوی وہ پہلے ایرانی سربراہ تھے جنھوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان توانائی بحران خاتمے کے لیے گیس پائپ لائن کا ایک منصوبہ بھی تکمیل کا منتظر ہے جو بلاشبہ دوستی کی علامت ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر مشترکہ سرحدیں بھی قائم ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے طویل عرصے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جغرافیائی سرحدوں کا ہمیشہ احترام کیا ہے، جو برادرانہ تعلقات کے استحکام کی علامت ہے لیکن چند روز پیش تر انتہائی حیران کن اور غیر متوقع طور پر پہلی مرتبہ ایران نے پاکستان کے دوستانہ سرحدی تقدس کو پامال کرتے ہوئے بلوچستان کے ایک دیہی علاقے پر ڈرون حملہ کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کو بھی حیران کر دیا۔

حملے میں دو بچیاں جاں بحق اور چار افراد زخمی ہوگئے۔ ایرانی وزیر خارجہ کا موقف تھا کہ دوست پڑوسی ملک حملے کا ہدف نہیں بلکہ حملے میں صرف ان ایرانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا جن کا تعلق اسرائیل سے تھا۔ ایرانی حملے کی نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرونی دنیا میں بھی شدید مذمت کی گئی۔ یورپی یونین، اقوام متحدہ، روس، افغانستان، چین اور امریکا نے ایرانی حملے کو غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے کشیدگی کو کم کرنے اور مسائل کو دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ۔


پاکستان نے اپنی سرحدی حدود کی پامالی کے جواب میں ایران کے علاقے سیستان میں کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف کی پناہ گاہوں پر حملے کر کے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق '' مرگ برسرمچار '' آپریشن میں دہشت گردوں کو ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔

اس ضمن میں یہ واضح کر دیا گیا کہ پاکستان ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے تاہم اپنی آزادی، خود مختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی باور کرا دیا گیا کہ جن عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کے سیستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں ایران کو باقاعدہ آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ناپسندیدہ ''مطلوب افراد'' کہ جنھوں نے پاکستان اور ایران کے مخصوص علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے نشانہ بنایا گیا۔ ایران نے اس بات کو برملا تسلیم کیا ہے کہ پاکستانی حملے میں مارے جانے والے تمام افراد غیر مقامی تھے۔

مبصرین اور تجزیہ نگار حالیہ پاک ایران کشیدگی کو مختلف تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اس کے تانے بانے اسرائیل، فلسطین جنگ اور امریکا یمن تنازع سے جوڑے جا رہے ہیں۔ اسرائیل گزشتہ چار ماہ سے فلسطینیوں پر آگ و بارود برسا رہا ہے۔

امریکا کی یہ خواہش ہے کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو تو اور ایران کی توجہ حماس سے ہٹا کر پاکستان سے اسے الجھا دیا جائے۔ دوسرا امریکا عرب خطے کو جنگ میں الجھانا چاہتا ہے اسی منصوبے کے تحت اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن میں حوثیوں پر حملے شروع کر رکھے ہیں جس سے اسرائیل فلسطین جنگ کا دائرہ خلیج تک پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

مقام اطمینان کہ پاکستان اور ایران میں اعلیٰ ترین سطح پر صورت حال کی نزاکت کا فوری احساس کیا گیا۔ کشیدگی ختم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں مثبت فیصلے کیے گئے اور دونوں کے درمیان سفیروں کی واپسی، وزرائے خارجہ کی سطح پر بات چیت اور تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

یہ بات طے ہے کہ پاکستان اپنے کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ کشیدگی کا قائل نہیں اور نہ ہی خطے کے امن کو متاثر کرنے کا حامی ہے، لیکن ایک آزاد و باوقار قوم کی طرح اپنی جغرافیائی حدود کی پامالی ملکی سالمیت اور خود مختاری پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ پاکستان اپنے تمام پڑوسی ممالک اور خطے کے ملکوں کے ساتھ برادرانہ و دوستانہ تعلقات کا خواہاں اور امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔

امید ہے کہ برادر اسلامی ملک ایران بات چیت و سفارتی سطح پر مسائل کا حل تلاش کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا تاکہ پھر کسی آپریشن '' مرگ برسرمچار '' کی نوبت نہ آئے۔
Load Next Story