ہدایت کار شباب کیرانوی فلم انڈسٹری کا شباب تھے
انھیں انڈین فلم انڈسٹری کی لازوال شخصیت سمجھا جاتا تھا
جس طرح بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ہدایت کار محبوب خان کو بڑی شہرت اور ایک درجہ حاصل تھا، انھیں انڈین فلم انڈسٹری کی لازوال شخصیت سمجھا جاتا تھا۔
اسی طرح لاہور کی فلم انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں مصنف، شاعر، فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کو فلم انڈسٹری کی ہمہ گیر شخصیت کہا جاتا تھا بلکہ شباب کیرانوی فلم انڈسٹری کا شباب سمجھے جاتے تھے۔
انڈین فلم انڈسٹری میں ہدایت کار محبوب خان نے دلیپ کمار، راج کپور، نرگس، نمی اور نادرہ کو متعارف کرایا اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ۔ پاکستان میں فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے مسرت نذیر، کمال، منور ظریف، رنگیلا، ننھا، صاعقہ، سیما، زینت اور دیگرکئی فنکار متعارف کرائے۔ ٹیلی وژن کمپیئر و آرٹسٹ طارق عزیزکو انھوں نے اپنی فلم انسانیت میں پہلی بار مرکزی کردار میں پیش کیا۔
لاہور میں شاہ نور اسٹوڈیو، ایورنیو اسٹوڈیو، باری اسٹوڈیو اور اے ایم اسٹوڈیو کے بعد شباب اسٹوڈیو قائم ہوا۔ شباب اسٹوڈیو میں شباب کیرانوی صاحب نے فلمیں بنائیں ، ان کے دو صاحبزادوں نذر شباب اور ظفر شباب نے بھی بہت سی کامیاب فلمیں پروڈیوس کیں۔
میگا کاسٹ فلموں کا آغاز بھی شباب کیرانوی ہی نے کیا تھا، انھوں نے محمدعلی، وحید مراد اور ندیم جیسے بڑے ہیروز کو لے کر فلمیں بنائیں، ہر سال ان کی فلمیں ریلیز ہوا کرتی تھیں اور جب تک وہ زندہ رہے پاکستان کی فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔
مصنف، شاعر، فلم ساز و ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی نے محمد علی، زیبا اور دیبا کو اپنی فلم چراغ جلتا رہا میں متعارف کرایا، پھر ان تینوں آرٹسٹوں کو شباب کیرانوی صاحب نے اپنے کیمپ میں داخل کر لیا تھا، ان آرٹسٹوں کو لے کر سب سے زیادہ فلمیں پروڈیوس کی تھیں ۔
فلم چکوری کی بے مثال کامیابی کے بعد اداکار ندیم کو بھی ڈھاکا سے لاہور بلوایا تھا اور اپنی فلم سنگدل میں اداکارہ دیبا کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا تھا اور ندیم کو ڈھاکا سے لاہور بلانے پر اس کو منہ مانگا معاوضہ بھی دیا تھا،وہ اس وقت کے ہیروز سے چار گنا زیادہ تھا جب اس بات کا پتا چلا تو اداکار سدھیر، محمد علی اور کمال نے بھی اپنے معاوضے بڑھا دیے تھے۔
شباب کیرانوی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ یہ اترپردیش ہندوستان کے علاقے ضلع مظفر نگر میں حافظ محمد اسمٰعیل کے گھر میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا گھریلو نام حافظ نذیر احمد تھا۔
نوعمری ہی سے ان کو شعر و شاعری کا جنون کی حد تک شوق پیدا ہوگیا تھا، پھر اس شوق نے شدت اختیارکر لی پھر یہ لاہور آ گئے اور یہاں انھوں نے فلمی صحافت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
ابتدا میں یہ لاہور کے مشہور فلمی رسالے ماہنامہ فلم لائٹ کے شعبہ ادارت میں شامل ہوئے، پھرترقی کرتے کرتے اسی رسالے کے ایڈیٹر ہوگئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے ماہنامہ پکچر کے نام سے اپنا ذاتی رسالہ نکالنا شروع کیا اور اس فلمی رسالے کی بدولت یہ لاہور کے فلمی حلقوں میں چھاتے چلے گئے تھے۔
فلمی دنیا میں آنے سے پہلے انھوں نے لاہور کے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی اپنی شناخت پیدا کی اور لاہور کے ایک نامی گرامی شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے شاگرد ہوگئے تھے۔
اس دوران ان کی شاعرانہ تربیت بھی اچھی طرح سے ہوتی رہی تھی پھر جب یہ فلمی صحافت میں آئے تو فلمی دنیا کے مشہور فنکاروں سے بھی ان کے تعلقات پیدا ہوگئے، اس دوران ان کی دوستی ایک سینئر کیمرہ مین اے حمید سے ہوگئی۔
ان کی وجہ سے فلم اسٹوڈیوز میں بھی آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ اے حمید کے ساتھ مل کر شباب کیرانوی نے پہلی فلم ''جلن'' کے نام سے بنائی، فلم جلن میں شباب صاحب نے گلوکار و اداکار عنایت حسین بھٹی کو متعارف کرایا، اداکارہ آسیہ اور فاخرہ کو فلموں میں لائے۔ وہ فلم بری طرح فلاپ ہوگئی، پھر کافی عرصے تک خاموشی رہی اسی دوران شباب صاحب کی ملاقات صحافی رائٹر علی سفیان آفاقی سے ہوئی۔
علی سفیان آفاقی بھی ان دنوں بحیثیت فلم رائٹر فلمی دنیا میں آنے کی کوششیں کر رہے تھے مگر ان کی کوشش بار آور نہیں ہو رہی تھی، جب ان کی ملاقات شباب کیرانوی سے ہوئی تو انھوں نے شباب صاحب کو فلمی کہانی کا ایک آئیڈیا سنایا، شباب کیرانوی صاحب کو وہ آئیڈیا پسند آیا۔
انھوں نے آفاقی صاحب سے کہا کہ اس آئیڈیے کو فلم کے اسکرپٹ میں ڈھال کر لائیں پھر دیکھتے ہیں کیا صورت نکلتی ہے، علی سفیان آفاقی صاحب نے دوسری ملاقات میں وہ کہانی دوبارہ مزاحیہ انداز کے مکالموں کے ساتھ سنائی، شباب صاحب کو کہانی مکالموں کے ساتھ اچھی لگی اور پھر اس کہانی کا نام ٹھنڈی سڑک رکھا گیا۔
(جاری ہے)
اسی طرح لاہور کی فلم انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں مصنف، شاعر، فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کو فلم انڈسٹری کی ہمہ گیر شخصیت کہا جاتا تھا بلکہ شباب کیرانوی فلم انڈسٹری کا شباب سمجھے جاتے تھے۔
انڈین فلم انڈسٹری میں ہدایت کار محبوب خان نے دلیپ کمار، راج کپور، نرگس، نمی اور نادرہ کو متعارف کرایا اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ۔ پاکستان میں فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے مسرت نذیر، کمال، منور ظریف، رنگیلا، ننھا، صاعقہ، سیما، زینت اور دیگرکئی فنکار متعارف کرائے۔ ٹیلی وژن کمپیئر و آرٹسٹ طارق عزیزکو انھوں نے اپنی فلم انسانیت میں پہلی بار مرکزی کردار میں پیش کیا۔
لاہور میں شاہ نور اسٹوڈیو، ایورنیو اسٹوڈیو، باری اسٹوڈیو اور اے ایم اسٹوڈیو کے بعد شباب اسٹوڈیو قائم ہوا۔ شباب اسٹوڈیو میں شباب کیرانوی صاحب نے فلمیں بنائیں ، ان کے دو صاحبزادوں نذر شباب اور ظفر شباب نے بھی بہت سی کامیاب فلمیں پروڈیوس کیں۔
میگا کاسٹ فلموں کا آغاز بھی شباب کیرانوی ہی نے کیا تھا، انھوں نے محمدعلی، وحید مراد اور ندیم جیسے بڑے ہیروز کو لے کر فلمیں بنائیں، ہر سال ان کی فلمیں ریلیز ہوا کرتی تھیں اور جب تک وہ زندہ رہے پاکستان کی فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔
مصنف، شاعر، فلم ساز و ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی نے محمد علی، زیبا اور دیبا کو اپنی فلم چراغ جلتا رہا میں متعارف کرایا، پھر ان تینوں آرٹسٹوں کو شباب کیرانوی صاحب نے اپنے کیمپ میں داخل کر لیا تھا، ان آرٹسٹوں کو لے کر سب سے زیادہ فلمیں پروڈیوس کی تھیں ۔
فلم چکوری کی بے مثال کامیابی کے بعد اداکار ندیم کو بھی ڈھاکا سے لاہور بلوایا تھا اور اپنی فلم سنگدل میں اداکارہ دیبا کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا تھا اور ندیم کو ڈھاکا سے لاہور بلانے پر اس کو منہ مانگا معاوضہ بھی دیا تھا،وہ اس وقت کے ہیروز سے چار گنا زیادہ تھا جب اس بات کا پتا چلا تو اداکار سدھیر، محمد علی اور کمال نے بھی اپنے معاوضے بڑھا دیے تھے۔
شباب کیرانوی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ یہ اترپردیش ہندوستان کے علاقے ضلع مظفر نگر میں حافظ محمد اسمٰعیل کے گھر میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا گھریلو نام حافظ نذیر احمد تھا۔
نوعمری ہی سے ان کو شعر و شاعری کا جنون کی حد تک شوق پیدا ہوگیا تھا، پھر اس شوق نے شدت اختیارکر لی پھر یہ لاہور آ گئے اور یہاں انھوں نے فلمی صحافت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
ابتدا میں یہ لاہور کے مشہور فلمی رسالے ماہنامہ فلم لائٹ کے شعبہ ادارت میں شامل ہوئے، پھرترقی کرتے کرتے اسی رسالے کے ایڈیٹر ہوگئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے ماہنامہ پکچر کے نام سے اپنا ذاتی رسالہ نکالنا شروع کیا اور اس فلمی رسالے کی بدولت یہ لاہور کے فلمی حلقوں میں چھاتے چلے گئے تھے۔
فلمی دنیا میں آنے سے پہلے انھوں نے لاہور کے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی اپنی شناخت پیدا کی اور لاہور کے ایک نامی گرامی شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے شاگرد ہوگئے تھے۔
اس دوران ان کی شاعرانہ تربیت بھی اچھی طرح سے ہوتی رہی تھی پھر جب یہ فلمی صحافت میں آئے تو فلمی دنیا کے مشہور فنکاروں سے بھی ان کے تعلقات پیدا ہوگئے، اس دوران ان کی دوستی ایک سینئر کیمرہ مین اے حمید سے ہوگئی۔
ان کی وجہ سے فلم اسٹوڈیوز میں بھی آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ اے حمید کے ساتھ مل کر شباب کیرانوی نے پہلی فلم ''جلن'' کے نام سے بنائی، فلم جلن میں شباب صاحب نے گلوکار و اداکار عنایت حسین بھٹی کو متعارف کرایا، اداکارہ آسیہ اور فاخرہ کو فلموں میں لائے۔ وہ فلم بری طرح فلاپ ہوگئی، پھر کافی عرصے تک خاموشی رہی اسی دوران شباب صاحب کی ملاقات صحافی رائٹر علی سفیان آفاقی سے ہوئی۔
علی سفیان آفاقی بھی ان دنوں بحیثیت فلم رائٹر فلمی دنیا میں آنے کی کوششیں کر رہے تھے مگر ان کی کوشش بار آور نہیں ہو رہی تھی، جب ان کی ملاقات شباب کیرانوی سے ہوئی تو انھوں نے شباب صاحب کو فلمی کہانی کا ایک آئیڈیا سنایا، شباب کیرانوی صاحب کو وہ آئیڈیا پسند آیا۔
انھوں نے آفاقی صاحب سے کہا کہ اس آئیڈیے کو فلم کے اسکرپٹ میں ڈھال کر لائیں پھر دیکھتے ہیں کیا صورت نکلتی ہے، علی سفیان آفاقی صاحب نے دوسری ملاقات میں وہ کہانی دوبارہ مزاحیہ انداز کے مکالموں کے ساتھ سنائی، شباب صاحب کو کہانی مکالموں کے ساتھ اچھی لگی اور پھر اس کہانی کا نام ٹھنڈی سڑک رکھا گیا۔
(جاری ہے)