پیپلز پارٹی کی حکومت اور تعلیم

عالمی بینک نے اسکولوں کی تعلیم کیلیے فنڈنگ روکنے کافیصلہ کیاتواس وقت کے صدرآصف زرداری کوصورتحال کی سنگینی کااندازہ ہوا

tauceeph@gmail.com

پیپلز پارٹی ملک کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنا انتخابی منشور سب سے پہلے عوام کے سامنے پیش کیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی انتخابی مہم میں اپنے منشور کے 10 نکات کو زور شور سے بیان کررہے ہیں۔ ان کے منشور میں 300 یونٹ تک مفت بجلی کی فراہمی، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دگنی کرنے اور ہر بچے کی اسکول تک رسائی کو یقینی بنانے کے وعدے شامل ہیں۔

بلاول بھٹو نے اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک پرجوش تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اگر وزیر اعظم بن گئے تو ہر بچہ اسکول جائے گا اور بچوں کو اسکولوں میں کتابیں اور یونیفارم حتیٰ کہ ناشتہ بھی ملے گا۔

مسلم لیگ کی منشور کمیٹی ایک سابق استاد پروفیسر عرفان صدیقی کی سربراہی میں کئی ماہ سے منشور تیار کرنے میں مصروف ہے۔ ایک اور بڑی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کا سارا زور دینی مدارس پر ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اس دفعہ عدالتوں اور جیلوں کے درمیان گردش کرنے پر مجبور ہے تو ان کے منشور کا پتا نہیں مگر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن نے اسکولوں کی تعلیم کے بارے میں ایک رپورٹ کا اجراء کیا ہے۔

اس رپورٹ میں پاکستان میں اسکول نا جانے والے بچوں کی جو تعداد بیان کی گئی ہے وہ اس صدی کے تیس برسوں میں ترقی کے تمام دعوؤں کو رد کررہی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 2کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پی آئی ای کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 11لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہیں جب کہ سندھ میں 70لاکھ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔ خیبر پختون خوا میں 36 لاکھ اور بلوچستان میں 31لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

ملک کے دار الحکومت اسلام آباد میں بھی 80 ہزار بچے اسکول نہیں جاتے۔ پی آئی ای کے ماہرین نے ان اعداد و شمار کا تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ اسکول جانے والے 11 سال کی عمر کے بچوں میں سے 39فیصد بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2016-17 میں اسکول نا جانے والے بچوں کا تناسب 44فیصد تھا۔ 2021-22میں ہائر سیکنڈری سطح پر 2021-22میں 60فیصد بچے اسکول سے باہر تھے۔ اس وقت بھی سندھ کے پرائمری اسکولوں میں صرف 64فیصد طلبہ کو بیت الخلاء کی سہولت حاصل ہے۔

پیپلز پارٹی 16برسوں سے سندھ میں برسر اقتدار ہے اور آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی سبجیکٹ قرار دی گئی ہے۔ وکی پیڈیا پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں اب بھی کاغذوں پر اسکول ہیں جنھیں گھوسٹ اسکول کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح گھوسٹ اساتذہ کا ادارہ بھی موجود ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں اب بھی 5ہزار 229 اسکول صرف کاغذات پر موجود ہیں۔

اسی طرح 30ہزار افراد کا استاد کے طور پر تقرر ہوچکا ہے مگر یہ اساتذہ کسی تدریس کا فریضہ انجام نہیں دیتے۔ اسی طرح سندھ میں 60 فیصد اسکولوں میں بچوں کے لیے صاف پانی کی سہولت نہیں ہے اور 40فیصد اسکولوں میں بجلی کے کنکشن موجود نہیں ہیں اور 35فیصد اسکولوں کی چار دیواری کبھی تعمیر نہیں ہوئی۔

سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے محکمہ تعلیم کے افسروں کو سندھ میں تعلیم کی صورتحال کے بارے میں حقائق پر مبنی رپورٹ تیار کرنے پر مجبور کیا تو یہ پتا چلا کہ سندھ میں اسکول چھوڑنے اور تعلیم نامکمل چھوڑ کر جانے والے بچوں کا تناسب 54فیصد ہے اور پورے سندھ میں 50فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ سندھ کی حکومت نے گزشتہ مالیاتی سال کے تعلیمی بجٹ کے لیے 97.098 بلین روپے کی رقم مختص کی تھی۔ یہ بجٹ تعلیم کی ترقی کے لیے کتنا خرچ ہوا یہ ایک سوال ہے۔


پیپلز پارٹی کی حکومت جب 2008 میں برسر اقتدار آئی تو قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر مامور ہوئے اور پیر مظہر الحق کو تعلیم کی وزارت سونپی گئی، یوں سندھ میں تعلیمی شعبہ کی زبوں حالی کا آغاز ہوا۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ عالمی بینک نے سندھ کے اسکولوں کی تعلیم کے لیے امداد دینی شروع کی تھی مگر عالمی بینک نے اساتذہ کے تقرر کو انٹرن شپ سے مشروط کیا تھا مگر اس دور میں بھی کئی ہزار افراد کو انٹرن شپ کے بغیر اساتذہ بنادیا گیا۔ ان میں سے بہت سے افراد کا تعلیم سے تعلق نہیں تھا۔

عالمی بینک نے اسکولوں کی تعلیم کے لیے فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے صدر آصف زرداری کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ انھوں نے اپنے قریبی عزیز کو سیکریٹری تعلیم مقرر کیا۔ انھوں نے ان افراد کو ملازمتوں سے رخصت کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرے ہونے لگے۔ بہرحال پھر حکومت کو آیندہ ملازمتوں کے لیے آئی بی اے سکھر کے انٹری ٹیسٹ کی شرط عائد کرنی پڑی۔ معاملہ اسکولوں میں کتابوں اور فرنیچرز کی فراہمی کا بھی اہم بن گیا۔

حکومت سندھ نے اسکولوں کے طالب علموں کو مفت کتابیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، یہ ایک بہترین فیصلہ تھا۔ کتابوں کی اشاعت کی ذمے داری سندھ ٹیکسٹ بورڈ کے سپرد ہوئی مگر سندھ ٹیکسٹ بورڈ کا کروڑوں کا فنڈ ہمیشہ شفافیت کے عمل سے دور ہی محسوس ہوتا ہے۔ حکومت سندھ اپنے منظور نظر افسروں کوبورڈ میں اہم ذمے داریاں دیتی ہے اور ہر سال تعلیمی سیشن شروع ہونے کے مہینوں بعد کتابوں کی ضرورت ہوتی ہیں۔

یہ خبریں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ محکمہ تعلیم کے دفتر کے گودام یا کسی فرد کے گودام سے گزشتہ سال کی کتابیں دریافت ہوئی ہیں۔ حکومت ہر سال اسکولوں میں فرنیچر کی فراہمی کے لیے کروڑوں روپے کے ٹینڈر دیتی ہے اور یہ ٹینڈر منظور ہوتے ہیں مگرا سکولوں میں فرنیچر کی کمی رہتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرنے والے ایک ایکٹیوسٹ نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک عرضداشت دائر کی کہ پورے صوبے کے اسکولوں میں فرنیچر کی فراہمی کی تفصیلات طلب کی جائیں۔

تعلیم کی اہمیت کا ادراک کرنے والے معزز جج صاحبان نے محکمہ تعلیم کے افسروں کو مجبور کیا تو انکشاف ہوا کہ سندھ بھر میں 2لاکھ بچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان بچوں کے اسکولوں میں فرنیچر موجود ہی نہیں ہے، یہی صورتحال کالجوں کی ہے۔ سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی کمی پائی جاتی ہے۔ سائنس کے کالجوں میں تجربہ گاہیں ہیں جہاں یہ تجربہ گاہیں ہیں وہاں آلات اور کیمیکل دستیاب نہیں ہیں۔

سینئر صحافی سہیل سانگی کہتے ہیں کہ اب پھر سندھ کے کالجوں میں بی اے کی سطح پر وہی پرانے مضامین کی تدریس ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی کو نظرانداز کرتے ہوئے جدید مضامین کی تدریس کے لیے خاطرخواہ کالجوں میں اساتذہ کا تقرر سندھ پبلک سروس کمیشن کرتا ہے مگر اس کمیشن کی کارکردگی پر ہمیشہ اعتراضات ہوئے ہیں۔ کمیشن جب بھی کوئی بڑا امتحان لیتا ہے تو عدالتوں میں مقدمات دائر ہوتے ہیں۔

یہ بات عام ہے کہ سرمایہ یا بڑی سفارش ہی سے کسی فرد کو ملازمت کا پروانہ مل سکتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کے سابقہ چیئرمین اور اراکین کو نااہل قرار دیا تھا۔

کراچی میں آج کل انٹر پاس سال اول کے امتحانات میں طلبہ کی اکثریت کے فیل ہونے پر احتجاج ہورہا ہے۔ سینئر اساتذہ کا مشاہدہ ہے کہ کمیشن نے جس اساتذہ کا گزشتہ ایک عشرہ کے دوران تقرر کیا ان میں سے بیشتر امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال کی اہلیت نہیں رکھتے۔ سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز مستقل بحرانوں کا شکاررہے ہیں۔ سندھ کی حکومت اہل افراد کو چیئرمین اور سیکریٹری کے عہدے پر تقرر کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نگراں حکومت کمشنرز کو بورڈ کے چیئرمین کی ذمے داری سونپ دی ہے۔

سندھ میں ایک اچھا کام جدید نصاب کی تیاری کا ہوا ہے اور ماہرین نے ایک ترقی پسند نصاب تیار کیا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اسی طرح اب سندھ حکومت نے اساتذہ کے تقرر کے لیے لائسنس لینا لازمی قرار دیا ہے۔ لائسنس لینے کے لیے متعلقہ ڈگری ہونا ضروری ہے۔ سندھ میں سرکاری یونیورسٹیوں کی صورتحال بھی خراب ہے۔ کئی یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر کا تقرر رکا ہوا ہے۔

حکومت سندھ صوبہ کی سب سے بڑی کراچی یونیورسٹی کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے گرانٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی صورتحال سندھ یونیورسٹی کی ہے ۔بہرحال ویسے تو پورے ملک میں تعلیم کا شعبہ پسماندگی کا شکار ہے مگر بلاول بھٹو نے جس طرح تعلیم کے شعبہ میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے وہ خوش آیند ہے، مگر بلاول بھٹو زرداری اگر اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف میرٹ کو اپنائیں اور صفر کرپشن کی پالیسی اختیار کریں۔
Load Next Story