سوشل میڈیا معطلی کا مقصد ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا ہے ایچ آر سی پی
سیاسی جماعتیں انسانی حقوق کو درپیش سنگين مسائل مدنظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق کا منشور تیار کریں، مطالبہ
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے تمام سیاسی جماعتوں کو انسانی حقوق کا منشور تیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر پابندی اور سوشل میڈیا کی معطلی کا مقصد ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا ہے۔
ایچ آر سی پی نے جنرل کونسل کے 75 ویں اجلاس کے بعد جاری بیان میں سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر مستحکم جمہوریت، انتخابات سے پہلے ہونے والی ساز باز اور انسانی حقوق کو درپیش سنگين مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق کا منشور تیار کریں۔
بیان میں کہا گیا کہ ذرائع ابلاغ پر بڑھتی پابندیوں اور آن لائن اجتماعات محدود کرنے کی غرض سے انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کا بظاہر مقصد ایک خاص سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا اور اسے اپنے رائے دہندگان کی حمایت سے محروم کرنا ہے۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے خلاف 'مذموم مہم' پر درجنوں سوشل میڈیا صارفین کو وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے نوٹسز عوام کے آزادی اظہار کے حق پر یلغار کی نشانی ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ انتخابات کے دوران انٹرنیٹ تک محدود رسائی یا مکمل عدم رسائی سے نہ صرف لوگوں کے معلومات حاصل کرنے کا حق بلکہ اُن کا پرامن اجتماع کا حق بھی متاثر ہو گا۔
مزید بتایا گیا کہ حال ہی میں انتخابات کے التوا کے لیے سینیٹ میں کئی قراردادوں کی منظوری، نیز فوج کے زیر انتظام چلنے والی ایک کمپنی کو کاشت کاری کے لیے سندھ میں 52 ہزار ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ سے فوج کے افسرشاہی کے کردار میں بےجا توسیع کے پریشان کن اشارے مل رہے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ یہ حقیقت کہ ملک میں لگ بھگ ایک کروڑ عورتوں کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکتیں جبکہ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ خواجہ سرا برادری کے سیاسی نمائندوں کے لیے مخصوص نشستیں ہونی چاہئیں۔
حکومتی اقدامات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایچ آر سی پی کو بلوچ عوام کے ساتھ ریاست کی مسلسل اور دیدہ دانستہ بے رخی پر بھی مایوسی ہوئی ہے، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد کی طرف عورتوں کی قیادت میں ہونے والے مارچ کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا نتیجہ ریاست اور بلوچ عوام میں خطرناک قطع تعلقی کی صورت میں نکلا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ تربت اور سکرنڈ میں مبینہ ماورئے عدالت ہلاکتوں کے مجرموں کا ابھی تک محاسبہ نہیں ہو سکا، اسی طرح گلگت بلتستان میں مظاہرین کی شکایات سے ریاست کی جان بوجھ کر لاتعلقی باعث تشویش ہے اور یہ جان کر بھی بہت تکلیف ہوئی ہے کہ جی ایم سید کی برسی پر ریلیوں کے شرکا بشمول خواتین پر بغاوت کے مقدمے درج کیے گئے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ پاکستان میں 26 لاکھ بچوں کے اسکول نہ جانے کے حالیہ انکشاف نے تعلیمی بحران کی نشان دہی کی ہے، جسے ریاست مزید نظرانداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اسی طرح اقلیتوں کی نوجوان عورتوں کی جبری تبدیلی مذہب اور سندھ میں کچے کے علاقوں میں امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال پر بھی شدید فکر لاحق ہے اور ایچ آر سی پی حراستی مراکز اور نجی جیلوں کا مسلسل استعمال انسانی حقوق کی تذلیل تصور کرتا ہے۔
ایچ آر سی پی نے جنرل کونسل کے 75 ویں اجلاس کے بعد جاری بیان میں سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر مستحکم جمہوریت، انتخابات سے پہلے ہونے والی ساز باز اور انسانی حقوق کو درپیش سنگين مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق کا منشور تیار کریں۔
بیان میں کہا گیا کہ ذرائع ابلاغ پر بڑھتی پابندیوں اور آن لائن اجتماعات محدود کرنے کی غرض سے انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کا بظاہر مقصد ایک خاص سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا اور اسے اپنے رائے دہندگان کی حمایت سے محروم کرنا ہے۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے خلاف 'مذموم مہم' پر درجنوں سوشل میڈیا صارفین کو وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے نوٹسز عوام کے آزادی اظہار کے حق پر یلغار کی نشانی ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ انتخابات کے دوران انٹرنیٹ تک محدود رسائی یا مکمل عدم رسائی سے نہ صرف لوگوں کے معلومات حاصل کرنے کا حق بلکہ اُن کا پرامن اجتماع کا حق بھی متاثر ہو گا۔
مزید بتایا گیا کہ حال ہی میں انتخابات کے التوا کے لیے سینیٹ میں کئی قراردادوں کی منظوری، نیز فوج کے زیر انتظام چلنے والی ایک کمپنی کو کاشت کاری کے لیے سندھ میں 52 ہزار ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ سے فوج کے افسرشاہی کے کردار میں بےجا توسیع کے پریشان کن اشارے مل رہے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ یہ حقیقت کہ ملک میں لگ بھگ ایک کروڑ عورتوں کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکتیں جبکہ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ خواجہ سرا برادری کے سیاسی نمائندوں کے لیے مخصوص نشستیں ہونی چاہئیں۔
حکومتی اقدامات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایچ آر سی پی کو بلوچ عوام کے ساتھ ریاست کی مسلسل اور دیدہ دانستہ بے رخی پر بھی مایوسی ہوئی ہے، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد کی طرف عورتوں کی قیادت میں ہونے والے مارچ کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا نتیجہ ریاست اور بلوچ عوام میں خطرناک قطع تعلقی کی صورت میں نکلا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ تربت اور سکرنڈ میں مبینہ ماورئے عدالت ہلاکتوں کے مجرموں کا ابھی تک محاسبہ نہیں ہو سکا، اسی طرح گلگت بلتستان میں مظاہرین کی شکایات سے ریاست کی جان بوجھ کر لاتعلقی باعث تشویش ہے اور یہ جان کر بھی بہت تکلیف ہوئی ہے کہ جی ایم سید کی برسی پر ریلیوں کے شرکا بشمول خواتین پر بغاوت کے مقدمے درج کیے گئے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ پاکستان میں 26 لاکھ بچوں کے اسکول نہ جانے کے حالیہ انکشاف نے تعلیمی بحران کی نشان دہی کی ہے، جسے ریاست مزید نظرانداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اسی طرح اقلیتوں کی نوجوان عورتوں کی جبری تبدیلی مذہب اور سندھ میں کچے کے علاقوں میں امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال پر بھی شدید فکر لاحق ہے اور ایچ آر سی پی حراستی مراکز اور نجی جیلوں کا مسلسل استعمال انسانی حقوق کی تذلیل تصور کرتا ہے۔