رات
دنیا بھر میں شام ہوتے ہی کاروبار بند ہوجاتا ہے اور صبح سویرے زندگی کی ہلچل شروع ہوجاتی ہے
سیاہ رنگ کی وضاحت ثقافتی اور انفرادی طور پر مختلف انداز سے کی جاتی ہے، اگرچہ سیاہ رنگ، اکثر تاریکی یا اسرار سے منسلک ہوتا ہے، لیکن رنگ کی علامت کی تشریحات مختلف ہوسکتی ہیں۔ کچھ ثقافتوں میں، سیاہ رنگ خوف اور برائی کے بجائے طاقت، نفاست یا روحانیت کی علامت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
رات، ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے، جو متنوع جذبات، امن، خوف اور وجد کی کیفیات کی ترجمانی کرتی ہے۔ رات کا تجربہ انسانی نفسیات کے ایک انوکھے پہلو سے پردہ اٹھاتا ہے۔ رات میں چہرے کے نقاب اتر جاتے ہیں اور اصلی روپ نمودار ہوتا ہے۔ رات میں انسان وجود کے خالص پن کی طرف لوٹتا ہے۔ رات بہت سے لوگوں کے لیے امن کی علامت ہے۔ جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے اور دنیا اندھیرے کے دائرے میں منتقل ہوجاتی ہے تو ایک پُرسکون احساس گھیر لیتا ہے۔
رات کی خاموشی خود پر غورکرنے کا موقع دیتی ہے اور دن کی چپقلش سے مہلت مل جاتی ہے۔ پتوں کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ، جھینگرکی دور سے آوازیں اور ہوا کی نرم سرگوشیاں سکون کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ رات کی خاموشی میں خود کلامی جنم لیتی ہے، لیکن دور جدید کا انسان فطرت کے توازن و تبدیلی کے ساتھ چلنے کی حس کھوچکا ہے۔ ہم صبح دوپہر، سہ پہر، شام اور رات کی اہمیت و افادیت اور ان کے کیمیائی عمل سے واقف نہیں ہیں، جو ہمارے ذہن و جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
خوف، اکثر اندھیرے میں چھپا رہتا ہے کیونکہ روشنی کی غیر موجودگی میں ذہن تصویروں کو جوڑتا ہے۔ سائے ان دیکھے خطرات میں بدل جاتے ہیں اور ذہن، جو تخیل کے لیے حساس واقع ہوا ہے، غیب کے خوف سے پریشان ہوجاتا ہے۔ رات، تصوراتی طاقت کو جلا بخشتی ہے۔ دنیا بھر میں سورج غروب ہوتے ہی کاروبار زندگی تھم جاتا ہے اور لوگ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں لوگ سونے جاگنے کے فطری اطوار بھول چکے ہیں۔
رات کو جاگنا اور دن میں دیر تک سونا، صحت پر اہم حیاتیاتی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ انسانی جسم سرکیڈین تال پرکام کرتا ہے، یہ ایک قدرتی اندرونی عمل ہے، جو نیند وجاگنے کے عمل کو منظم کرتا ہے اور تقریباً ہر 24 گھنٹے میں دہرایا جاتا ہے۔ رات کو جاگنے کا طرز زندگی اپناتے ہوئے اس تال میں خلل ڈال دیتا ہے اور مختلف جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ جس کے بنیادی نتائج میں جسم میں میلاٹونن کی پیداوار میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ہارمون جو نیند و جاگنے کے عمل کو منظم کرتا ہے۔ دن کے وقت قدرتی روشنی اور رات کے وقت اندھیرے، سرکیڈین تال کو ہم آہنگ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
رات کو جاگنا اور مصنوعی روشنی کا سامنا کرنا، میلاٹونن کی پیداوارکو روک سکتا ہے، جس سے دن کی روشنی کے اوقات میں پرسکون نیند حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، یہ تبدیل ہوتے نیندکے اوقات، نیندکے معیار اور مقدار پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ جسم کی اندرونی گھڑی، جو سرکیڈین تال کے ذریعے کنٹرول ہوتی ہے، قدرتی روشنی اور اندھیرے کے چکر کے ساتھ بہترین طور پر ہم آہنگ ہوتی ہے۔
جب اس کے نظام میں خلل پڑتا ہے تو تجویزکردہ نیند حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دائمی نیند کی کمی، صحت کے مسائل کو جنم دیتی ہے، جس کے نتیجے میں، موڈ کی خرابی، وزن بڑھنا اور ذیابیطس جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذہنی صحت الگ متاثر ہوتی ہے۔
نیند کی بے قاعدگی سے مدافعتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ مناسب اور معیاری نیند مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سرکیڈین تال میں رکاوٹ انفیکشن اور بیماریوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ رات کے طرز زندگی سے جسم میں ہارمون کا توازن بگڑسکتا ہے۔ میٹا بولزم اور توانائی کے توازن کے لیے اہم، کورٹیسول اور انسولین جیسے ہارمونزکا ضابطہ متاثر ہوسکتا ہے۔
بے قاعدہ نیند کے طریقے ہارمونل عدم توازن کا سبب بنتے ہیں، جو ممکنہ طور پر وزن میں اضافے، انسولین کے خلاف مزاحمت اور میٹا بولک عوارض کے بڑھتے ہوئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ علمی کارکردگی اور دماغی صحت رات کے وقت جاگنے اور دن کی نیند کے نتائج سے محفوظ نہیں ہیں۔
اچھی نیند یاد داشت کے استحکام، سیکھنے اور جذباتی ضابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نیند میں خلل توجہ کا دورانیہ کم کرسکتے ہیں، اور موڈ کی خرابی جیسے کہ ڈپریشن اور اضطراب کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم پڑھائی کو نظر اندازکررہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور رات کو دیر تک جاگنا ان کی اولین ترجیح بن چکے ہیں۔
حالیہ انٹرمیڈیٹ بورڈ کے امتحانات میں 38 کالجوں اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کے تمام طلباء فیل ہوگئے ہیں۔ اس میں تعلیمی نظام کی کوتاہی اپنی جگہ ہے مگر زیادہ تر والدین کی کوتاہی ہے جو بچوں کو وقت کی اہمیت کو سمجھانے اور ان کی زندگی میں نظم وضبط برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں تربیت کا بحران دکھائی دیتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس ملک کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صحت خراب ہے۔ ڈبلیو۔ایچ۔ او کے مطابق دنیا میں تقریبا ایک ارب لوگ مختف ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، ان ایک ارب افراد میں ہر ساتواں شخص نوجوان ہے۔
ہمارے ملک میں زیادہ تر انفرادی سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں رات کو منعقد کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے روڈ ایکسیڈنٹ اور جرائم کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ رات کا اندھیرا ہوتے ہی ملک بھر میں جرائم پیشہ لوگ متحرک ہوجاتے ہیں، جس میں زیادہ تر راہ چلتے لوگوں سے موبائل اور نقد رقم چھیننے کی وارداتیں عام ہیں۔
گزشتہ سال شروع کے تین مہینوں کے دوران،کراچی شہر میں اکیس ہزار اسٹریٹ کرائم رپورٹ کیے گئے۔ دیگر شہروں میں بھی رات کو مختلف جرائم کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ رات کو دیر تک دکانیں کھلی رہنے سے بجلی، گیس اور پانی کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے قدرتی وسائل دن بدن کم ہو رہے ہیں۔ ہم مسئلے کا فوری حل نکالنے یا کوئی موثر حکمت عملی جوڑنے میں، دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔
دنیا بھر میں شام ہوتے ہی کاروبار بند ہوجاتا ہے اور صبح سویرے زندگی کی ہلچل شروع ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے اور ان کی ذہنی وجسمانی کارکردگی بہت فعال دکھائی دیتی ہے، جو اقوام قدرت کے نظام کو سمجھ کر چل رہی ہیں، وہ ہر شعبے میں ترقی کررہی ہیں۔
رات، ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے، جو متنوع جذبات، امن، خوف اور وجد کی کیفیات کی ترجمانی کرتی ہے۔ رات کا تجربہ انسانی نفسیات کے ایک انوکھے پہلو سے پردہ اٹھاتا ہے۔ رات میں چہرے کے نقاب اتر جاتے ہیں اور اصلی روپ نمودار ہوتا ہے۔ رات میں انسان وجود کے خالص پن کی طرف لوٹتا ہے۔ رات بہت سے لوگوں کے لیے امن کی علامت ہے۔ جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے اور دنیا اندھیرے کے دائرے میں منتقل ہوجاتی ہے تو ایک پُرسکون احساس گھیر لیتا ہے۔
رات کی خاموشی خود پر غورکرنے کا موقع دیتی ہے اور دن کی چپقلش سے مہلت مل جاتی ہے۔ پتوں کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ، جھینگرکی دور سے آوازیں اور ہوا کی نرم سرگوشیاں سکون کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ رات کی خاموشی میں خود کلامی جنم لیتی ہے، لیکن دور جدید کا انسان فطرت کے توازن و تبدیلی کے ساتھ چلنے کی حس کھوچکا ہے۔ ہم صبح دوپہر، سہ پہر، شام اور رات کی اہمیت و افادیت اور ان کے کیمیائی عمل سے واقف نہیں ہیں، جو ہمارے ذہن و جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
خوف، اکثر اندھیرے میں چھپا رہتا ہے کیونکہ روشنی کی غیر موجودگی میں ذہن تصویروں کو جوڑتا ہے۔ سائے ان دیکھے خطرات میں بدل جاتے ہیں اور ذہن، جو تخیل کے لیے حساس واقع ہوا ہے، غیب کے خوف سے پریشان ہوجاتا ہے۔ رات، تصوراتی طاقت کو جلا بخشتی ہے۔ دنیا بھر میں سورج غروب ہوتے ہی کاروبار زندگی تھم جاتا ہے اور لوگ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں لوگ سونے جاگنے کے فطری اطوار بھول چکے ہیں۔
رات کو جاگنا اور دن میں دیر تک سونا، صحت پر اہم حیاتیاتی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ انسانی جسم سرکیڈین تال پرکام کرتا ہے، یہ ایک قدرتی اندرونی عمل ہے، جو نیند وجاگنے کے عمل کو منظم کرتا ہے اور تقریباً ہر 24 گھنٹے میں دہرایا جاتا ہے۔ رات کو جاگنے کا طرز زندگی اپناتے ہوئے اس تال میں خلل ڈال دیتا ہے اور مختلف جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ جس کے بنیادی نتائج میں جسم میں میلاٹونن کی پیداوار میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ہارمون جو نیند و جاگنے کے عمل کو منظم کرتا ہے۔ دن کے وقت قدرتی روشنی اور رات کے وقت اندھیرے، سرکیڈین تال کو ہم آہنگ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
رات کو جاگنا اور مصنوعی روشنی کا سامنا کرنا، میلاٹونن کی پیداوارکو روک سکتا ہے، جس سے دن کی روشنی کے اوقات میں پرسکون نیند حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، یہ تبدیل ہوتے نیندکے اوقات، نیندکے معیار اور مقدار پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ جسم کی اندرونی گھڑی، جو سرکیڈین تال کے ذریعے کنٹرول ہوتی ہے، قدرتی روشنی اور اندھیرے کے چکر کے ساتھ بہترین طور پر ہم آہنگ ہوتی ہے۔
جب اس کے نظام میں خلل پڑتا ہے تو تجویزکردہ نیند حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دائمی نیند کی کمی، صحت کے مسائل کو جنم دیتی ہے، جس کے نتیجے میں، موڈ کی خرابی، وزن بڑھنا اور ذیابیطس جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذہنی صحت الگ متاثر ہوتی ہے۔
نیند کی بے قاعدگی سے مدافعتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ مناسب اور معیاری نیند مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سرکیڈین تال میں رکاوٹ انفیکشن اور بیماریوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ رات کے طرز زندگی سے جسم میں ہارمون کا توازن بگڑسکتا ہے۔ میٹا بولزم اور توانائی کے توازن کے لیے اہم، کورٹیسول اور انسولین جیسے ہارمونزکا ضابطہ متاثر ہوسکتا ہے۔
بے قاعدہ نیند کے طریقے ہارمونل عدم توازن کا سبب بنتے ہیں، جو ممکنہ طور پر وزن میں اضافے، انسولین کے خلاف مزاحمت اور میٹا بولک عوارض کے بڑھتے ہوئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ علمی کارکردگی اور دماغی صحت رات کے وقت جاگنے اور دن کی نیند کے نتائج سے محفوظ نہیں ہیں۔
اچھی نیند یاد داشت کے استحکام، سیکھنے اور جذباتی ضابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نیند میں خلل توجہ کا دورانیہ کم کرسکتے ہیں، اور موڈ کی خرابی جیسے کہ ڈپریشن اور اضطراب کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم پڑھائی کو نظر اندازکررہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور رات کو دیر تک جاگنا ان کی اولین ترجیح بن چکے ہیں۔
حالیہ انٹرمیڈیٹ بورڈ کے امتحانات میں 38 کالجوں اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کے تمام طلباء فیل ہوگئے ہیں۔ اس میں تعلیمی نظام کی کوتاہی اپنی جگہ ہے مگر زیادہ تر والدین کی کوتاہی ہے جو بچوں کو وقت کی اہمیت کو سمجھانے اور ان کی زندگی میں نظم وضبط برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں تربیت کا بحران دکھائی دیتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس ملک کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صحت خراب ہے۔ ڈبلیو۔ایچ۔ او کے مطابق دنیا میں تقریبا ایک ارب لوگ مختف ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، ان ایک ارب افراد میں ہر ساتواں شخص نوجوان ہے۔
ہمارے ملک میں زیادہ تر انفرادی سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں رات کو منعقد کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے روڈ ایکسیڈنٹ اور جرائم کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ رات کا اندھیرا ہوتے ہی ملک بھر میں جرائم پیشہ لوگ متحرک ہوجاتے ہیں، جس میں زیادہ تر راہ چلتے لوگوں سے موبائل اور نقد رقم چھیننے کی وارداتیں عام ہیں۔
گزشتہ سال شروع کے تین مہینوں کے دوران،کراچی شہر میں اکیس ہزار اسٹریٹ کرائم رپورٹ کیے گئے۔ دیگر شہروں میں بھی رات کو مختلف جرائم کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ رات کو دیر تک دکانیں کھلی رہنے سے بجلی، گیس اور پانی کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے قدرتی وسائل دن بدن کم ہو رہے ہیں۔ ہم مسئلے کا فوری حل نکالنے یا کوئی موثر حکمت عملی جوڑنے میں، دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔
دنیا بھر میں شام ہوتے ہی کاروبار بند ہوجاتا ہے اور صبح سویرے زندگی کی ہلچل شروع ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے اور ان کی ذہنی وجسمانی کارکردگی بہت فعال دکھائی دیتی ہے، جو اقوام قدرت کے نظام کو سمجھ کر چل رہی ہیں، وہ ہر شعبے میں ترقی کررہی ہیں۔