شہید حکیم محمد سعید… یادیں اور باتیں
میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے
کتاب ''شہید حکیم محمد سعید.... یادیں اور باتیں'' میں سعدیہ راشد ''ابا جان'' کے عنوان سے لکھتی ہیں۔ ''ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔
کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور پھر ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔
میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے، حکیم محمد سعید، میرے آئیڈیل۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھے۔''
سعدیہ لکھتی ہیں ''بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی۔ میں شروع میں ان سے ڈرتی تھی لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا، میری امی نے بھی نہیں لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں جو میرے ابا جان کے معیار سے گری ہوئی ہو۔
میرے قول اور عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہوکہ کوئی یہ کہے ''یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہے۔'' مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔''
سعدیہ راشد لکھتی ہیں ''ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ عمل کر کے دکھاتے تھے، انھیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور وہ تمام قدریں جو انھیں عزیز تھیں، اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انھوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ میں چودہ سال کی تھی کہ ابا جان نے مجھے پارٹیز میں لے جانا شروع کردیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی پارٹی جس میں مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے چینی سفارت خانے میں تھی۔ چینی سفارت خانہ ان دنوں ہمارے گھر کے قریب تھا۔''
سعدیہ لکھتی ہیں ''ابا جان اپنے بڑے بھائی، حکیم عبدالحمید سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں کی قدریں ایک تھیں، ان کی سوچ، خدمت کا جذبہ، عام لوگوں کی بھلائی، ذاتی خوبیاں ایک تھیں، البتہ شخصیتیں مختلف تھیں، کام کا انداز مختلف تھا۔ نہ جانے ابا جان انھیں دلی میں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے وابستگی جس نے انھیں پاکستان آنے پر مجبورکیا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اللہ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔
سعدیہ راشد لکھتی ہیں ''دفتر میں ابا جان ایک ڈسپلن قائم رکھتے تھے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ بینہم کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد میں تھے وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کرلیتے تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔
ایک طرف ہمدردکی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے، دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور پھر علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں، یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جانفشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی تو وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل جاتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔
آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ''مجھے اب اپنی نیند کا ایک گھنٹہ اورکم کرنا پڑے گا۔'' میں نے کہا ''یہ آپ کیسے کریں گے؟ چارگھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر اپنے فنکشن کس طرح پورے کریں گے؟'' وہ کہنے لگے، ''نہیں مجھے بہت کام ہے، مجھے اپنی نیند کا ایک گھنٹہ کم کرنا پڑے گا۔''
سعدیہ لکھتی ہیں ''میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی، وہ اپنا مشن پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا، برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو، اپنے خیالات کو، احساسات کو، سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو چھپا رہ گیا ہو۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ لو پڑھ لو، جان لو، پرکھ لو۔''
سعدیہ راشد لکھتی ہیں ''جب غیر ملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے بینک سے مقررہ زر مبادلہ ملتا تھا تو ابا جان سفر سے واپس آ کر ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونی سیف، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دوسرے اداروں کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفری خرچ پیش کیا جاتا۔ ابا جان لکھ دیتے کہ ''اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔''
کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔ زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو، ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کرلیتے تھے۔
ابا جان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کی۔ جنھوں نے انھیں نقصان پہنچانا چاہا، ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی، ان کے لیے در پردہ مشکلات پیدا کیں، ابا جان نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی۔ ان سے شکوہ تک نہ کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اُجلے، ایسے بھلے، نیک نفس انسان پرکیسے گولیاں چلائی گئیں، جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اسی کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ اس روشنی کو بجھا دیا جو نہ جانے کتنے گھروں کی روشنی کا سامان کیے ہوئے تھی۔ ابا جان شہید ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے، خدمت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں، وہ امر ہوگئے۔''
کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور پھر ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔
میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے، حکیم محمد سعید، میرے آئیڈیل۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھے۔''
سعدیہ لکھتی ہیں ''بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی۔ میں شروع میں ان سے ڈرتی تھی لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا، میری امی نے بھی نہیں لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں جو میرے ابا جان کے معیار سے گری ہوئی ہو۔
میرے قول اور عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہوکہ کوئی یہ کہے ''یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہے۔'' مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔''
سعدیہ راشد لکھتی ہیں ''ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ عمل کر کے دکھاتے تھے، انھیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور وہ تمام قدریں جو انھیں عزیز تھیں، اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انھوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ میں چودہ سال کی تھی کہ ابا جان نے مجھے پارٹیز میں لے جانا شروع کردیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی پارٹی جس میں مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے چینی سفارت خانے میں تھی۔ چینی سفارت خانہ ان دنوں ہمارے گھر کے قریب تھا۔''
سعدیہ لکھتی ہیں ''ابا جان اپنے بڑے بھائی، حکیم عبدالحمید سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں کی قدریں ایک تھیں، ان کی سوچ، خدمت کا جذبہ، عام لوگوں کی بھلائی، ذاتی خوبیاں ایک تھیں، البتہ شخصیتیں مختلف تھیں، کام کا انداز مختلف تھا۔ نہ جانے ابا جان انھیں دلی میں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے وابستگی جس نے انھیں پاکستان آنے پر مجبورکیا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اللہ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔
سعدیہ راشد لکھتی ہیں ''دفتر میں ابا جان ایک ڈسپلن قائم رکھتے تھے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ بینہم کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد میں تھے وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کرلیتے تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔
ایک طرف ہمدردکی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے، دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور پھر علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں، یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جانفشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی تو وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل جاتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔
آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ''مجھے اب اپنی نیند کا ایک گھنٹہ اورکم کرنا پڑے گا۔'' میں نے کہا ''یہ آپ کیسے کریں گے؟ چارگھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر اپنے فنکشن کس طرح پورے کریں گے؟'' وہ کہنے لگے، ''نہیں مجھے بہت کام ہے، مجھے اپنی نیند کا ایک گھنٹہ کم کرنا پڑے گا۔''
سعدیہ لکھتی ہیں ''میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی، وہ اپنا مشن پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا، برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو، اپنے خیالات کو، احساسات کو، سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو چھپا رہ گیا ہو۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ لو پڑھ لو، جان لو، پرکھ لو۔''
سعدیہ راشد لکھتی ہیں ''جب غیر ملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے بینک سے مقررہ زر مبادلہ ملتا تھا تو ابا جان سفر سے واپس آ کر ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونی سیف، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دوسرے اداروں کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفری خرچ پیش کیا جاتا۔ ابا جان لکھ دیتے کہ ''اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔''
کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔ زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو، ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کرلیتے تھے۔
ابا جان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کی۔ جنھوں نے انھیں نقصان پہنچانا چاہا، ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی، ان کے لیے در پردہ مشکلات پیدا کیں، ابا جان نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی۔ ان سے شکوہ تک نہ کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اُجلے، ایسے بھلے، نیک نفس انسان پرکیسے گولیاں چلائی گئیں، جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اسی کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ اس روشنی کو بجھا دیا جو نہ جانے کتنے گھروں کی روشنی کا سامان کیے ہوئے تھی۔ ابا جان شہید ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے، خدمت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں، وہ امر ہوگئے۔''