رشتے محبت اور تعلقات کا سفر…

رشتے ایک دوسرے کے ساتھ مواقعے کا اشتراک ہی نہیں بلکہ دلوں کا میل ہوتے ہیں جو دکھ اور خوشیوں کو بانٹتے ہیں

رشتے ایک مخصوص جمال ہیں جو ہر انسان کی زندگی میں اہم ہوتے ہیں۔ یہ محبت، اعتماد اور ایک ساتھ چلنے کا سفر ہوتا ہے جو زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔

رشتے ایک دوسرے کے ساتھ مواقعے کا اشتراک ہی نہیں بلکہ دلوں کا میل ہوتے ہیں جو دکھ اور خوشیوں کو بانٹتے ہیں۔ انسانی روابط زندگی کو حسن اور تحریک دیتے ہیں۔ رشتے محض تعلق کا نام نہیں ہوتے بلکہ اعتماد اور یقین کا اظہار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا بنانے سے پہلے رشتے بنائے اور میاں بیوی کی صورت میں ایک تعلق قائم کرایا۔

رشتے ناتے ہر انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں ایک دوسرے کی زندگی میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تجربات کا حصہ بنانے کا موقع دیتے ہیں۔ یہی رشتے ہمیں مختلف حالات اور مواقع کا سامنا کرنے کے قابل کرتے ہیں جو ہمیں اہم تجربات سیکھنے کا موقع دیتے ہیں۔ محبت اور تعلقات میں مضبوطی ہمیں دوسرے افراد کو سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے جس سے ہم خود کو بہتر بھی بناتے ہیں۔

انسانی ضرورتوں میں جہاں خوراک، ہوا اور پانی ہیں وہیں رشتے بھی ہیں۔ اگر انسانوں کے درمیان رشتوں کی زنجیر نہ ہوتی تو دنیا کا بیلنس ہی تباہ ہو جاتا۔ کہتے ہیں کہ ہر انسان کو ایک کاندھا چاہیے جس پر سر رکھ کر وہ رو سکے، دکھ درد بیان کرسکے، اظہار محبت کر سکے یا اگر نفرت کا اظہار بھی کرنا ہے تو اس کے لیے بھی رشتے ہی درکار ہوتے ہیں۔

انسانی رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں ہر وقت چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ زندگی میں ہر شخص اپنی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتا ہے اور رشتے بھی اسی حقیقت کا حصہ ہیں۔ اکثر اوقات اہم ترین چیلنج اختلافات ہوتے ہیں۔ ہر شخص مختلف ہوتا ہے تاہم انھیں اختلافات کو قبول کرنا اور ان کا احترام کرنا ہی رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔ چیلنجز کا سامنا کرتے وقت، بات چیت اور ایک دوسرے کی سمجھ بڑھانا بہت اہم ہوتا ہے۔

کبھی کبھار رشتے جوڑتے وقت ایسے ایک انسان کو بڑی قربانیوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس کو مال، وقت حتیٰ کے جان تک کی قربانی دینی پڑجاتی ہے لیکن اگر میں کہوں کہ جان کی قربانی بھی کیا ہمارے بزرگوں میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جنھوں نے دو گھرانوں کے درمیان دراڑ دور کرنے کے لیے اپنی عزت تک دائوپر لگادی، کیونکہ انھیں رشتوں کی اہمیت کا اندازہ تھا اور شاید اندازہ ہی نہیں حقیقت کا ادراک تھا کہ یہ رشتے انسانی زندگی کا یقین ہوتے ہیں۔

رشتے میں محبت اور اعتماد کا ہونا بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بڑھتے ہیں اور زندگی میں خوشیوں کو مزید خوبصورت بناتے ہیں۔ اعتماد رشتے کی بنیاد ہوتا ہے اور یہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔ محبت میں ہم دوسرے کے خوابوں اور چاہتوں کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی خصوصیات کو قبول کرتے ہیں۔


محبت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن سب سے اہم ہر لمحے تجدید عہد کا تقاضا ہے مگر رشتوں کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے جو قائم رہنے کے لیے اکثر قربانی کا متقاضی ہوتے ہیں۔ محبت اور پیار کے الفاظ سنتے ہی،ہمارے ذہنوں میں عشق و محبت، لیلیٰ اور مجنوں اور کسی پنوں کے خیالات جنم لینے لگتے ہیں لیکن اگر غور کریں تو یہ محبت ایسا جذبہ ہے جو انسان اور جانور کے درمیان بھی رشتہ قائم کر دیتا ہے۔

رشتے زندگی کو حقیقی زندگی دیتے ہیں یہ مدد کرتے ہیں، حمایت دیتے ہیں، اظہار محبت کرتے اور اس اظہار کی قوت محسوس کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں رشتے ہی وہ واحد زنجیر ہے جو انسانی ربط کو حقیقت بناتے ہیں۔

کسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا خیال آتے ہی ہمارا ذہن پہلے اس کے فائدے اور نقصان کی طرف جاتا ہے اور یہ عین انسانی فطرت ہے کیونکہ انسان جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو پہلے سوال کرتا ہے کہ میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں، مجھے اس سے کیا فائدہ ہو گا، وہ کام کرنے یا نہ کرنے کی وجہ تلاش کرتا ہے، خود کو راضی کرتا ہے، سوچتا ہے اور پھر عمل کرتا ہے انسان جانور سے اسی لیے مختلف ہے۔

انسان اکثر چند اور وقتی فائدوں کے لیے عظیم رشتوں کی پامالی تک کر جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر تو ایسے خود غرض لوگوں کو فائدہ پہنچ جاتا ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ انھیں تاحیات اس فائدے کی خوشی محسوس ہوتی رہے لیکن ماہر نفسیات یہ کہتے ہیں کہ انسان جب کسی اپنے کے ساتھ خود غرضی، مطلب پرستی یا دھو کا دہی کا مر تکب ہوتا ہے تو وہ چاہے کتنا ہی پر سکون نظر آئے اس کا اندر اسے سکون نہیں لینے دیتا۔

ایک احساس یہ انجانا ہوتا ہے، بظاہر شعوری نہیں ہوتا بلکہ لاشعور کے کسی کونے میں زندہ رہتا ہے اسے سکون نہیں لینے دیتا۔ زندگی کا ایک ایسا موڑ آتا ہے جب وہ اپنے خود غرضانہ رویے کے بارے میں سوچتا ضرور ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر معاشرے میں بہتری کیوں نہیں آرہی تو اس کا جواب چند اور باتوں میں دیتا ہوں بہر حال خود غرضی پر مبنی معاشرتی رویے انسان کی قدر و قیمت ختم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم معاشرے میں ایثار و قربانی کو فروغ دے کر رشتے مضبوط کریں۔

آخر دنیا بہتر کیوں نہیں ہو رہی؟: یہ وہ سوال ہے کہ جو اکثر ہم ایک دوسرے سے کرتے رہتے ہیں۔ آخر دنیا بہتر کیوں نہیں ہو رہی تو جواب بہت ہی سادہ ہے کہ انسان میں بھولنے کا مرض ہے، وہ دوسرے لوگوں کے عبرت ناک انجام کو ایک جھٹکے سے بھلا دیتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ جس طرز عمل کی وجہ سے اس کے ساتھ والا انسان سخت مشکل میں مبتلا ہوا ہے اگر اس نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا تو پھر اسے بھی ان ہی حالات سے گزرنا ہو گا۔ اسے بھی دوسروں کے لیے عبرت بننا پڑے گا۔ اگر انسان دوسروں پر گزرنے والے حالات سے سبق سیکھنے لگے تو معاشرے میں بہتری نظر آنے لگے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم سب رشتوں کی ڈور سے بندھے ہوئے تو ہیں لیکن اس ڈور کو مضبوط کرنے کے بجائے توڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، ہم ذمے داریوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں اس سے سکون ملے گا جب کہ اللہ کی سنت تو یہ ہے کہ تم اللہ کے بندوں کی ذمے داری اٹھانے کی کوشش کرو میں تمہاری ذمے داری اٹھالوں گا، تم تعلق، احساس اور ربط کو اخلاص کے ساتھ مضبوط کرو میں تمہارا اپنے ساتھ تعلق مضبوط بنالوں گا۔

میرا خیال ہے کہ اللہ سے تعلق بھی مضبوط بنانے کے لیے پہلے انسانوں سے اخلاص اور سچائی کا تعلق بنانا ضروری ہے،کیونکہ اللہ خود فرماتا ہے کہ میراجو بندہ دوسرے بندوں کی فکر اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی جستجو میں لگارہتا ہے میں اس کے مسائل حل کرنے لگ جاتا ہوں۔ رشتوں کی اہمیت یہی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرے۔ ایک ہاتھ سے دوسر ا ہاتھ تھام لینا ہی اصل رشتے اور تعلق ہیں۔
Load Next Story