پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ‘ کچھ یادیں
پنجاب کے عین وسط میں صوبائی اسمبلی کا ایک ضمنی انتخاب جیتنے کے بعد تحریک انصاف نے یہ دکھا دیا ہے کہ۔۔۔
پیر کے دن میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں خبر ڈھونڈنے نہیں تماشہ دیکھنے گیا تھا۔ حیف کہ تماشہ نہ ہوا۔ مظفر گڑھ کے جمشید دستی نے بھونڈی سی ایک کوشش ضرور کی مگر اسپیکر انھیں مائیک دے ہی نہیں سکتے تھے۔ وہ بے بسی میں اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے شیخ رشید کی جانب مدد مانگنے والی نظروں سے دیکھتے رہے۔ شیخ صاحب مگر گھر کے پکے ہیں۔ انھیں خبر تھی کہ محض اپنی مشہور زمانہ شعلہ بیانی کے بل بوتے پر وہ دستی کی کوئی خاص مدد نہیں کر سکتے۔ عمران خان اور ان کی جماعت ساتھ ہوتی تو معاملہ اور ہو جاتا۔ تحریک انصاف میں لیکن میری دانست میں ان دنوں ''فکرِ جاوید ہاشمی'' بالادست نظر آ رہی ہے۔ عمران خان بھی اپنے تئیں یہ بات خوب سمجھ چکے ہیں کہ میدانِ سیاست کے کئی ہارے ہوئے جواری ان کے Populist سرمایے کی بنیاد پر اپنا کھیل رچانا چاہ رہے ہیں۔
پنجاب کے عین وسط میں صوبائی اسمبلی کا ایک ضمنی انتخاب جیتنے کے بعد تحریک انصاف نے یہ دکھا دیا ہے کہ اب اس کی اپیل شہری طبقات تک محدود نہیں رہی۔ نام نہاد ''دھڑوں'' والے روایتی سیاستدانوں کو جو ذات برادری کی بنیاد پر اپنے حلقوں میں چوہدری بنے بیٹھے ہیں اب انھیں انتخاب جیتنے کے لیے تحریک انصاف کے ٹکٹ کی ضرورت کافی شدت سے محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ عمران خان کا اصل ٹارگٹ اب قبل از وقت انتخابات ہیں۔ وہ اپنی اور اپنی جماعت کی ساری توجہ ان انتخابات کے حصول پر مرکوز رکھیں گے اور کسی صورت مستقبل میں اپنی پہچان ایک اور ''اصغر خان'' کے طور پر نہیں کروانا چاہیں گے۔ نہایت صبر اور احترام کے ساتھ صدرِ مملکت کے پارلیمان کے مشترکہ خطاب کو سن کر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے درحقیقت خود کو جمہوری نظام کا ایک سنجیدہ اور مؤثر Stakeholder ثابت کیا ہے۔
چونکہ دستی کی زبردستیوں کے باوجود تماشہ نہ ہو سکا اس لیے ممنون حسین کے روایتی اور ٹھنڈے ٹھار خطاب کو سنتے ہوئے میرے ذہن میں یادوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوتا رہا جو ماضی میں مختلف صدور کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دنوں سے متعلق تھیں۔ پارلیمان میں سب سے زیادہ ہنگامہ اس وقت ہوا جب سردار فاروق خان لغاری مرحوم صدر منتخب ہونے کے بعد اس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تھے۔ ان کے خطاب کے عین ایک روز پہلے نواز شریف صاحب کے والد کو لاہور سے بھری دوپہر میں کئی لوگوں کے سامنے بڑے ذلت آمیز انداز میں اٹھایا گیا تھا۔
اس گرفتاری کے ذمے دار FIA والے تھے۔ مرتے دم تک لغاری مرحوم لیکن مجھے ذاتی محفلوں میں حلفیہ بتاتے رہے کہ وہ اس گرفتاری کے فیصلے کے بارے میں قطعی بے خبر تھے۔ انھیں بلکہ شدید رنج اس بات پر تھا کہ ان کے خطاب کے دوران ہنگامہ بھڑکانے کے لیے ان کی اپنی جماعت کی حکومت کے چند لوگوں نے یہ ''اشتعال انگیز'' قدم اٹھایا تھا۔ آج میں یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہوں کہ مذکورہ گرفتاری لغاری مرحوم اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان بداعتمادی اور بدگمانیوں کا آغاز بھی ثابت ہوئی۔
یہ بات درست ہے کہ صدرِ مملکت کے خطاب کے دوران ہنگامے کی روایت ان کی اپنی جماعت PPP ہی نے متعارف کروائی تھی لیکن وہ ذاتی طور پر اس ہنگامے کے حق میں نہیں تھے۔ اصل کہانی یہ تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے ذرایع سے یہ جان چکی تھیں کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق نواز شریف کو پہلی بار پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کروانے میں مدد دینے کے بعد پچھتا رہے ہیں۔ 6 اگست 1990 کے دن جب محترمہ کی پہلی حکومت کو برطرف کیا گیا تو اصل منصوبہ انتخابات کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعظم بنوانا تھا۔ جتوئی صاحب کی حمایت میں سب سے بڑی دلیل یہ بتائی گئی تھی کہ محترمہ کا تعلق چونکہ سندھ سے تھا اس لیے ان کی جگہ نیا وزیر اعظم بھی اسی صوبے سے آنا چاہیے وگرنہ اُس صوبے میں جنرل ضیاء کے دنوں سے پکتا احساسِ بیگانگی اور زیادہ گہرا ہو جائے گا۔
1990 کے انتخابات میں لیکن IJI کو فیصلہ کن مینڈیٹ پنجاب سے ملا اور اس کا سارا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا تھا۔ اقتدار کی بساط پر مہرے بٹھانے والوں کو خدشہ لاحق ہو گیا کہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بنایا گیا تو وہ پاکستان کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے کی ''احساسِ محرومی'' کی داستان گھڑنا شروع ہو جائیں گے۔ غلام اسحاق خان مگر بڑی مشکل سے یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئے اور انھیں اس ضمن میں قائل کرنے میں سب سے اہم کردار غلام مصطفیٰ کھر نے ادا کیا تھا۔ بہرحال غلام اسحاق خان نے بادل نخواستہ نواز شریف سے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف تو لے لیا مگر ایسا کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد اس بات پر خفگی کا اظہار کرنا شروع ہو گئے کہ ''لاہور سے آیا'' یہ ناتجربہ کار سیاستدان ریاستی اور حکومتی فیصلے کرتے وقت ان سے کوئی مشورہ ہی نہیں کرتا۔
ایک ہوشیار سیاستدان ہوتے ہوئے محترمہ نے اس موقعہ پر اپنے لیے کھیلنے کو Space ڈھونڈ نکالی۔ قاصدوں کے ذریعے نواز شریف صاحب کو پیغام پہنچایا کہ اگر وہ اور محترمہ اپنے درمیان کوئی Working Understanding پیدا کر لیں تو ''نظامِ کہنہ'' کے غلام اسحاق خان جیسے نمایندے منتخب قیادتوں کو اپنے تابع نہ رکھ پائیں گے۔ نواز شریف کو یہ پیغام اچھا لگا۔ اب یہ ذمے داری محترمہ کی بن گئی کہ وہ غلام اسحاق خان کے ''طاقتور ترین'' ہونے کی Myth کو پاش پاش کر دیں۔ ایسا کرنے کو سب سے اہم موقعہ وہ تھا جب غلام اسحاق خان کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آنا تھا۔
اس اجلاس سے ایک رات قبل محترمہ نے اسلام آباد کے چند صحافیوں کو ان دنوں اپنے گلی نمبر2 ،F-8/3 والے گھر بلایا اور بار بار اس بات کا ذکر کیا کہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنمائوں کو غلام اسحاق خان کی وجہ سے ''احتساب'' کے نام پر جیلوں میں رکھ کر ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی جماعت کے لوگ اپنی قیادت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ غلام اسحاق خان کے خلاف کوئی تحریک وغیرہ جلائی جائے۔ وہاں موجود صحافیوں کی اکثریت پریشان ہو گئی۔ انھوں نے بڑے خلوص سے محترمہ کو سمجھانا چاہا کہ انھیں اقتدار دوبارہ اسی صورت مل سکتا ہے اگر وہ غلام اسحاق خان سے بنا کر رکھیں۔ وہ آٹھویں ترمیم والے صدر تھے۔ اسمبلیاں اور حکومتیں برخاست کر کے قبل از وقت انتخابات کروانے کی قدرت رکھتے تھے۔ محترمہ کو یہ ''مشورے'' پسند نہ آئے۔
یہاں میں یہ بھی اعتراف کرتا چلوں کہ ہم صحافیوں کو اکثر یہ گمان رہتا ہے کہ کسی نمایاں سیاستدان نے فلاں کام صرف اور صرف ان میں سے کسی ایک کے ''مشورے'' پر کیا تھا۔ میں بھی کئی برسوں تک اس خوش گمانی میں مبتلا رہا۔ اگرچہ کئی برس پہلے بالآخر یہ دریافت کر ہی لیا کہ ہر سیاست دان خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اپنی گیم خود بناتا اور کھیلتا ہے۔ ہم سے ''مشورہ'' مانگتے ہوئے دراصل اپنی اصل گیم چھپا لیتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس ملاقات میں بھی میں فوراََ تاڑ گیا کہ وہ غلام اسحاق خان کے خطاب کے دوران ''کچھ کرنے'' کے موڈ میں ہیں۔ ان کے با رہا اصرار پر کچھ کہا بھی تو صرف اتنا کہ ''آپ نے جو بھی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ذرا زور دار انداز میں کیجیے گا۔''
یہ بات کہہ ڈالنے کے باوجود میں ہرگز ذمے دار نہیں اس سوجن کا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دائیں ہاتھ پر تین دن تک مسلط رہی۔ یہ سوجن انھوں نے بڑی شدت سے اپنا ''گو بابا گو'' کہتے ڈیسک بجاتے مول لی تھی۔ کم از کم تین بار انھوں نے ایسا کرتے ہوئے اسمبلی ہال سے مجھے اپنا سرخ ہوا ہاتھ بھی شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے دکھایا تھا۔
پنجاب کے عین وسط میں صوبائی اسمبلی کا ایک ضمنی انتخاب جیتنے کے بعد تحریک انصاف نے یہ دکھا دیا ہے کہ اب اس کی اپیل شہری طبقات تک محدود نہیں رہی۔ نام نہاد ''دھڑوں'' والے روایتی سیاستدانوں کو جو ذات برادری کی بنیاد پر اپنے حلقوں میں چوہدری بنے بیٹھے ہیں اب انھیں انتخاب جیتنے کے لیے تحریک انصاف کے ٹکٹ کی ضرورت کافی شدت سے محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ عمران خان کا اصل ٹارگٹ اب قبل از وقت انتخابات ہیں۔ وہ اپنی اور اپنی جماعت کی ساری توجہ ان انتخابات کے حصول پر مرکوز رکھیں گے اور کسی صورت مستقبل میں اپنی پہچان ایک اور ''اصغر خان'' کے طور پر نہیں کروانا چاہیں گے۔ نہایت صبر اور احترام کے ساتھ صدرِ مملکت کے پارلیمان کے مشترکہ خطاب کو سن کر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے درحقیقت خود کو جمہوری نظام کا ایک سنجیدہ اور مؤثر Stakeholder ثابت کیا ہے۔
چونکہ دستی کی زبردستیوں کے باوجود تماشہ نہ ہو سکا اس لیے ممنون حسین کے روایتی اور ٹھنڈے ٹھار خطاب کو سنتے ہوئے میرے ذہن میں یادوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوتا رہا جو ماضی میں مختلف صدور کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دنوں سے متعلق تھیں۔ پارلیمان میں سب سے زیادہ ہنگامہ اس وقت ہوا جب سردار فاروق خان لغاری مرحوم صدر منتخب ہونے کے بعد اس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تھے۔ ان کے خطاب کے عین ایک روز پہلے نواز شریف صاحب کے والد کو لاہور سے بھری دوپہر میں کئی لوگوں کے سامنے بڑے ذلت آمیز انداز میں اٹھایا گیا تھا۔
اس گرفتاری کے ذمے دار FIA والے تھے۔ مرتے دم تک لغاری مرحوم لیکن مجھے ذاتی محفلوں میں حلفیہ بتاتے رہے کہ وہ اس گرفتاری کے فیصلے کے بارے میں قطعی بے خبر تھے۔ انھیں بلکہ شدید رنج اس بات پر تھا کہ ان کے خطاب کے دوران ہنگامہ بھڑکانے کے لیے ان کی اپنی جماعت کی حکومت کے چند لوگوں نے یہ ''اشتعال انگیز'' قدم اٹھایا تھا۔ آج میں یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہوں کہ مذکورہ گرفتاری لغاری مرحوم اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان بداعتمادی اور بدگمانیوں کا آغاز بھی ثابت ہوئی۔
یہ بات درست ہے کہ صدرِ مملکت کے خطاب کے دوران ہنگامے کی روایت ان کی اپنی جماعت PPP ہی نے متعارف کروائی تھی لیکن وہ ذاتی طور پر اس ہنگامے کے حق میں نہیں تھے۔ اصل کہانی یہ تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے ذرایع سے یہ جان چکی تھیں کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق نواز شریف کو پہلی بار پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کروانے میں مدد دینے کے بعد پچھتا رہے ہیں۔ 6 اگست 1990 کے دن جب محترمہ کی پہلی حکومت کو برطرف کیا گیا تو اصل منصوبہ انتخابات کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعظم بنوانا تھا۔ جتوئی صاحب کی حمایت میں سب سے بڑی دلیل یہ بتائی گئی تھی کہ محترمہ کا تعلق چونکہ سندھ سے تھا اس لیے ان کی جگہ نیا وزیر اعظم بھی اسی صوبے سے آنا چاہیے وگرنہ اُس صوبے میں جنرل ضیاء کے دنوں سے پکتا احساسِ بیگانگی اور زیادہ گہرا ہو جائے گا۔
1990 کے انتخابات میں لیکن IJI کو فیصلہ کن مینڈیٹ پنجاب سے ملا اور اس کا سارا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا تھا۔ اقتدار کی بساط پر مہرے بٹھانے والوں کو خدشہ لاحق ہو گیا کہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بنایا گیا تو وہ پاکستان کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے کی ''احساسِ محرومی'' کی داستان گھڑنا شروع ہو جائیں گے۔ غلام اسحاق خان مگر بڑی مشکل سے یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئے اور انھیں اس ضمن میں قائل کرنے میں سب سے اہم کردار غلام مصطفیٰ کھر نے ادا کیا تھا۔ بہرحال غلام اسحاق خان نے بادل نخواستہ نواز شریف سے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف تو لے لیا مگر ایسا کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد اس بات پر خفگی کا اظہار کرنا شروع ہو گئے کہ ''لاہور سے آیا'' یہ ناتجربہ کار سیاستدان ریاستی اور حکومتی فیصلے کرتے وقت ان سے کوئی مشورہ ہی نہیں کرتا۔
ایک ہوشیار سیاستدان ہوتے ہوئے محترمہ نے اس موقعہ پر اپنے لیے کھیلنے کو Space ڈھونڈ نکالی۔ قاصدوں کے ذریعے نواز شریف صاحب کو پیغام پہنچایا کہ اگر وہ اور محترمہ اپنے درمیان کوئی Working Understanding پیدا کر لیں تو ''نظامِ کہنہ'' کے غلام اسحاق خان جیسے نمایندے منتخب قیادتوں کو اپنے تابع نہ رکھ پائیں گے۔ نواز شریف کو یہ پیغام اچھا لگا۔ اب یہ ذمے داری محترمہ کی بن گئی کہ وہ غلام اسحاق خان کے ''طاقتور ترین'' ہونے کی Myth کو پاش پاش کر دیں۔ ایسا کرنے کو سب سے اہم موقعہ وہ تھا جب غلام اسحاق خان کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آنا تھا۔
اس اجلاس سے ایک رات قبل محترمہ نے اسلام آباد کے چند صحافیوں کو ان دنوں اپنے گلی نمبر2 ،F-8/3 والے گھر بلایا اور بار بار اس بات کا ذکر کیا کہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنمائوں کو غلام اسحاق خان کی وجہ سے ''احتساب'' کے نام پر جیلوں میں رکھ کر ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی جماعت کے لوگ اپنی قیادت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ غلام اسحاق خان کے خلاف کوئی تحریک وغیرہ جلائی جائے۔ وہاں موجود صحافیوں کی اکثریت پریشان ہو گئی۔ انھوں نے بڑے خلوص سے محترمہ کو سمجھانا چاہا کہ انھیں اقتدار دوبارہ اسی صورت مل سکتا ہے اگر وہ غلام اسحاق خان سے بنا کر رکھیں۔ وہ آٹھویں ترمیم والے صدر تھے۔ اسمبلیاں اور حکومتیں برخاست کر کے قبل از وقت انتخابات کروانے کی قدرت رکھتے تھے۔ محترمہ کو یہ ''مشورے'' پسند نہ آئے۔
یہاں میں یہ بھی اعتراف کرتا چلوں کہ ہم صحافیوں کو اکثر یہ گمان رہتا ہے کہ کسی نمایاں سیاستدان نے فلاں کام صرف اور صرف ان میں سے کسی ایک کے ''مشورے'' پر کیا تھا۔ میں بھی کئی برسوں تک اس خوش گمانی میں مبتلا رہا۔ اگرچہ کئی برس پہلے بالآخر یہ دریافت کر ہی لیا کہ ہر سیاست دان خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اپنی گیم خود بناتا اور کھیلتا ہے۔ ہم سے ''مشورہ'' مانگتے ہوئے دراصل اپنی اصل گیم چھپا لیتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس ملاقات میں بھی میں فوراََ تاڑ گیا کہ وہ غلام اسحاق خان کے خطاب کے دوران ''کچھ کرنے'' کے موڈ میں ہیں۔ ان کے با رہا اصرار پر کچھ کہا بھی تو صرف اتنا کہ ''آپ نے جو بھی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ذرا زور دار انداز میں کیجیے گا۔''
یہ بات کہہ ڈالنے کے باوجود میں ہرگز ذمے دار نہیں اس سوجن کا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دائیں ہاتھ پر تین دن تک مسلط رہی۔ یہ سوجن انھوں نے بڑی شدت سے اپنا ''گو بابا گو'' کہتے ڈیسک بجاتے مول لی تھی۔ کم از کم تین بار انھوں نے ایسا کرتے ہوئے اسمبلی ہال سے مجھے اپنا سرخ ہوا ہاتھ بھی شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے دکھایا تھا۔