ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

نظر گلہ خالہ کے علاج بے مثل کا نچوڑ چشم گل چشم کی صورت میں مجسم ہوا تو ’’ہالیوں‘‘ نے ہل ڈک لیے۔۔۔


Saad Ulllah Jaan Baraq June 04, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: کسی اور کو اتفاق ہو نہ ہو ہمیں تو اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اس ''ملک'' کو ضرور کسی کی ''نظر'' لگی ہے کیوں کہ ہر کام اور ہر معاملے میں

ہر کسے روز بہی می طلبد از ایام

مشکل ایں است کہ ہرروز بترمی بنیم

اس بات سے ہمارے اتفاق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ''نظر'' کے معاملے میں ''دورائیں'' بالکل بھی نہیں ہیں ۔۔۔ پہلے پہل ہم نے اعتراض کیا تھا لیکن علامہ نے وضاحت کر دی تھی۔ لیکن ملک کو نظر لگنے والی اس بات پر اس کے ساتھ ہمارے اتفاق کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ ''نظر لگنے'' کے معاملے میں چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں اچھے خاصے روشن ہیں، بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ چشم گل چشم کی والدہ محترمہ ''نظر گلہ'' کی شہرت نظر اتارنے کے سلسلے میں ''یہاں'' سے لے کر پھر ''یہاں'' تک پھیلی ہوئی تھی، گاؤں میں کسی کو کسی کی بھی نظر لگے یا کچھ بھی ہو جائے بڑی بوڑھیاں ایک مرتبہ ''نظر گلہ'' کو بلوا کر اس کی نظر ضرور اترواتی تھیں۔

نظر اور نظر گلہ خالہ پر لوگوں کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی لاری کے نیچے آیا ہو یا گولی لگی ہو یا کسی بیل یا بھینسے نے رگیدا ہو یا گلی کے کتے نے کاٹا ہو ۔۔۔ آخری تان ''نظر'' اتارنے پر ہی ٹوٹتی اس کام میں وہ اتنی ماہر تھی کہ اگر ہیضے کے مریض کی نظر بھی اتار دیتی تو ہیضہ فوراً ٹھیک ہو جاتا کیوں کہ مردوں کو ہیضہ نہیں ہوتا ۔۔۔ خود چشم گل چشم کے باپ غونڈل خان غونڈل کو جب فالج ہوا اور نظر گلہ خالہ نے اس کی نظر اتاری تو اس کا فالج بالکل ٹھیک ہو گیا تھا البتہ تھوڑا سا مر گیا تھا لیکن موت کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا کیوں کہ موت برحق ہے صرف کفن میں شک ہے

شفا اپنے تقدیر ہی میں نہ تھی

کہ مقدور بھر تو دوا کر چلے

نظر گلہ خالہ کے نظر اتارنے کا ایک اپنا مخصوص طریقہ ہوتا تھا ایک مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن کا ٹکڑا لے کر اس پر انگارے رکھ دیے جاتے تھے اور پھر نظر گلہ خالہ اس پر ہرمل کے دانے ڈال کر مخصوص منتر پڑھتی تھی جسے وہ نظر کا دم کہتی تھی ۔۔۔ اتر جا ۔۔۔ اچھی آنکھوں کی، بری آنکھوں کی، نیلی آنکھوں کی، پیلی آنکھوں کی، سبز آنکھوں کی، بھوری آنکھوں کی، اتر جا اتر جا اور دشمن پر پڑ جا ۔۔۔ اگر اس سے نظر نہ اترتی تو دوسرے مرحلے میں ہائی پونٹسی دھواں دیا جاتا ہے جو سرخ مرچوں کا ہوتا تھا کبھی کبھی ان انگاروں پر کچھ دھاگے بھی ڈال جاتے جو نظر لگانے والے کے آزار بند کے ہوتے تھے۔

گاؤں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ نظر گلہ ترور ہر قسم کی نظر اتار سکتی تھی سوائے اپنے بیٹے چشم گل چشم کی نظر کے ۔۔۔ کیوں کہ اس کی آنکھوں کا رنگ اس فہرست میں شامل ہی نہ تھا جو وہ بتاتی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ نظر گلہ خالہ نے اب تک جتنی بھی بری نظریں اتاری تھی وہ اتری نہیں تھیں بلکہ اس کے ساتھ چمٹ گئی تھیں اور سب کی سب اس کے اکلوتے بیٹے چشم گل چشم کی اکلوتی آنکھ میں مورچہ لگا کر بیٹھ گئی تھیں چنانچہ وہ اگر پتھر کو بھی دیکھ لیتا تو وہ پتھر کا ہو جاتا اور اگر دیوار پر نظر ڈال کر کہتا کہ مت ہل تو مجال ہے جو اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلے۔

نظر گلہ خالہ کے علاج بے مثل کا نچوڑ چشم گل چشم کی صورت میں مجسم ہوا تو ''ہالیوں'' نے ہل ڈک لیے، اسے آتے ہوئے دیکھا جاتا تو جس کے ہاتھ میں جو بھی کام ہوتا وہی پتھر ہو جاتا، کوئی پانی بھی پی رہا ہوتا تو فوراً رک جاتا، کیا پتہ کم بخت پانی کے گھونٹ لینے کو ابھی آنکھ کی دھار پر رکھ لے، خود اس کی ماں کا اس پر اتنا پکا عقیدہ تھا کہ ایک دن تندور میں روٹی لگاتے ہوئے اپنا ہاتھ جلا بیٹھی، جب اس کے نظر باز سپوت نے گھر میں پرویش کیا تو اس وقت اس کا ہاتھ تندور کے اندر روٹی لگانے میں مصروف تھا بیٹے کی آواز سن کر وہ دھک سے ہو گئی اپنا ہاتھ اس ڈر سے نہیں نکالا کہ کہیں اکھیوں سے گولی نہ مارے، ایک ٹپہ جو خالص رومانوی تھا اسے لوگوں نے چشم گل چشم پر چپکا دیا تھا کہ

سترگے دے ڈکے تماچے دی

زہ دے پہ ڈکوتما چوویشتلے یمہ

یعنی تمہاری آنکھیں بھرے ہوئے پستول ہیں اور تم نے مجھے بھرے ہوئے پستولوں کا نشانہ بنایا ہے، یہاں تک مشہور ہو گیا تھا کہ چشم گل چشم کی ''نظر'' کی مار سے اور تو اور وہ خود بھی نہیں بچا ہے اس کی ایک آنکھ کے تلف ہونے کی وجہ بھی یہی سمجھی گئی کہ اس نے کہیں آئینے میں اپنی آنکھوں کو دیکھ لیا ہو گا اور ان پر تحسین کی نظر ڈالی ہو گی جس کی تاب نہ لا کر ایک آنکھ پچک گئی، ایک مرتبہ وہ شدید بیمار ہو گیا تو ماں نے گھر کے سارے آئینے ہمیشہ کے لیے چھپا دیے بلکہ توڑ دیے کہ لڑکا اس میں دیکھ دیکھ کر خود ہی کو نشانہ بنا رہا ہے، اورنگزیب عالم گیر کی بیٹی زیب النساء نے اسی لیے تو آئینے کے ٹوٹنے پر ملازمہ سے کچھ نہیں کہا تھا اس ملازمہ یا کنیز کے ہاتھ سے آئینہ ٹوٹ گیا تھا جو چین سے آیا تھا ۔۔۔ تب ملازمہ نے کہا

از قضا آئینہ چینی شکست

زیب النساء مخفیؔ نے سنا تو بولی

خوب شد اسباب خود بینی شکست

مطلب یہ کہ نظر گلہ ترور نے گھر سے اسباب خود بینی ہٹا کر اپنے بیٹے کی جان بچا لی، یہی وجہ ہے کہ ہم چشم گل چشم کی اس بات سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ اس ملک کوکسی نہ کسی کی ''نظر'' تو یقیناً لگی ہے بلکہ مسلسل لگی ہوئی ہے ایسی کہ خزانے سے لے کر وزیر قانون تک اور کھیتوں سے لے کر بازاروں تک ہر چیز سے لپٹی ہوئی ہے یوں کہیے کہ نظر نہیں ایک ''آکاس بیل'' ہے جو ملک کے پیڑ کو پنپنے نہیں دے رہی ہے

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

آپ سے کیا پردہ ۔۔۔ ہم اتنے بھی اچھے نہیں ہیں کہ آنکھیں بند کر کے ایک اکلوتی آنکھ والے راجہ کی بات پر یقین کریں بلکہ ہم نے خود بھی اپنی تحقیق کا ٹٹو چلایا تو کئی شواہد و ثبوت ایسے ملے کہ اس ملک کو جو کچھ بھی درپیش ہے وہ بری نظر کی وجہ سے ہے کیوں کہ جیسے ہی کوئی نئی حکومت یا پرانی حکومت کی ''نئی باری'' آتی ہے اس کا سارا لاؤ لشکر اس ملک کی ہر ہر چیز پر بری نظر ڈالنا شروع کر دیتا ہے، کون سے محکمے میں کتنی دراڑیں ہیں جہاں اپنے اپنے بچھو اور سنپولے گھائے جا سکتے ہیں کہاں کہاں کتنی جائیداد اور ملکیتں ہیں جن کو بغیر چورن کے ہضم کیا جا سکتا ہے یا اپنے چمچوں میں بانٹا جا سکتا ہے کہاں کہاں فنڈز کی کتنی ریوڑیاں اور بتاشے ہیں جن سے منہ پیٹ جیب اور گھر بھرے جا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کو تو یہ بتایا گیا ہے کہ ''علم'' جہاں بھی ہوتا ہے مومن کی گمشدہ میراث ہوتا ہے لیکن پاکستانی لیڈروں کو بتایا گیا ہے یہ مت پوچھیے لیکن بتایا ضرور ہے کہ قوم کا مال ہر لیڈر کا ''گم شدہ'' مال ہوتا ہے جہاں بھی ملے جیسے بھی ملے جس قدر بھی ملے غڑاپ غڑاپ کر کے گٹکنا چاہے، دیکھا جائے تو یہ کچھ پیچیدہ بلکہ الجھا ہوا سا مسئلہ ہے پتہ نہیں کہ دوش کس کو دیا جائے، یعنی اصل گناہ گار کون ہے ہم نے اس الجھی ہوئی گتھی پر بہت مغز کھپایا بہت مغز کھپایا تب اس کا ''سرا'' ہاتھ لگا، اور اس سرے کا نام ''عوام'' ہے جو تقریباً ہر مرض کی اصل جڑ ہوتے ہیں۔

بلکہ ہمیں تو یہ یقین ہے کہ اگر ساؤتھ افریقہ میں کرکٹ کی کوئی میچ ہارتی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی عوام ہوتے ہیں جن کو پارلیمانی زبان میں نہ سہی سیاسی زبان میں کالانعام تو کہا ہی جاتا ہے اور یہ کوئی ہوائی نہیں ہے بلکہ ہم ابھی دو اور دو چار کر کے ثابت کر دیتے ہیں، ہوتا یوں ہے کہ یہ ندیدے عوام جب اپنے ہونہار اور لائق و فائق ۔۔۔ ساتھ ہی ایماندار دیانت دار اور وفادار لیڈروں کی بے پناہ کارکردگی دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح اتنا تن من دھن سب کچھ عوام پر نچھاور کرتے ہیں ان کے لیے خواب و خور اپنے اوپر حرام کرتے ہیں اور اپنی ''جان و مال'' اس قوم پر لٹاتے ہیں تو وہ نہایت ہی خورسند ہو کر بے چارے لیڈروں کو نظر لگا دیتے ہیں بے چارے لیڈر نظر لگتے ہی نظر کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چنانچہ پھر وہ بھی اپنی دو آنکھوں کے ساتھ اپنے حالیوں موالیوں کی دوچاردرجن آنکھیں اپنے ساتھ کر دیتے ہیں اور ملک کے سارے محکموں کو دیکھنے لگتے ہیں جہاں جہاں کوئی کام کی چیز ملتی ہے کوئی سوراخ کوئی فنڈ کوئی ملکیت وغیرہ تو تاک کر نشانہ لگا دیتے ہیں اور پورے محکمے کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں، مطلب یہ کہ بے چارے لیڈر اگر تمام محکموں اور اداروں پر نظر لگائے ہوئے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ یہ کم بخت عوام لیڈروں کو نظر لگا دیتے ہیں۔ وہ اتنی اچھی لیڈری کرتے ہیں کہ قوم ان پر اپنی بھوکی پیاسی ننگی ندیدی نگاہیں گاڑ کر نظر لگا دیتی ہے، ورنہ ہمارے لیڈر تو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں