مسائل کے حل کیلیے سیاسی جماعتیں الیکشن کے بعد مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنائیں ایکسپریس فورم
سیاسی جماعتوں نے2008کے بعد اپنی جگہ بنائی اور غلطیوں سے کھو دی، پروفیسر محبوب
پاکستان کے مسائل کا حل صاف اور شفاف انتخابات میں ہے، ملک اس وقت سیاسی جمود کا شکار ہے، انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنائیں۔
سیاستدانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے جڑا ہے لہٰذا میثاق جمہوریت کو وسعت اورتمام سٹیک ہولڈرز کو اس میں شامل کیا جائے، انتخابات کے بعد سیاسی محاذ آرائی اور پولرائزیشن کے خاتمے کیلیے بھی سیاستدانوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، خدارا! سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہ کریں، ان خیالات کا اظہار سیاسی تجزیہ نگاروں نے ''صاف اور شفاف انتخابات جمہوریت کیلیے ناگزیر'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے کہا کہ آزادی کے 23 برس بعد ملک میں پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے، پھر اتار چڑھائو آتا رہا، 2008ء کے بعد سے سیاسی جماعتوں نے اپنی جگہ بنائی، 18 ویں ترمیم ہوئی، پارلیمنٹ کی مدت پوری ہونے لگی، میثاق جمہوریت ہوا، پھر اس کی خلاف ورزی ہوئی، ایک نئی جماعت آگے آئی اور اس طرح سیاسی جماعتوں نے اپنی غلطیوں سے اپنی جگہ کھو دی۔
انھوں نے کہا کہ اب بارہویں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، عوام کا سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اصل امتحان لوگوں کو پولنگ بوتھ تک لانا ہے، سیاسی جماعتیں 'بلیم گیم' کرتی ہیں، ہمیں بنیادی جمہوریت کی طرف جانا چاہیے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر پاکستان سٹڈی سینٹر جامعہ پنجاب ڈاکٹر امجد مگسی نے کہا کہ سیاسی نظام جمود کا شکار ہے، اس میں سیاسی جماعتوں کی اپنی غلطیاں بھی ہیں، سیاسی جماعتیں مسائل کا ادراک کرتے ہوئے عملی طور پر حل پیش کریں، عوام ، سیاسی جماعتوں اور ان کے پروگرامز سے لا تعلق ہیں، خدشہ ہے کہ یہ جمود گہرا نہ ہو جائے، سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کرلائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کا وجود نہیں، عوام کو اعتماد نہیں ہے کہ ان کے مسائل کون حل کر گا؟
دانشور سلمان عابد نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی، انتخابی تاریخ میں ہر انتخاب مختلف اور متنازعہ رہا، اب بھی انتخابی عمل پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، ایک جماعت کا انتخابی عمل سے آئوٹ ہونا، انتخابی نشان چھن جانا معمولی نہیں ہے، یہ پہلا الیکشن ہے جس میں عوامی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، غیر یقینی اور ابہام ہے، انتخابی ماحول کا نہ بننا خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
انھوں نے کہا کہ نگران حکومتوں کا سلسلہ ختم کرنا اور الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانا چاہیے، معیشت، سکیورٹی، گورننس اور ادارہ جاتی مسائل کے حل کیلیے کسی جماعت کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں، انتخابات کے بعد محاذ آرائی اور پولرائزیشن میں اضافہ ہوگا، سیاسی جماعتوں کو مل کر رولز آف گیم تیار کرنا ہونگے، خدارا!سیاسی اختلاف کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہ کریں۔
سیاستدانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے جڑا ہے لہٰذا میثاق جمہوریت کو وسعت اورتمام سٹیک ہولڈرز کو اس میں شامل کیا جائے، انتخابات کے بعد سیاسی محاذ آرائی اور پولرائزیشن کے خاتمے کیلیے بھی سیاستدانوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، خدارا! سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہ کریں، ان خیالات کا اظہار سیاسی تجزیہ نگاروں نے ''صاف اور شفاف انتخابات جمہوریت کیلیے ناگزیر'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے کہا کہ آزادی کے 23 برس بعد ملک میں پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے، پھر اتار چڑھائو آتا رہا، 2008ء کے بعد سے سیاسی جماعتوں نے اپنی جگہ بنائی، 18 ویں ترمیم ہوئی، پارلیمنٹ کی مدت پوری ہونے لگی، میثاق جمہوریت ہوا، پھر اس کی خلاف ورزی ہوئی، ایک نئی جماعت آگے آئی اور اس طرح سیاسی جماعتوں نے اپنی غلطیوں سے اپنی جگہ کھو دی۔
انھوں نے کہا کہ اب بارہویں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، عوام کا سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اصل امتحان لوگوں کو پولنگ بوتھ تک لانا ہے، سیاسی جماعتیں 'بلیم گیم' کرتی ہیں، ہمیں بنیادی جمہوریت کی طرف جانا چاہیے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر پاکستان سٹڈی سینٹر جامعہ پنجاب ڈاکٹر امجد مگسی نے کہا کہ سیاسی نظام جمود کا شکار ہے، اس میں سیاسی جماعتوں کی اپنی غلطیاں بھی ہیں، سیاسی جماعتیں مسائل کا ادراک کرتے ہوئے عملی طور پر حل پیش کریں، عوام ، سیاسی جماعتوں اور ان کے پروگرامز سے لا تعلق ہیں، خدشہ ہے کہ یہ جمود گہرا نہ ہو جائے، سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کرلائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کا وجود نہیں، عوام کو اعتماد نہیں ہے کہ ان کے مسائل کون حل کر گا؟
دانشور سلمان عابد نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی، انتخابی تاریخ میں ہر انتخاب مختلف اور متنازعہ رہا، اب بھی انتخابی عمل پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، ایک جماعت کا انتخابی عمل سے آئوٹ ہونا، انتخابی نشان چھن جانا معمولی نہیں ہے، یہ پہلا الیکشن ہے جس میں عوامی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، غیر یقینی اور ابہام ہے، انتخابی ماحول کا نہ بننا خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
انھوں نے کہا کہ نگران حکومتوں کا سلسلہ ختم کرنا اور الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانا چاہیے، معیشت، سکیورٹی، گورننس اور ادارہ جاتی مسائل کے حل کیلیے کسی جماعت کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں، انتخابات کے بعد محاذ آرائی اور پولرائزیشن میں اضافہ ہوگا، سیاسی جماعتوں کو مل کر رولز آف گیم تیار کرنا ہونگے، خدارا!سیاسی اختلاف کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہ کریں۔