ہدایت کار شباب کیرانوی… مزید یادیں
شباب کیرانوی فلم انڈسٹری کے ایک مضبوط ستون بن گئے تھے وہ ایک چھاؤں بھری شخصیت تھے
اسی دوران آفاقی صاحب کی کراچی میں ایک نوجوان سید کمال سے ملاقات ہوئی تھی جو او راج کپور کی ہو بہوکاپی تھا۔ آفاقی صاحب نے شباب صاحب سے اس کا تذکرہ کیا پھر اسے کراچی سے لاہور بلوایا گیا۔
سید کمال پہلی ملاقات میں ہی شباب کیرانوی صاحب کو بھا گیا اور پھر اسے فلم '' ٹھنڈی سڑک'' میں ہیرو کاسٹ کر لیا گیا، اسی دوران شباب صاحب کی ملاقات مسرت نذیر سے ہوئی، کمال کے ساتھ مسرت نذیر نے ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ دونوں کو فلم میں بہت پسند کیا گیا، اس فلم کے بعد کمال کو بھی اور مسرت نذیر کو بھی بڑی شہرت ملی اور جلد ہی دونوں آرٹسٹ کئی فلموں میں کاسٹ ہوتے چلے گئے اور شہرت ان کا مقدر بن گئی۔ فلم انڈسٹری میں انھیں لانے کا کریڈٹ بھی شباب کیرانوی ہی کو جاتا ہے۔
1960 میں شباب کیرانوی نے گلبدن کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں مسرت نذیر کے ساتھ نئے اداکار اعجاز کو ہیرو لیا۔ پھر شباب کیرانوی نے ثریا کے نام سے ایک معاشرتی موضوع پر ایک خوبصورت فلم بنائی جس میں اداکار حبیب کے ساتھ ہدایت کار انورکمال پاشا کی متعارف کرائی ہوئی اداکارہ نیر سلطانہ کو ہیروئن کاسٹ کیا یہ فلم خواتین میں بڑی پسند کی گئی تھی۔
ثریا کی کامیابی کے بعد شباب کیرانوی نے ایک اور سوشل فلم مہتاب کے نام سے بنائی جس میں انھوں نے اداکار علاؤ الدین کو مرکزی کردار میں کاسٹ کیا۔ اس فلم میں ہیرو حبیب تھا مگر سب سے زیادہ جاندار کردار علاؤ الدین کا تھا جس پر احمد رشدی کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا جو فلم کی ہائی لائٹ بنا تھا جس کے بول تھے:
گول گپے والا آیا گول گپے لایا
اس گیت کو پنجابی فلموں کے شاعرحزیں قادری نے لکھا تھا اور یہ ان کا پہلا سپرہٹ اردو گیت تھا، اس گیت کی فلم بندی کراچی میں بھی ہوئی تھی اور اس گیت ہی کی وجہ سے فلم سپرہٹ ہوئی تھی اور پاکستان کے ہر شہر میں اس فلم نے سلور اورگولڈن جوبلی منائی تھی۔ بزنس کے اعتبار سے یہ ایک ریکارڈ فلم تھی جس طرح فلم یکے والی کی کامیابی سے ملک باری نے باری اسٹوڈیو بنایا تھا، اسی طرح مہتاب کی بے مثال کامیابی سے خوب مال کمایا اور پھر اس فلم کی کامیابی کے بعد شباب فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی گئی تھی اور شباب اسٹوڈیو بھی ایور نیو، باری اور شاہ نور اسٹوڈیو کی صف میں آگیا تھا۔
فلم مہتاب کی لازوال کامیابی کے بعد شباب صاحب ایک عورتوں کے موضوع پر ایک فلم ماں کے آنسو کے نام سے بنائی پھر عورت کا پیار اور اس کے بعد افسانہ زندگی، وعدے کی زنجیر، ایک دن بہو کا، شباب صاحب کی ہر فلم نے کامیابی حاصل کی جب کہ ان دو فلموں من کی جیت اور ایک بڑی بے مثال فلم انسان اور آدمی بنائی جس نے کامیابی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے، اس فلم میں محمد علی اور زیبا کی اداکاری اپنے عروج پر تھی اس فلم کو ہر سطح پر ہر شہر میں کامیابی ملی تھی۔
شباب کیرانوی کے کریڈٹ پر ایک اور فلم آتی ہے میرا نام ہے محبت، اس فلم میں انھوں نے ٹی وی آرٹسٹ فیصل قریشی کی والدہ اداکارہ افشاں کو ہیروئن کاسٹ کیا تھا، شباب صاحب نے افشاں سے بات بھی کر لی تھی پھر جب فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہوا تو افشاں لاہور سے کراچی چلی گئی تھی، ان دنوں افشاں کا عابد قریشی سے عشق چل رہا تھا وہ عشق میں ایسی مگن رہی کہ اسے شباب کیرانوی کی فلم میں کام کرنا بھی اچھا نہ لگا اور اس طرح شباب صاحب نے افشاں کو کٹ کر کے ماڈل گرل بابرہ شریف کو اپنی فلم میں ہیروئن کاسٹ کیا تھا اور اس کے مقابلے پر کراچی کے ٹیلی وژن آرٹسٹ غلام محی الدین کو لاہور بلایا اور فلم میں ہیرو لے کر وہ فلم بنائی جو سپرہٹ ہوئی اور اس طرح بابرہ شریف کی شہرت کا پہلی فلم کی کامیابی کے بعد آغاز ہو گیا تھا پھر اس پرکامیابی کی تمام منزلیں کھلتی چلی گئی تھیں۔
شباب کیرانوی فلم انڈسٹری کے ایک مضبوط ستون بن گئے تھے وہ ایک چھاؤں بھری شخصیت تھے جن سے بے شمار فنکاروں نے فیض پایا تھا پھر انھیں ایک دو بار ہلکے ہلکے ہارٹ اٹیک ہوئے اور وہ بتدریج کمزور ہوتے چلے گئے میری ان سے ایک بار بڑی طویل ملاقات رہی تھی، میں نے نگار ویکلی کے لیے ایک انٹرویوکیا تھا، انھوں نے اپنی گاڑی بھیج کر مجھے ایورنیو اسٹوڈیو سے شباب اسٹوڈیو میں بلایا تھا۔ جہاں دوپہر کے کھانے سے شام کی چائے تک بھرپور باتیں ہوئی تھیں۔
اس انٹرویو کے دوران میں نے ان پر ایک الزام بھی لگایا تھا کہ آپ نے زیادہ تر فلمیں انڈین فلموں کی کہانیوں کو کاپی کر کے بنائی ہیں وہ فلمیں انڈیا میں سپرہٹ ہوئیں تو یہاں بھی ان کو شاندار کامیابیاں حاصل ہوئیں، میرے الزام کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا اگر ہم انڈین فلموں کی کہانیاں نقل کرتے ہیں تو وہاں کون سی اوریجنل کہانیاں ہوتی ہیں وہ ہالی ووڈ کی فلموں کی کہانیوں کو اپنے ماحول میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں اور پھر جس طرح دنیا میں چند رنگ ہیں انھی سے بے شمار رنگ بنتے ہیں، اسی طرح دنیا میں چند کہانیاں ہیں انھی کہانیوں سے ہی ساری کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔
بس ان کہانیوں کو فلمانے کا انداز سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے، دنیا میں سب ایک دوسرے کی نقل ہی کرتے ہیں اور اس نقل ہی کو اصل کا نام دیتے ہیں۔ شباب کیرانوی صاحب ایک انتہائی تجربہ کار اور ذہین انسان تھے۔ انھوں نے لاہور کی فلم انڈسٹری کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا تھا، ان کا دور بھی بڑا شاندار اور کامیاب ترین دور تھا ان کا شدید ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوا تھا، آج نہ وہ ہیں اور نہ ہی ان کے دونوں بیٹے ہیں سب ہی اپنی اپنی بہاریں دکھا کر رخصت ہوگئے، اللہ ان سب کی مغفرت کرے۔(آمین)
سید کمال پہلی ملاقات میں ہی شباب کیرانوی صاحب کو بھا گیا اور پھر اسے فلم '' ٹھنڈی سڑک'' میں ہیرو کاسٹ کر لیا گیا، اسی دوران شباب صاحب کی ملاقات مسرت نذیر سے ہوئی، کمال کے ساتھ مسرت نذیر نے ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ دونوں کو فلم میں بہت پسند کیا گیا، اس فلم کے بعد کمال کو بھی اور مسرت نذیر کو بھی بڑی شہرت ملی اور جلد ہی دونوں آرٹسٹ کئی فلموں میں کاسٹ ہوتے چلے گئے اور شہرت ان کا مقدر بن گئی۔ فلم انڈسٹری میں انھیں لانے کا کریڈٹ بھی شباب کیرانوی ہی کو جاتا ہے۔
1960 میں شباب کیرانوی نے گلبدن کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں مسرت نذیر کے ساتھ نئے اداکار اعجاز کو ہیرو لیا۔ پھر شباب کیرانوی نے ثریا کے نام سے ایک معاشرتی موضوع پر ایک خوبصورت فلم بنائی جس میں اداکار حبیب کے ساتھ ہدایت کار انورکمال پاشا کی متعارف کرائی ہوئی اداکارہ نیر سلطانہ کو ہیروئن کاسٹ کیا یہ فلم خواتین میں بڑی پسند کی گئی تھی۔
ثریا کی کامیابی کے بعد شباب کیرانوی نے ایک اور سوشل فلم مہتاب کے نام سے بنائی جس میں انھوں نے اداکار علاؤ الدین کو مرکزی کردار میں کاسٹ کیا۔ اس فلم میں ہیرو حبیب تھا مگر سب سے زیادہ جاندار کردار علاؤ الدین کا تھا جس پر احمد رشدی کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا جو فلم کی ہائی لائٹ بنا تھا جس کے بول تھے:
گول گپے والا آیا گول گپے لایا
اس گیت کو پنجابی فلموں کے شاعرحزیں قادری نے لکھا تھا اور یہ ان کا پہلا سپرہٹ اردو گیت تھا، اس گیت کی فلم بندی کراچی میں بھی ہوئی تھی اور اس گیت ہی کی وجہ سے فلم سپرہٹ ہوئی تھی اور پاکستان کے ہر شہر میں اس فلم نے سلور اورگولڈن جوبلی منائی تھی۔ بزنس کے اعتبار سے یہ ایک ریکارڈ فلم تھی جس طرح فلم یکے والی کی کامیابی سے ملک باری نے باری اسٹوڈیو بنایا تھا، اسی طرح مہتاب کی بے مثال کامیابی سے خوب مال کمایا اور پھر اس فلم کی کامیابی کے بعد شباب فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی گئی تھی اور شباب اسٹوڈیو بھی ایور نیو، باری اور شاہ نور اسٹوڈیو کی صف میں آگیا تھا۔
فلم مہتاب کی لازوال کامیابی کے بعد شباب صاحب ایک عورتوں کے موضوع پر ایک فلم ماں کے آنسو کے نام سے بنائی پھر عورت کا پیار اور اس کے بعد افسانہ زندگی، وعدے کی زنجیر، ایک دن بہو کا، شباب صاحب کی ہر فلم نے کامیابی حاصل کی جب کہ ان دو فلموں من کی جیت اور ایک بڑی بے مثال فلم انسان اور آدمی بنائی جس نے کامیابی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے، اس فلم میں محمد علی اور زیبا کی اداکاری اپنے عروج پر تھی اس فلم کو ہر سطح پر ہر شہر میں کامیابی ملی تھی۔
شباب کیرانوی کے کریڈٹ پر ایک اور فلم آتی ہے میرا نام ہے محبت، اس فلم میں انھوں نے ٹی وی آرٹسٹ فیصل قریشی کی والدہ اداکارہ افشاں کو ہیروئن کاسٹ کیا تھا، شباب صاحب نے افشاں سے بات بھی کر لی تھی پھر جب فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہوا تو افشاں لاہور سے کراچی چلی گئی تھی، ان دنوں افشاں کا عابد قریشی سے عشق چل رہا تھا وہ عشق میں ایسی مگن رہی کہ اسے شباب کیرانوی کی فلم میں کام کرنا بھی اچھا نہ لگا اور اس طرح شباب صاحب نے افشاں کو کٹ کر کے ماڈل گرل بابرہ شریف کو اپنی فلم میں ہیروئن کاسٹ کیا تھا اور اس کے مقابلے پر کراچی کے ٹیلی وژن آرٹسٹ غلام محی الدین کو لاہور بلایا اور فلم میں ہیرو لے کر وہ فلم بنائی جو سپرہٹ ہوئی اور اس طرح بابرہ شریف کی شہرت کا پہلی فلم کی کامیابی کے بعد آغاز ہو گیا تھا پھر اس پرکامیابی کی تمام منزلیں کھلتی چلی گئی تھیں۔
شباب کیرانوی فلم انڈسٹری کے ایک مضبوط ستون بن گئے تھے وہ ایک چھاؤں بھری شخصیت تھے جن سے بے شمار فنکاروں نے فیض پایا تھا پھر انھیں ایک دو بار ہلکے ہلکے ہارٹ اٹیک ہوئے اور وہ بتدریج کمزور ہوتے چلے گئے میری ان سے ایک بار بڑی طویل ملاقات رہی تھی، میں نے نگار ویکلی کے لیے ایک انٹرویوکیا تھا، انھوں نے اپنی گاڑی بھیج کر مجھے ایورنیو اسٹوڈیو سے شباب اسٹوڈیو میں بلایا تھا۔ جہاں دوپہر کے کھانے سے شام کی چائے تک بھرپور باتیں ہوئی تھیں۔
اس انٹرویو کے دوران میں نے ان پر ایک الزام بھی لگایا تھا کہ آپ نے زیادہ تر فلمیں انڈین فلموں کی کہانیوں کو کاپی کر کے بنائی ہیں وہ فلمیں انڈیا میں سپرہٹ ہوئیں تو یہاں بھی ان کو شاندار کامیابیاں حاصل ہوئیں، میرے الزام کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا اگر ہم انڈین فلموں کی کہانیاں نقل کرتے ہیں تو وہاں کون سی اوریجنل کہانیاں ہوتی ہیں وہ ہالی ووڈ کی فلموں کی کہانیوں کو اپنے ماحول میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں اور پھر جس طرح دنیا میں چند رنگ ہیں انھی سے بے شمار رنگ بنتے ہیں، اسی طرح دنیا میں چند کہانیاں ہیں انھی کہانیوں سے ہی ساری کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔
بس ان کہانیوں کو فلمانے کا انداز سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے، دنیا میں سب ایک دوسرے کی نقل ہی کرتے ہیں اور اس نقل ہی کو اصل کا نام دیتے ہیں۔ شباب کیرانوی صاحب ایک انتہائی تجربہ کار اور ذہین انسان تھے۔ انھوں نے لاہور کی فلم انڈسٹری کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا تھا، ان کا دور بھی بڑا شاندار اور کامیاب ترین دور تھا ان کا شدید ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوا تھا، آج نہ وہ ہیں اور نہ ہی ان کے دونوں بیٹے ہیں سب ہی اپنی اپنی بہاریں دکھا کر رخصت ہوگئے، اللہ ان سب کی مغفرت کرے۔(آمین)