غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں…

آپ خاص آدمی ہیں اس حکومت کے ہم جیسے غریبوں کا سہارا آپ ہی تھے ۔۔۔۔

muhammad.anis@expressnews.tv

لاہور:
سوچ لو: سوچ لو۔ اگر سوچ سکتے ہو تو لیکن جناب آپ کو سوچنے کی فرصت کہاں؟ آپ کے پاس ہر روز اور ہر پل مرتے ہوئے لوگوں کی آہیں سننے کا وقت کہاں؟ سرکاری اسپتالوں کے گندے بستروں پر پڑی زندہ لاشوں کو دیکھنے والی نظر کہاں؟ ٹوٹی ہوئی چارپائی پر زندگی اور موت سے لڑتی سانسوں کو سننے والی سماعتیں کہاں؟ حضور سوچ لیں... وقت ریت کی طرح جہاں اس ملک کے غریبوں کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے وہی آپ کے پاس بھی اب وقت کم ہے۔ سوچ لو میرے ملک کے حکمرانوں کہ کہیں وقت آپ کے ہاتھ سے بھی نہ چلا جائے۔

ہم سب نے سنے ہیں آپ کے دعوی اور وعدوں میں قید خوشحالی لیکن آپ کا ظلم تو دیکھ لیں۔ اپنی آنکھوں کو چند لمحوں کے لیے کھول لیں اور جو دعوی آپ نے بڑے بڑے ہندسوں کی صورت میں ہمیں دکھایا ہے وہ ہمیں سمجھ نہیں آتا ۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جب آپ نے اپنی بجٹ کی فائل سے موٹے موٹے حروف ہمیں بتانے کی کوشش کی تو کراچی کی سڑک کے کنارے میڈیکل اسٹور پر امین کبھی آسمان کو تو کبھی اپنے ہاتھ میں رکھے تیس روپے دیکھ رہا تھا ۔ کل تک تو وہ اپنے بچے کی کھانسی کے لیے شربت 30 روپے کا لیتا تھا جو آپ کے بجٹ سے ایک ہفتہ پہلے ہی 60 روپے کا ہو گیا۔ آپ تو لندن سے منگوا لینگے ۔۔ امین مزید تیس روپے کہاں سے لائے جس نے ایک وقت کی روٹی چھوڑ کر یہ پیسے بچائے تھے ۔

سات دنوں میں اربوں روپے کما لیے گئے لیکن آپ کو سوچنے کی فرصت کہاں ۔۔؟ آپ کی بیٹی کو درد ہو تو فورا لندن کا ٹکٹ کٹوا لیا جاتا ہے۔ خاندان کا خاندان، بیس کروڑ انسانوں کو جنگل میں چھوڑ کر لندن چلا جاتا ہے ۔ لیکن جناب لاہور میں بھی تو کئی بیٹیاں ایسی تھیں جو درد سے چلا رہی تھیں لیکن آپ نے آنکھیں بند کر لیں۔ آپ کو معلوم ہے ؟ نہیں۔ آپ کو کہاں فرصت؟ کہ جب اربوں کے اخراجات میں آپ ہمیں کھربوں کی باتیں بتا رہے تھے اُس وقت لاہور کی گلیوں میں اربوں روپے کون کما رہا تھا ۔؟ اب لوگ درد بھی نہیں لے سکتے۔ کیونکہ درد کی گولی بھی اُن کی پہنچ سے پار ہو گئی۔ لاہور میں مزدور کی تنخواہ کتنی ہے۔؟

آپ جو لمبا لمبا حساب کر رہے تھے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو۔ کہ ایک مزدور اوسط تین سو روپے روزانہ پر کام کرتا ہے ۔ وہ جو درد کی دوا 100 روپے کی خریدتا تھا جب آپ ترقی کی راہیں دکھا رہے تھے اور بجٹ پر ہمیں قائل کر رہے تھے وہ دوا 150 کی مل رہی تھی۔ ہم جاہلوں کا کیا لینا کروڑوں کے حساب سے۔ بس اتنا تو دیکھ لیتے کہ مزدور کی آدھی تنخواہ کہاں چلی گئی؟ لیکن آپ کے کان کہاں سُن سکتے کہ گھر میں پڑا نوجوان کس طرح سسک رہا تھا ۔

حضور سچ کہا آپ نے، اور آپ ہمیشہ ہی سچ کہتے ہیں کہ روپیہ مستحکم ہو گیا۔ مگر ہم جیسے غریبوں کا جیب میں یہ مستحکم نہیں ہو سکا۔ ہماری جیبوں میں شاید اسے ٹھہرنا ہی نہیں آتا۔ مجھ جیسا عام پاکستانی تو آج تک لاکھ روپے ساتھ نہیں دیکھ سکا ہمیں کیا معلوم کہ یہ اربوں روپے لکھے کیسے جاتے ہیں ؟ ہم کیا جانیں کہ صنعت اتنی بڑھ گئی ہے کہ پوری دنیا واہ واہ کر رہی ہے۔ ہم پاکستانیوں کو تو یہ معلوم ہے کہ جس بجٹ کو آپ نے گھنٹوں میں پڑھ دیا ہم اُس کی دھمک ایک مہینے سے محسوس کر رہے تھے۔ جناب، آپ اربوں، کھربوں کا حساب رکھتے ہیں ہم پاکستانیوں کو کیا معلوم کہ آپ نے دس کا نوٹ بھی دیکھا ہے یا نہیں۔ جہاں آپ جان دار حساب کتاب ہم پر اُلٹ رہے تھے اُس سے کچھ ہی فا صلے پر سب حیران تھے کہ الٹی روکنے والی دوا جو 15 روپے کی ملتی تھی وہ 25 روپے کی ہوگئی۔


حضور بس دس روپے ہی تو بڑھے ہیں آپ کی نظر میں یہ دس روپے کچھ بھی نہیں ہونگے۔ عمران خان صاحب کو الیکشن سے پہلے کی اور بعد کی ساری دھاندلی نظر آتی ہے۔ یہ دس روپے کی دھاندلی کسی کو نظر نہیں آئی ہو گئی کیونکہ اس سے ایک مہینے میں اربوں روپے بنا لیے گئے۔ لیکن ہم سے پوچھو کہ دس روپے کیا ہوتے ہیں؟ ایک روٹی سات روپے کی تھی جو 8 روپے کی ہو گئی۔ اس دس روپے میں آدھی آدھی کر کے ہمارے دو بچے ایک وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں لیکن آپ کو کیا معلوم کہ یہ دس روپے کیا ہوتے ہیں ۔

آپ خاص آدمی ہیں اس حکومت کے ہم جیسے غریبوں کا سہارا آپ ہی تھے۔ امید تھی کہ آپ ہمیں یوں پل پل مرنے نہیں دینگے لیکن ہوا کیا؟ آپ نے کہا کہ مہنگائی کی شرح 8.5 فیصد رہی۔ مجھے یہ سمجھ آیا کہ 100 روپے میں 9 روپے کا خرچہ بڑھ گیا۔ اور ہماری مزدوری؟ کتنی بڑھی؟ ہماری روز کی اجرت میں اضافہ ہوا؟ نہیں بلکہ کیا ہوا۔ آپ کے عظیم الشان اعلانات سے پہلے ہی ہمارے بچوں کے لیے ملنے والا بخار کا شربت 25 روپے سے 55 روپے کا ہو گیا۔ جن کے بچے ہیں اُن سے پوچھے کہ مہنگائی کتنی بڑھی ہے۔ خدا کے واسطے۔ کچھ کرم کریں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اگر دوا اپنی مدت پوری کر چکی ہو تو اُسے پینا زہر ہوتا ہے۔

یہ حساب کتاب کی دوکان وہ ہی پرانی ہے جو ہر حکومت ہمیں نئی بوتل میں ڈال کر دیتی ہے۔ اب اس کی مدت ختم ہو گئی ہے۔ اگر سوچ سکتے ہو تو سوچ لو؟ لیکن تم نہیں سوچ سکتے کیونکہ تمھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ پچاس کا نوٹ ایک غریب کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتا ہے۔ آپ اربوں، کھربوں کی باتیں کرنے والے، آپ کو کیا معلوم کہ زخموں میں مرہم کیس رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں آپ تھے وہی سے کچھ دور محلے کے پاس ایک دکان میں زخم کا مرہم جو 37 روپے کا مل رہا تھا آپ کی تقریر سے پہلے اُس کی قیمت 70 روپے ہو گئی تھی۔ یہ 8 فیصد نہیں حضور، اسے ہم جیسے جاہل 100 فیصد کہتے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ آپ بھی دل کے مریض ہیں۔ اور یہ درد دل کسی کو بھی سکون نہیں لینے دیتا۔ غریب اپنے دل کے ساتھ کیا کرے۔ آپ جیسے لوگ تو حساب کتاب کے درمیان سے دل کی دوا کر لیتے ہیں لیکن جناب یہ تو بتائے کہ وہ غریب کیا کرے جو اپنے دل کو سنبھالتا ہے تو روٹی ہاتھ سے چلی جاتی ہے۔ روٹی ہاتھ سے جاتی ہے تو بچے ہاتھ سے چلے جاتے ہیں۔ خود کو بچائے یا اپنی کائنات کو؟

سوچیں لیکن آپ کیسے سوچ سکتے ہیں۔ آپ تو اربوں کھربوں کے حساب کتاب میں الجھے ہوئے بیٹھیں ہیں۔ جب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بتا رہے تھے کہ آیندہ بجٹ میں آپ کی دنیا سنور جائے گی تو ہم جیسے غریب اپنے دل کو پکڑے بیٹھے تھے۔ جو دل کی دوا 25 روپے کی ملتی تھی وہ 100 روپے کی ملنے لگی۔ سچ جتنا دل بچا تھا وہ بھی چلا گیا اور ہم گاتے رہے کہ کوئی جائے۔ اُسے ڈھونڈھ کے لے آئے۔ ناجانے یہ دل کہاں کھو گیا ؟ سچ لکھا ہوتا ہے کہ دوا کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ آپ نے اُس پر تبدیل کر کے ہمیں یہ تحفہ دیا کہ دوا کو غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں...
Load Next Story