شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی …

علی گڑھ کیمپس میں مشرقی روایات کی پا بندی اور اسلامی علوم و فنون کی ترویج میں ان کی دلچسپی بھی طلبہ پر اچھا اثر ۔۔۔

لاہور:
شاعر بھی تھا ادیب بھی سیرت نگار بھی

جس نے ادب کو جلوۂ صد رنگ کردیا

تاریخ کے معلم اول کے روپ میں

اردو کو جس نے حسن و محبت سے بھردیا

تاریخ علم و ادب کے اس عظیم سپوت اور عظیم ستون کو دنیا سے گزرے ایک سو سال کا وقت ہوا، شبلی اردو ادب کے ایوان میں آج بھی اپنی خدمات کے پس منظر میں جگمگارہے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے شبلی نعمانی ہی کے لیے کہا تھا ''وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔''

اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں بہت سے نامور ادیب، قانون دان، شاعر عربی و فارسی اور اردو کے عالم پیدا ہوئے۔ شبلی نعمانی بھی یہاں کی پہچان بنے زمانے کی بے چین روح نے ایک بے چین قالب میں جگہ بنائی، خانگی زندگی کے لحاظ سے ممکن ہے وہ اس قدر خوش قسمت نہ کہے جاسکتے ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھیں خوش قسمتی سے ایسے رہبر، استاد ملے جنھوں نے ان کی فطری صلاحیتوں کو تراش خراش کر تابناک ہیرا بنادیا۔ علم کی تلاش انھیں بڑے بڑے علما کے پاس لے گئی جنھوں نے شبلی کے جوہر کو نکھارا اور ان کے علم و فن کی خوب آبیاری کی۔

ان کے استادوں میں مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی، مولانا فیض الحسن سہارن پوری کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے ۔ بعد میں دوستی کے سائے میں سر سید احمد خان اور پروفیسر آرنلڈ کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علم اور حصول علم کا شوق انھیں کشاں کشاں لیے پھرا، اس محبت اور جانفشانی نے ان کی صلاحیتوں کو سنوارا، زندگی کے تجربات میں والد صاحب کے بے حد اصرار پر وکالت کا امتحان دیا اور وکالت بھی کی مگر جی نہ لگا۔ والد کی خواہش پوری کرنے کے لیے تجارت کا شعبہ بھی اپنایا مگر یہاں بھی مزاج کی غیر موزونیت غالب رہی۔ سو تجارت بھی ترک کی۔

25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی، کامیابی ابھی دور تھی۔ 1882 میں شبلی نے ''علی گڑھ کالج'' سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سر سید سے ملے ان کا کتب خانہ ملا، پروفیسر آرنلڈ سے نئی زندگی کی امنگ ملی اور مغرب و مشرق کی کشمکش ملی، صلاحیتیں نکھر گئیں، یہاں تصانیف کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اردو ادب کے دامن کو تاریخ، سیرت نگاری، فلسفہ ادب تنقید اور شاعری سے مالا مال کردیا، سیرت نگاری، مورخ، محقق کی حیثیت سے کامیابی کے سکے جمائے۔ سر سید اور علی گڑھ میں مشہور ''صبح امید'' مرتب ہوئی۔

سر سید کی وفات کے بعد حیدرآباد دکن پہنچے مشہور کتاب الفاروق مرتب کی جو تحقیق و مذہب کے نقطہ نظر کے سخت اعتراضات سے گزری مگر اپنی اپنی اہمیت مسلمہ کر گئی۔ ''علی گڑھ'' میں تاریخ اسلام اور حیدرآباد میں اسلامی تصوف اور فلسفہ پر زیادہ توجہ دی یہاں کہ علمی صحبتوں نے ادبی ذوق کو مہمیز کیا۔ تنقید نگاری کی طرف طبیعت مائل ہوئی یہاں مکتوبات شبلی بھی ضبط تحریر میں آئے جو اردو ادب کا سر مایہ ہیں۔شبلی نے غزلیں لکھیں جو لکھنو کے رنگ کے زیر اثر تھیں۔

اثر کے پیچھے دل حزیں نے سراغ چھوڑا نہیں کہیں کا

گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا

ابتدا میں رنگیں غزلیں لکھیں بعد میں قومی اور مذہبی نظمیں لکھنے لگے۔ رومانیت کا فسوں جاگا تو غزلیں پھر شروع کیں مگر فارسی میں مزا زیادہ رہا، مولانا شبلی کی زبان و بیان انداز تحریر و تقریر اردو کے ساتھ عربی و فارسی میں پر لف ہوتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان خوشی محمد ناظر، سید سجاد حیدر یلدرم، مسعود علی محوی جیسے متعدد علی گڑھ کے طالب علم مستفید ہوتے رہے اور عربی و فارسی کے شعر و ادب کا ذوق ان میں شبلی کی کلاسوں اور علمی صحبتوں سے پیدا ہوا، ساتھ ساتھ علی گڑھ کالج کی اقامتی زندگی کی بہتری کے لیے مولانا شبلی شب و روز کوشاں تھے.


علی گڑھ کیمپس میں مشرقی روایات کی پا بندی اور اسلامی علوم و فنون کی ترویج میں ان کی دلچسپی بھی طلبہ پر اچھا اثر ڈالتی تھی اور کالج کے جدید ماحول میں ان کی روشن طرز قدیم و جدید کے امتزاج کا نمونہ پیش کرتی تھی، شبلی اپنی فطری ذہانت بلند خیالی اور اسلام دوستی میں جدید علوم و فنون کے دور میں بھی اس سے مرعوب ہوئے بغیر اسلامی علوم و فنون کے لیے آواز بلند کرتے تھے ان کے شاگرد مولانا محمد علی کا برملا اعتراف ہے کہ ''مولانا شبلی نے ہمیشہ اسلام اور اسلام شعار کو طلبا کے سامنے زندہ حقیقت اور موثر طاقت کی حیثیت سے پیش کیا۔''

پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی (شعبہ اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی رقم طراز ہیں۔

''ان کی شخصیت کا اہم پہلو اسلامیات بالخصوص قرآن کریم سے گہرا تعلق تھا ان کی تحریروں اور تقریروں اور نظموں میں اس کی بخوبی عکاسی ملتی ہے ان کے اندر قرآن پاک کا ذوق اور اس کے معنی و مفہوم سمجھنے کی طلب علی گڑھ میں طالب علمی کے زمانے سے پیدا ہوگئی تھی۔''

شبلی جہاں جہاں گئے مسلمانوں کے نظام تعلیم کے لیے ایک بڑے مصلح ثابت ہوئے۔ 1900 میں لکھنو میں ''ندوہ'' کے مشہور مدرسے میں اقامت اختیار کی تمام اختلافات کے باوجود انھوں نے ندوہ کو ندوہ بنادیا ''رسالہ الندوہ'' کے ذریعے علمی خدمت اور اپنی نگاہ فیض سے مشہور اہل قلم پیدا کیے جو ان کے کام کو تا عمر جاری رکھے رہے۔

مولانا کے نظریات اور افکار اردو ادب کی چاشنی کے ساتھ مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور اسلام سے محبت کا بین ثبوت تھی۔ اسی سلسلے کی ایک اہم نادر کوشش کا تحریری عکس ''بعنوان مکہ معظمہ میں اسلامی یونی ورسٹی کی تاسیس کی تجویز۔''

رسالہ معارف نومبر 2013 ''آثار علیمہ و تاریخیہ سے ایک اہم مخطوطہ'' متعارف ہوتا ہے۔ اس مراسلے کا عکس روزنامہ زمیندار میں چھپا ہے، علامہ شبلی نعمانی کی علم دوستی، علوم اسلامی سے شغف اور اہم ترین اسلامی ریاست میں فروغ علم کی خواہش سے جڑی ہے، مولانا ابوالکلام آزاد اس بارے میں نہ صرف نوٹ تحریر کرتے ہیں بلکہ اس تجویز کی تائید بھی کرتے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شبلی کی علمی و ادبی خدمات، تجاویز اور اقدامات پسندیدہ تھے۔

غرض شبلی زبان و ادب ، فلسفہ، مذہب، تاریخ و تنقید، سیرت و سوانح کون سا ایسا فن اور موضوع ہے جو ان کی دسترس میں نہ ہو ان کی تحریروں کے مطالعے کے بعد بے ساختہ یہ دل سے آواز آتی ہے۔

دیکھنا تقریر کی لذت جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

ان کی تحریروں میں دل کشی اور شگفتگی ہے، شبلی میں ادبی خصوصیات کے تمام امکانات اور تمام صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں، ان کا اسلوب بیاں قابل صد رشک اور کسی حد تک ناقابل تقلید بھی کہا جاسکتاہے۔ علامہ شبلی نے کم و بیش پچاس ساٹھ ہزار صفحات پر مشتمل ذخیرۂ ادب چھوڑا ہے۔ بقول مہدی افادی:

''یہ لٹریچر کی وہ قیمتی صنف ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں تنقیدات عالیہ ''ہائرکریٹیسزم کہتے ہیں۔ شبلی میں ایک خاص درجہ کا مادہ اختراعی تھا۔ غرض مشرقی زبانوں میں مختلف اضاف سخن کے پورے مالک تھے۔''

مولانا شبلی نعمانی نام ہے ایک کامیاب انسان جو ہمہ جہت صلاحیتوں کا مالک، جو عظیم مصنف ہے جس کا سکہ جما ہے ادب کی دنیا میں اور جو مصنف گر بھی ہے۔
Load Next Story