اور میں اکیلا رہ گیا

ہم بہن بھائیوں نے زندگی کے یادگار مہ و سال ایک ساتھ گزارے ہیں۔۔۔۔


Saeed Parvez June 04, 2014

لاہور: یہ جمعے کا دن تھا، 23 مئی 2014کی رات ساڑھے نو بجے حمید بھائی نے آغا خان اسپتال میں آخری سانس لی اور وہ آگے بڑھ گئے۔ اس طرف جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، بس یادیں آتی رہتی ہیں۔ ہم چار بھائی اور ایک بہن ساتھ ساتھ چلے اور حمید بھائی کے بعد اب میں اکیلا رہ گیا ہوں، میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا۔ ہمارے ابا اماں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی، خاندان میں پہلی بار علم کے چراغ روشن کیے۔ حمید بھائی کے جانے پر سب کچھ پھر سے یاد آ رہا ہے۔

حمید نیشنل بینک آف پاکستان میں ملازم تھے اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے۔ پورا بینک کیریئر آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں رہے۔ وہ اصولوں کے سخت پابند تھے۔ دوران آڈٹ برانچ والوں کی چائے تک نہیں پیتے تھے۔ پریزیڈنٹ نیشنل بینک سے لے کر نیچے تک سب عبدالحمید خان کو جانتے تھے۔ حمید نے اس طرح اپنے فرائض ادا کیے کہ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نیشنل بینک کے در و دیوار اور افسران، ملازمین انھیں بھولے نہیں تھے۔ بس ان کا نام لیں اور پھر ان کے قصے کہانیاں شروع۔ ایک بار صدر نیشنل بینک نے ایک فائل منگوائی، فائل حمید بھائی کے پاس تھی، اہم تھی۔

صدر نیشنل بینک کا خادم آیا اور فائل کے لیے بھائی سے کہا تو انھوں نے اسے یہ کہہ کر خالی ہاتھ واپس بھیج دیا ''جاؤ اور پریزیڈنٹ صاحب سے کہہ دو عبدالحمید خان فائل نہیں دے رہا'' خادم نے یہی الفاظ پریزیڈنٹ کے گوش گزار کر دیے۔ جواباً صدر صاحب مسکرائے اور خادم سے کہا ''ٹھیک ہے تم جاؤ'' کچھ دیر بعد حمید بھائی خود مذکورہ فائل لے کر صدر صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا ''اتنی اہم فائل جس کا میں آڈٹ کر رہا ہوں میں کسی کے بھی حوالے نہیں کر سکتا۔

میں پانچویں فلور پر ہوں، آپ پہلے فلور پر، راستے میں کوئی بھی کاغذ غائب کیا جا سکتا ہے'' یہ تھے حمید بھائی، جن کے سامنے بے شمار فائلیں آئیں جو ان سے باتیں کرتی تھیں اگر بھائی چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے مگر وہ ساتھ ایمان کے صاف شفاف وقت گزار کر ریٹائر ہوئے۔ اور ماں باپ کی لاج رکھ لی۔ اپنے دونوں بڑے بھائیوں مشتاق مبارک اور حبیب جالبؔ کی طرح انھوں نے بھی نیک نامی کمائی گو ان کا لکھنے لکھانے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا مگر وہ بھی حق و سچ کے قائل تھے۔

آج حمید کے انتقال پر سارے بہن بھائی یاد آرہے ہیں۔ 1947ء میں اپنے ابا اور اماں کے ساتھ ہم بہن بھائیوں نے دہلی سے کراچی ہجرت کی تھی، ہمارے ابا بھی نثر اور شاعری کرتے تھے، ان کا موضوع مذہب، جگ بیتی تھا۔ دہلی سے کراچی آنے کو انھوں نے اس طرح بیان کیا ''اور پھر ہم خواجہ نظام الدین اولیا کی چوکھٹ سے اٹھ کر بابا عبداللہ شاہ غازیؒ کے قدموں میں آ بیٹھے'' بٹوارے کے وقت بھائی مشتاق کی شادی ہو چکی تھی۔ اماں ابا نے نئی نویلی دلہن اور بیٹی بیٹوں کے ساتھ کراچی کے علاقے جٹ لائن میں ڈیرے ڈال دیے۔ جہاں ایک کشادہ سرکاری کوارٹر بھائی مشتاق کے نام سرکار نے الاٹ کر دیا تھا۔ بھائی مشتاق محکمہ اطلاعات و مطبوعات میں ملازم تھے اور شاعر بھی بہت اچھے تھے جو قارئین مشتاق مبارک سے واقف نہیں، ان کے لیے بھائی مشتاق مبارک کا ایک قطعہ بطور تعارف لکھ رہا ہوں:

دوستوں کی ستم ظریفی کو

ہم فقط اپنی سادگی سمجھے

دوست میرے خلوص کو اکثر

میرا احساس کمتری سمجھے

مشتاق بھائی اپنے دور کے بڑے شعرا میں شمار کیے جاتے تھے اور یہ بھی کہ ہر طبقہ فکر میں ان کو مقبولیت حاصل تھی۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط سے بھائی مشتاق کو شوگر، بلڈ پریشر نے گھیر لیا تھا۔ ان موذی بیماریوں کی وجہ سے جسم کے دیگر اہم اعضا بھی متاثر ہوئے۔ مجھے خوب یاد ہے بھائی مشتاق جناح اسپتال میں داخل تھے میں اور میرا بھتیجا مرحوم محمود الحسن (مشتاق بھائی کا بیٹا) تیمار داری کے لیے اسپتال میں موجود رہتے تھے۔ حمید نے ہم دونوں کی جیبوں میں سو سو روپے ڈال دیے تھے کہ بھائی کے لیے کسی دوا کی ضرورت پڑے تو دقت نہ ہو۔ اس زمانے کے سو روپے یوں سمجھیے جیسے آج کے بیس ہزار روپے۔ 1969 میں حمید کی شادی ہوئی، بارات کو کراچی سے ملتان جانا تھا۔

جولائی کا مہینہ اور ملتان شریف، سمجھیں قیامت کی گرمی، بھائی مشتاق بارات کے ساتھ جانے پر بضد اور حمید بھائی شادی ہی سے انکاری کہ اگر شدید بیمار بھائی مشتاق بارات کے ساتھ جائیں گے تو میں شادی نہیں کروں گا، شادی کے لیے میں بھائی کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ لیکن ہوا وہی جو خدا کو منظور تھا۔ مشتاق انتہائی بیماری کی حالت میں ملتان گئے، چھوٹے بھائی حمید کے لیے اپنا لکھا ہوا سہرا پڑھا۔ حمید کی شادی میں لاہور سے میاں محمود علی قصوری بھی آئے ہوئے تھے اور نکاح نامہ پر بطور گواہ انھوں نے دستخط بھی کیے، ملتان نیشنل عوامی پارٹی کے قسور گردیزی بھی موجود تھے۔ 12 جولائی 1969کے دن حمید کی شادی ہوئی اور ڈاکٹروں کے کہنے کے عین مطابق پندرہ دن بعد بھائی مشتاق 27 جولائی 1969 کو میو اسپتال لاہور میں انتقال کر گئے۔

ہماری اماں کے ہاں نو بچے ہوئے۔ آٹھ بیٹے اور ایک بیٹی، چار بیٹے چھٹپنے میں ہی انتقال کر گئے، یہی کوئی ڈھائی سال کا، تو کوئی ساڑھے تین سال کا ہو کر۔ ہم پانچ بہن بھائیوں، مشتاق مبارک، حبیب جالب، رشیدہ بیگم، عبدالحمید خان اور سعید پرویز نے لمبی عمریں پائیں۔ مشتاق بھائی 1969 میں فوت ہوئے۔ بھائی حبیب جالب 1993 میں فوت ہوئے۔ بہن رشیدہ بیگم 2010 میں فوت ہوئیں اور 2014 میں بھائی حمید بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ 23 مئی 2014کی رات گیارہ بجے اسپتال سے میں اپنے بچوں کے ساتھ حمید کے گھر کے لیے روانہ ہوا۔ میں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا کہ اچانک ایک خیال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ زندگی میں پہلی بار یہ خیال میرے دل و دماغ میں جگہ بنا رہا تھا ''میں اکیلا رہ گیا۔''

ہم بہن بھائیوں نے زندگی کے یادگار مہ و سال ایک ساتھ گزارے ہیں۔ غربت و تنگدستی کے حالات تھے، مگر باہمت، غیرت مند ماں باپ نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اماں کا مٹی کے بنے چولہے میں اوپلے جلا کر ہانڈی روٹی بنانا اور پھر چولہے کے قریب ہی سارے بہن بھائیوں کا مل کر کھانا کھانا۔ وہ مزا پھر زندگی میں نصیب نہیں ہوا۔ ہماری اکلوتی بہن رشیدہ کا کردار بھی بڑا اہم ہے۔ یہ رشیدہ آپا ہی تھیں کہ جن کی وجہ سے بھائی حبیب جالب کا پہلا مجموعہ ''برگ آوارہ'' شایع ہوا۔ واقعہ یوں ہے کہ لاہور کے مشہور مکتبہ کارواں کے چوہدری عبدالحمید نے حبیب جالب سے کہا کہ مسودہ لائیں، ہم شایع کریں گے۔

جالب نے غزلیں، نظمیں لکھنا شروع کیں تو پچیس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اسی پریشانی کو لیے جالب لاہور سے کراچی آئے۔ یہ 1957 تھا۔ آپا رشید کو بھائی کی پریشانی کا پتہ چلا تو وہ صندوق میں سے ایک پوٹلی لے آئیں اور کاغذات کے پرزے بھائی کے سامنے ڈھیر کر دیے۔ یہی وہ کاغذات کے پرزے تھے جن پر ''برگ آوارہ'' لکھی ہوئی تھی۔ آپا رشیدہ کی عادت تھی کہ بھائی جالب کے میلے کپڑوں کی جیبوں سے کاغذات، سگریٹ کے پیکٹ کو سیدھا کر کے لکھے اشعار سنبھال لیتی تھیں۔ یوں 1957 میں بھائی حبیب جالب کا پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا۔ حنیف رامے کو بھی یاد کر لیتے ہیں کہ جنھوں نے برگ آوارہ کا سرورق بنایا تھا۔

احمد ندیم قاسمی صاحب نے فلیپ اور ڈاکٹر عندلیب شادانی نے مقدمہ تحریر کیا تھا۔بھائی حمید کا خاص وصف تھا، ان کا مزاج تھا کہ ان کے بڑے بھائی بہن مشتاق مبارک، حبیب جالب اور آپا رشیدہ بھی ان کی بات کا مان رکھتے تھے۔ وہ جو بھی بات کہتے اسے بڑے بھائی بہن حتیٰ کہ اماں ابا بھی اہمیت دیتے تھے۔ ہم چار بھائیوں میں تین کے ہاتھ میں قلم آیا شاعری اور نثر لکھی، مگر حمید نے اپنے قلم کو ''جانچ پڑتال'' یعنی آڈٹ جیسے مشکل کام میں استعمال کیا اور اماں ابا، بہن بھائیوں کے نام پر کوئی داغ دھبہ نہ لگنے دیا۔

''ریٹائرمنٹ کے بعد حمید گھر کے ہوکر رہ گئے تھے، بس کتابیں پڑھنا یا بچوں کے ساتھ باتیں۔ وہ اپنے ہی مزاج کے آدمی تھے۔ جو ان کے مزاج آشنا ہو گئے وہی دوست ان سے ملنے گھر آتے یا حمید بھائی ان کے گھر چلے جاتے۔ باقی ناآشنائے مزاج لوگوں سے وہ نہیں ملتے تھے۔ شعر و ادب سے حمید بھائی کا لگاؤ فطری تھا کہ والد اور بڑے شاعر تھے۔ مجھے بھی یہ شرف حاصل ہے کہ بھائی میرے کالم اپنے پاس جمع رکھتے تھے۔ جیسے بھابی ممتاز (بیگم حبیب جالب) کی وفات پر لکھا کالم ''تو ایک حقیقت ہے مری جاں میری ہمدم'' یا آپا رشیدہ کی وفات کا کالم۔ ہمیشہ کالم پسند آنے پر وہ مجھے فون کرتے تھے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

پتہ ہے! حمید بھائی کو بعد از مرگ کیا مقام و مرتبہ ملا ہے! جی میں بتاتا ہوں سخی حسن قبرستان کراچی ہماری اماں کے عین پہلو میں حمید بھائی کو جگہ نصیب ہوئی ہے اور الحمداللہ یہ فیصلہ میرا تھا کہ اماں کے پہلو میں حمید کو دفنایا جائے۔ آج ان کے جانے پر اپنا وہی شعر دہرا رہا ہوں جو ان چھ اشعار کا حصہ ہے جو میں نے حبیب جالب کے انتقال (1993) پر کہے تھے:

تو جو گیا تو یاد ہمیں پھر آئے بہت

بچھڑے ہوئے سب یار پرانے تیرے بعد

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں