چارج شیٹ کا جواب

پاک بھارت میڈیا میں تو یہ طوفان برپا ہے کہ اس ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ۔۔۔۔

mjgoher@yahoo.com

آپ پاک بھارت تعلقات و تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں خارجہ سیکریٹریوں سے لے کر حکومتی سربراہان کے درمیان ہونے والی گزشتہ ملاقاتوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، نہرو لیاقت ملاقات سے نواز مودی ملاقات تک ہر مذاکرات محض نشستن، گفتن اور برخاستن تک ہی محدود رہے، مگر ان ملاقاتوں میں ہمارے وزرائے اعظم اور صدور نے کشمیر و دیگر معاملات پر پاکستان کا ٹھوس موقف پورے استدلال کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کے سامنے رکھا لیکن نواز مودی ملاقات میں صورت حال یکسر مختلف رہی۔

دراصل جب وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے معاونین کی مشاورت سے بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کیا اندرون وطن مذہبی حلقوں اور شدت پسند تنظیموں کی طرف سے ان کے بھارتی دورے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بھارت کے روایتی متعصبانہ رویے بالخصوص نریندر مودی کی مسلمان اور پاکستان دشمنی کے پیش نظر بعض حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم کے فیصلے کو جلد بازی قرار دیتے ہوئے ''ویٹ اینڈ سی'' کے مشورے بھی دیے گئے۔

تاہم ملکی و غیر ملکی سطح پر بحیثیت مجموعی وزیراعظم کے فیصلے کو حوصلہ افزا اقدام قرار دیا گیا کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں و کشیدگی کے خاتمے، مذاکراتی عمل کی بحالی اور کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل کی جانب پیش رفت میں مدد ملے گی، خود وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھارت روانگی سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سے لاہور میں ہونے والی دو گھنٹے طویل ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پر امن تعلقات چاہتے ہیں اور بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل میں مددگار ثابت ہو گی اور دونوں بھارت میں نو منتخب قیادت سے تمام معاملات پر کھل کر بات جیت کی جائے گی۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف بڑی امیدوں کے ساتھ بھارت گئے تھے کہ نو منتخب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے تمام ایشوز پر بات چیت کر کے نئے دور کا آغاز کریں گے۔ تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد پاک بھارت وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات کا جو احوال پاکستانی بالخصوص انڈین میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور نواز مودی ملاقات کے حوالے سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مبصرین و ماہرین جو تبصرے اور تجزیے کر رہے ہیں اس سے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ بھارت توقعات کے مطابق کامیاب نہیں رہا اور ہمارے وزیر اعظم اپنے نو منتخب بھارتی ہم منصب سے جملہ معاملات پر ڈٹ کر بات نہیں کرسکے۔

پاک بھارت میڈیا میں تو یہ طوفان برپا ہے کہ اس ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف پر زبردست دبائو ڈالا اور برملا یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور مبینہ دہشت گردوں پر جلد کنٹرول حاصل کرے، نریندر مودی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستانی قیادت ممبئی حملوں کی تفتیش جلد مکمل کر کے ملزمان کو سزا دے کر بھارت کو مطمئن کرے۔


اس کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نے مطلوبہ افراد کی حوالگی کے حوالے سے بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف پر دبائو ڈالا، جواب میں پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف نریندر مودی کے سامنے تصادم کو تعاون سے بدلنے کی خواہش کا اظہار یا یوں کہیے کہ اپیلیں کرتے رہے کہ وہ باہمی تعاون اور تجارتی و اقتصادی رابطے بحال کرنا چاہتے ہیں اور خطے میں امن و تنازعات کے حل کی خاطر دو طرفہ مذاکراتی عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق نریندر مودی نے میاں نواز شریف صاحب سے پانچ نکات پر بات چیت کی جس میں دہشت گردی کے خاتمے اور ممبئی حملوں کے حوالے سے موضوع نمایاں رہا، نریندر مودی نے ممبئی ٹرائل پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

نواز مودی ملاقات پر پاکستانی میڈیا میں اس حوالے سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نریندر مودی کے مبینہ الزامات کے جواب میں مدلل انداز سے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ حالانکہ روانگی سے قبل میاں صاحب نے قوم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں تمام معاملات پر بات چیت کی جائے گی تو ہونا پھر یہ چاہیے تھا کہ جب نریندر مودی پاکستان پر دہشت گردی اور ممبئی حملوں سے متعلق مبینہ الزامات عائد کر رہے تھے تو میاں صاحب بھی جواب میں دو ٹوک انداز سے نریندر مودی کو یہ بتاتے کہ جناب زبانی سے تو آپ سے آپ امن امن کی بات کرتے ہیں لیکن آپ اپنے ملک کی دوغلی خارجہ پالیسی پر بھی تو نظر ڈالیے، خود آپ کی سر زمین ایک طویل عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

میاں صاحب نریندر مودی کو باور کراتے کہ کسی طرح پڑوسی ملک افغانستان میں قائم اپنے قونصل خانوں کے ذریعے بھارت بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ پاکستانی علاقے بلوچستان میں مسلح شرپسندوں کو بھیج کر نہ صرف وہاں کا امن تہہ و بالا کر رہا ہے بلکہ علیحدگی پسندوں کی سرپرستی اور ان کے ہاتھ مضبوط کر کے پاکستان کی بقا و سالمیت پر مبینہ حملے کر کے ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے اور کراچی و دیگر شہروں میں بھی بھارتی شرپسند عناصر کی خفیہ سرگرمیاں جاری ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ نریندر مودی کو یاد دلاتے کہ پاکستان تو امن عالم کی خاطر خود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان کے ہزاروں فوجی جوان، سیکیورٹی اہلکار اور بے گناہ شہری اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا کیا وزیر اعظم میاں نواز شریف کو یہ یاد نہیں تھا کہ ابھی چند سال پہلے جب ملک پر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مصر کے معروف شہر شرم الشیخ میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے ڈاکٹر سنگھ کے سامنے ایسے ناقابل دید ثبوت رکھے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم کے پاس ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔

افسوس کہ میاں صاحب نریندر مودی کے سامنے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جیسی جرأت اظہار کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ نتیجتاً مودی صاحب نے الٹا انھیں ''چارج شیٹ'' تھما دی۔وطن واپسی پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کو میڈیا کی زبردست تنقید کا سامنا اور صفائیاں پیش کرنا پڑ رہی ہیں کہ جناب ہمارا دورہ بھارت نہایت کامیاب رہا، جیسا کہ وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے فرمایا ہے کہ نواز شریف کو ملاقات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کوئی چارج شیٹ نہیں پکڑائی، دہشت گردی دونوں ممالک کا مسئلہ ہے اور ہمارے وزیر اعظم کی بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات توقع سے زیادہ بہتر رہی، لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا بات وہی سچ مانی جاتی ہے جسے زبانی حال کہہ رہی ہو۔

تاویلیں اور پورے استدلال سے سیاہ کو سفید قرار نہیں دیا جا سکتا بھارت کا مکروہ چہرہ اور متعصبانہ کردار دنیا کے سامنے ہے اور اب ایک انتہا پسند متعصب ہندو سیاست دان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت سے دوستانہ و خوشگوار تعلقات کے قیام تنازعات کے حل اور خطے میں امن پر بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اس پر مستزاد نریندر مودی کے الزامات پر مبنی چارج شیٹ کے جواب میں ہمارے وزیر اعظم نواز شریف کی پر اسرار خاموشی اور تصادم کو تعاون سے بدلنے اور تجارتی و اقتصادی رابطے بڑھانے کی خواہش کے اظہار نے پاکستان کی پوزیشن کو اور کمزور کر دیا ہے، میاں صاحب ''چارج شیٹ'' کا یہ جواب تو نہ تھا۔
Load Next Story