مریم نواز کا مشورہ

قومی معیشت کی تباہ حالی کا الزام پی ڈی ایم کی حکومت پر لگانا آسان ہے


[email protected]

مریم نواز شریف نے ایک بات خوب کہی، کہا :
' ووٹ کا استعمال خوب سوچ سمجھ کر کریں کیوں کہ یہی ووٹ ہے جو ہماری نسلوں کے بہتر مستقبل کا فیصلہ کرے گا.'

مریم نواز اس جمعرات اپنے قومی اسمبلی لاہور کے حلقہ 119 میں تھیں۔ ان کی تقریر جمی ہوئی تھی، نسبتاً مختلف تھی اور جذباتی بھی۔ جذباتی تو وہ اس لیے تھیں کہ 2018 کے انتخابات میں بھی وہ اسی حلقے سے امیدوار تھیں لیکن اس سے قبل کہ وہ میدان میں اترتیں، اپنے والد کے ساتھ ساتھ انھیں بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔

ایسا کیوں کیا گیا، یہ کہانی کچھ ایسی نامعلوم بھی نہیں کہ وہ عہد کچھ ایسے عدل گستروں کا تھا جن کے نزدیک ' عدل' کے لیے قاعدے قوانین کے بہ جائے کچھ مصلحتوں کی اہمیت زیادہ تھی لہٰذا وہ آج نسبتاً جذباتی بھی ہوئیں اور انھوں نے اپنے بعض سیاسی مخالفین کے الزامات کے بالواسطہ جواب بھی دیے جو بعض حوالوں سے میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

مریم نواز نے کسی کا ذکر کیے بغیر کہا کہ وہ نواز شریف کے نامکمل ادوار حکومت کے 1500 ترقیاتی منصوبے گنوا سکتی ہیں لیکن جن لوگوں نے ایک صوبے میں 15برس تک بلا شرکت غیرے حکومت کی، وہ اپنے 15 ترقیاتی منصوبے بھی گنوا دیں تو میں جانوں۔ خیر ، سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسی کش مکش تو چلتی ہی رہتی ہے لیکن ان کی تقریر کا بنیادی نکتہ وہی ہے جس کا ابھی تذکرہ ہوا یعنی ووٹ کا درست استعمال کیوں کہ اس بات کا تعلق ہماری نسلوں کے بہتر مستقبل سے وابستہ ہے۔

جہاں تک ووٹ کا معاملہ ہے، اس کا استعمال ہمیشہ ہی درست طور پر کرنا چاہیے لیکن حالیہ یعنی 2024 کے انتخاب میں تو یہ خاص طور پر ضروری ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان لمحہ موجود میں جن چیلنجوں سے دوچار ہے، ان سے درست طور پر نمٹنے کے لیے ذرا سی غلطی کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ پاکستان کو اس وقت کیا چیلنج درپیش ہیں؟ برادر محترم مہتاب حیدر نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر کر دیا ہے۔

مہتاب حیدر اعداد و شمار اور معیشت کی مشکل زبان میں بات کرتے ہیں جس کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے اکثر لوگ ہانپ جاتے ہیں لیکن ان کی یہ رپورٹ ایسی ہے جس کا مفہوم واضح ہے۔

انھوں نے بتایا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق پاکستان کو اس وقت جو اقتصادی چیلنج درپیش ہیں ان میں سب سے اہم بات اوپر سے نیچے درست پالیسیوں کی تشکیل اور ان کا بروقت نفاذ ہے۔ ایسا نہ ہو سکا تو آنے والے برسوں میںمالی توازن اور ادائیگیوں کو نظام بگڑ جائے گا اور پاکستان مزید اقتصادی مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔

اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو بھی اس چیلنج کا احساس ہے جس کا اندازہ IPOR کے تازہ سروے سے ہوتا ہے۔ اس سروے میں لوگوں سے جب یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو انھوں نے مہنگائی اور اقتصادی مسائل کی نشان دہی کی۔

یہ اقتصادی مسائل کیوں پیدا ہوئے؟ اس بات کا تعین یوں ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن نے 2018 میں جب حکومت چھوڑی، پاکستان کی شرح نمو اس وقت چھ عشاریہ ایک تھی لیکن پھر کیا ہوا؟ آنے والے حکمرانوں نے بروقت فیصلوں میں دیر کر دی۔ وہ اپنے ان نعروں کے اسیر ہو کر رہ گئے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنے کے بہ جائے وہ خود کشی کرنے کو بہتر سمجھیں گے۔

فیصلوں میں یہ تاخیر کتنی مہلک ثابت ہوئی، اس کا اندازہ خود اس وقت کے حکمرانوں کے مالیاتی مشیروں کے بیانات سے ہوتا ہے جن میں سے کئی ایک نے کھلے عام یہ کہنا مناسب سمجھا کہ حکومت نے فیصلے کرنے میں کئی ماہ کی تاخیر کر دی ہے اب قدرت ہی پاکستان کو معاشی بحرانوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے پھر وہی ہوا، سو روپے لٹر سے کم میں فروخت ہونے والا پیٹرول تین سو روپے پر جا پہنچا، پچاس روپے فی کلو ملنے والا آٹا اور چینی ڈیڑھ سو روپے پر جا پہنچے اور چار پانچ روپے میں بکنے والی روٹی بیس پچیس روپے کی بکنے لگی۔

اس پر طرفہ یہ ہوا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے توڑ دیا گیا اور وہ بھی ایک ایسا معاہدہ جس کی توثیق پارلیمان سے کرائی گئی تھی۔ درست اور بروقت فیصلے نہ کرنے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔

قومی معیشت کی تباہ حالی کا الزام پی ڈی ایم کی حکومت پر لگانا آسان ہے۔ لطف تو یہ ہے کہ ایسے الزامات لگانے والوں میں اب وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جنھوں نے اس حکومت میں بڑے بڑے مناصب حاصل کیے اور مراعات سے لطف اندوز ہوئے لیکن جو اصل حقیقت ہے، اس پر بات کرنے سے لوگ کتراتے ہیں۔

پی ڈی ایم جس وقت اقتدار میں آئی، اس کے سامنے کئی چیلنج تھے۔ اول یہ کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے ایک معاہدہ کیا، پارلیمان سے اس کی توثیق کرائی پھر اسے توڑ دیا۔ اس پیچیدہ صورت حال میں پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس کچھ زیادہ گنجائش تھی ہی نہیں، اس کے سامنے ایک طرف کھائی اور دوسری طرف آگ والا معاملہ تھا، ذرا سی بے احتیاطی پاکستان کو اقتصادی طور پر دیوالیہ کر سکتی تھی۔ اس مشکل میں پی ڈی ایم کی حکومت سے جو کچھ بن پڑا وہ اس نے کیا۔

پاکستان الحمدللہ اس صورت حال سے نکل چکا ہے لیکن راہیں ابھی آسان نہیں ہیں۔ اس بار 2018 جیسے لونڈھیار پن کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں ہے۔ درست اور بروقت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ کس قسم کے درست اور بروقت فیصلے؟ اس کی مثال ن لیگ کی گزشتہ حکومت سے ملتی ہے۔

میاں صاحب 2013 میں اقتدار میں آئے تو اس وقت بھی ملک کئی اقتصادی مسائل سے دوچار تھا اس لیے آئی ایف کے پروگرام میں جانا ضروری تھا چناں چہ ان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا لیکن یہ معاہدہ اس حکمت کے ساتھ کیا گیا کہ عوام اور ملک پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر امداد حاصل کر لی گئی اور 2016 میں اس عالمی مالیاتی ادارے کو خدا حافظ بھی کہہ دیا گیا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میاں صاحب ، سینیٹر اسحاق ڈار اور ن لیگ کی اقتصادی ٹیم ایسے معاملات سے نمٹنے کا سلیقہ رکھتی ہے۔ اس کا موازنہ 2018 کے حکومت اور اس کے معاملات سے کیا جائے تو تصویر کے دونوں رخ کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔

رہ گئی بات پی ڈی ایم کی حکومت کی تو یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ گزشتہ حکومت اس کے ہاتھ باندھ کر گئی تھی لیکن آئندہ انتخابات میں اگر اس جماعت کو مینڈیٹ ملتا ہے تو تازہ مینڈیٹ کے ساتھ یہ حکومت زیادہ اعتماد اور زیادہ حوصلے کے ساتھ اور اقتصادی امور نمٹانے کے اپنے تجربے کی بہ دولت عالمی اداروں کے ساتھ معاملات طے کر سکے گی یوں پاکستان اور اس کے عوام جن مسائل سے دوچار ہیں، ان سے نکلنے کی امید دکھائی دیتی ہے۔ اس پس منظر میں مریم نواز شریف کا مشورہ بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔