طالبان گروپوں کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے
طالبان کے محسود گروپ نے اگرچہ اپنی راہیں تو جدا کر لی ہیں تاہم اب اصل مرحلہ یہ ہوگا کہ آیا وہ ٹی ٹی پی کا کنٹرول۔۔۔
طالبان کی گروپوں میں تقسیم اندازوں سے قبل ضرور ہو سکتی ہے تاہم خلاف توقع ہر گز نہیں کیونکہ تحریک طالبان پاکستان نے جب سے منظم صورت اختیار کی ہے تب سے اس پر محسود قبیلہ اور وزیرستان کا ہی کنٹرول رہا ہے۔
چاہے وہ بیت اللہ محسود کا دور ہو یا حکیم اللہ محسود کا تاہم جب حکیم اللہ محسود کی ہلاکت ہوئی تو اس وقت طالبان کی صفوں میں تبدیلی کی ہوا چلی اور سوات سے افغانستان ہجرت کر جانے والے مولانا فضل اللہ کے گروپ نے اکثریت کی رائے رکھنے کے باعث ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھال لی۔
تاہم یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ اس وقت بھی مولانا فضل اللہ کو ٹی ٹی پی کی قیادت دیئے جانے کے حوالے سے کئی دنوں تک مشاورت کا سلسلہ جاری رہا اور محسود طالبان کی جانب سے کوشش رہی کہ وہ ٹی ٹی پی کا کنٹرول اپنے ہی ہاتھوں میں رکھیں لیکن شہریار محسود اور خان سید سجنا کے درمیان اس وقت سے اختلافات موجود تھے جس کے باعث ٹی ٹی پی کی قیادت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
البتہ سات ماہ کے بعد ہی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے اور تحریک طالبان میں شامل محسود قبیلہ نے اپنی راہیں الگ کر لی ہیں کیونکہ جن اختلافات کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی قیادت ان کے ہاتھوں سے نکلی تھی وہ اختلافات بدستور موجود ہیں اور طالبان کے درمیان لڑائی ، جھگڑے کا جو سلسلہ جاری رہا اس کے باعث جو ہوا وہ ہوتا نظر آرہا تھا۔
طالبان کے محسود گروپ نے اگرچہ اپنی راہیں تو جدا کر لی ہیں تاہم اب اصل مرحلہ یہ ہوگا کہ آیا وہ ٹی ٹی پی کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھوں میں رکھ پاتے ہیں یا نہیں کیونکہ جو اطلاعات اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ان سے تو یہی پتا لگ رہا ہے کہ مختلف ایجنسیوں اور علاقوں میں موجود طالبان کے گروپ مولانا فضل اللہ کی طرف مائل ہیں جس کا نقصان یقینی طور پر محسود طالبان کو ہوگا تاہم اس صورت حال کا فائدہ حکومت ضرور اٹھا سکتی ہے۔
اگرچہ اس وقت تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا طالبان کے ساتھ جو مذاکراتی عمل شرو ع ہوا تھا وہ جاری بھی ہے یا نہیں۔ تاہم اگر حکومت یہ عمل جاری رکھنا چاہتی ہے تو اس صورت میں اسے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محسود طالبان اور فضل اللہ گروپ دونوں کے ساتھ بیک وقت مذاکرات جاری رکھے گی یا پھر دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائیگا؟ بظاہر تو یہ نظر آرہا ہے کہ مولانا فضل اللہ گروپ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیا رنہیں جبکہ دوسری جانب شاید محسود طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ جب حکیم اللہ محسود زندہ تھے ۔
اس وقت بھی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کے قریب ہی تھے تاہم ایک ڈرون حملہ نے یہ سارا سلسلہ ختم کردیاتھا اور بعد میں بھی جو اطلاعات آتی رہی ہیں ان کے مطابق وزیرستان والے حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تاہم جہاں تک مولانا فضل اللہ گروپ کا تعلق ہے تو مذکورہ گروپ اس حوالے سے سخت موقف رکھتا ہے اور لگ نہیں رہا کہ فضل اللہ گروپ کے حکومت کے ساتھ مذاکرات ہو پائیں، اس صورت حال میں یقینی طور پر حکومت کو یہ سہولت ہو جائے گی کہ وہ بات چیت اور مذاکرات کے حامی اور مذاکرات کے مخالف گروپوں کو ان کے حالات کے مطابق ڈیل کر پائے گی جبکہ اب تک اس حوالے سے حکومت اور سکیورٹی اداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
چونکہ مرکزی حکومت بجٹ میں مصروف ہوگئی ہے اس لیے بجٹ کی مصروفیات کے ختم ہونے پر حکومت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی ضرور واضح کرنی چاہیے کیونکہ آپریشن اور مذاکرات اگر ساتھ ،ساتھ چلتے ہیں تو اس سے معاملات واضح نہیں ہوپائیں گے، اب بھی جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام(ف) سمیت کئی سیاسی ومذہبی پارٹیاں اسی بات پر مصر ہیں کہ مذاکراتی عمل کو ختم نہیں کرنا چاہیے اور قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہی اپنانی چاہیے۔
اس لیے اس موقع پر حکومت کو اپنی ساری پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جس میکنزم کے تحت وہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے تھی وہ موثر نہیں ہے تو اس صورت میں مولانا فضل الرحمٰن کے قبائلی جرگہ کا آپشن اب بھی حکومت کے پاس موجود ہے جس کے حوالے سے انہوں نے کئی مرتبہ خود حکومت کو پیشکش کی کہ ان کے جرگے کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور ان کی یہ پیشکش اب بھی برقرار ہے۔
اس لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمٰن کا آپشن بھی استعمال کرلی نا چاہیے تاکہ مذہبی جماعتوں کو اس حوالے سے جو تحفظات ہیں وہ ختم ہوسکیں بصورت دیگر اگر حکومت نے کاروائی شروع کی تو اسے عسکریت پسندوں کی جوابی کاروائیوں کے ساتھ مذہبی جماعتوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جس سے حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا اور ویسے بھی جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ موقف ہے کہ ان کا قبائلی جرگہ ، طالبان کے ساتھ قبائلی رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق بات چیت کرتے ہوئے مسائل کو حل کر سکتا ہے تو انھیں امن کا موقع نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی بھی پوزیشن عجیب سی ہے کیونکہ وہ ایک جانب تو حکومت کا حصہ بھی ہیں اور دوسری جانب وہ حکومت میںشامل بھی نہیں، مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم خان درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری چھ ماہ سے وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں تاہم انھیں محکموں کی الاٹمنٹ نہیں کی جا رہی، اس صورت حال کے خلاف مذکورہ دونوں وزراء نے اپریل کے مہینہ میں استعفے دے دیئے تھے تاہم ان استعفوں کو دیئے جانے کے دو ماہ گزرنے کے باوجود وزیراعظم نے یہ استعفے منظور نہیں کیے جبکہ دوسری جانب جے یو آئی بھی اب تک فیصلہ نہیں کر سکی کہ وہ اس صورت حال کے حوالے سے کیا لائن آف ایکشن اختیار کرنے جا رہی ہے، بظاہر تو ہونا ایسا ہی چاہیے تھا کہ جے یو آئی جسے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی حکومت کا حصہ نہیں بنایا جا رہا اور دوسری جانب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی جے یو آئی کا بتایا ہوا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔
حکومت سے اپنے راستے الگ کر لیتی تاہم اس تمام تر صورت حال کے باوجود جے یو آئی حکومت کا حصہ ہے اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کے پاس یقینی طور پر مضبوط دلائل اور منطق بھی موجود ہوگی تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے نئے اتحاد کے قیام کے حوالے سے جو پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے وہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوسکتی ہے، اگرچہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ اسی طرح کا اتحاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح کا اتحاد ایم ایم اے تھا اور جن قوتوں نے وہ اتحاد بنوایا تھا وہی قوتیں اب مذہبی جماعتوں کو دوبارہ اکھٹا کرتے ہوئے اسی طرح کی کوشش کر رہی ہیں تاہم پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔
اس لیے نہ تو ایم ایم اے کی طرز کا اتحاد دوبارہ بننے کے امکانات ہیں اور نہ ہی مذہبی جماعتیں دوبارہ اس طریقہ سے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوسکتی ہیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے کچھ تو غیب سے ظہور میں آئے گا جس کا مرکزی حکومت کو فائدہ ہوگا یا نقصان اس بارے میں آنے والے دنوں ہی میں صورت حال واضح ہو سکے گی۔
اوران سطور کی اشاعت تک پی کے 45 ایبٹ آباد کے ضمنی انتخابات کے معرکہ میں بھی بس گھنٹوں کا ہی وقت رہتا ہوگا اور اس معرکہ کی اہمیت جتنی تحریک انصاف اور صوبائی حکومت کے لیے ہے اس سے کہیں زیادہ گورنر سردار مہتاب اور مسلم لیگ (ن) کے لیے ہے کیونکہ مذکورہ نشست سردار مہتاب کی نشست ہے جہاں سے وہ ایک عرصہ سے الیکشن جیتتے آرہے ہیں اور اب کی با ر بھی انہوں نے گورنر بننے کے بعد یہ نشست خالی کی ہے جس پر وہ اپنے صاحبزادے شمعون یار کو لانے کی بجائے اپنے کزن سردار فرید کو لائے ہیں تاکہ وہ مذکورہ نشست ہر صورت برقراررکھیں جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف جس نے سوات میں (ن) لیگ کی جیتی ہوئی نشست ضمنی الیکشن میں اڑا لی تھی اس کی اس حوالے سے امیدیں بہت بڑھ چکی ہیں جن میں مزید اضافہ پنجاب میں حالیہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے جیتنے سے ہوا جس پر پی ٹی آئی کی نگہت انتصار کامیاب ہوئیں تاہم پی کے 45 کی عوام کیا سوچ رہی ہے کس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے اس کا پتا تو بہرکیف 5 جون ہی کو ہی چلے گا۔
چاہے وہ بیت اللہ محسود کا دور ہو یا حکیم اللہ محسود کا تاہم جب حکیم اللہ محسود کی ہلاکت ہوئی تو اس وقت طالبان کی صفوں میں تبدیلی کی ہوا چلی اور سوات سے افغانستان ہجرت کر جانے والے مولانا فضل اللہ کے گروپ نے اکثریت کی رائے رکھنے کے باعث ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھال لی۔
تاہم یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ اس وقت بھی مولانا فضل اللہ کو ٹی ٹی پی کی قیادت دیئے جانے کے حوالے سے کئی دنوں تک مشاورت کا سلسلہ جاری رہا اور محسود طالبان کی جانب سے کوشش رہی کہ وہ ٹی ٹی پی کا کنٹرول اپنے ہی ہاتھوں میں رکھیں لیکن شہریار محسود اور خان سید سجنا کے درمیان اس وقت سے اختلافات موجود تھے جس کے باعث ٹی ٹی پی کی قیادت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
البتہ سات ماہ کے بعد ہی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے اور تحریک طالبان میں شامل محسود قبیلہ نے اپنی راہیں الگ کر لی ہیں کیونکہ جن اختلافات کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی قیادت ان کے ہاتھوں سے نکلی تھی وہ اختلافات بدستور موجود ہیں اور طالبان کے درمیان لڑائی ، جھگڑے کا جو سلسلہ جاری رہا اس کے باعث جو ہوا وہ ہوتا نظر آرہا تھا۔
طالبان کے محسود گروپ نے اگرچہ اپنی راہیں تو جدا کر لی ہیں تاہم اب اصل مرحلہ یہ ہوگا کہ آیا وہ ٹی ٹی پی کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھوں میں رکھ پاتے ہیں یا نہیں کیونکہ جو اطلاعات اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ان سے تو یہی پتا لگ رہا ہے کہ مختلف ایجنسیوں اور علاقوں میں موجود طالبان کے گروپ مولانا فضل اللہ کی طرف مائل ہیں جس کا نقصان یقینی طور پر محسود طالبان کو ہوگا تاہم اس صورت حال کا فائدہ حکومت ضرور اٹھا سکتی ہے۔
اگرچہ اس وقت تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا طالبان کے ساتھ جو مذاکراتی عمل شرو ع ہوا تھا وہ جاری بھی ہے یا نہیں۔ تاہم اگر حکومت یہ عمل جاری رکھنا چاہتی ہے تو اس صورت میں اسے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محسود طالبان اور فضل اللہ گروپ دونوں کے ساتھ بیک وقت مذاکرات جاری رکھے گی یا پھر دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائیگا؟ بظاہر تو یہ نظر آرہا ہے کہ مولانا فضل اللہ گروپ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیا رنہیں جبکہ دوسری جانب شاید محسود طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ جب حکیم اللہ محسود زندہ تھے ۔
اس وقت بھی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کے قریب ہی تھے تاہم ایک ڈرون حملہ نے یہ سارا سلسلہ ختم کردیاتھا اور بعد میں بھی جو اطلاعات آتی رہی ہیں ان کے مطابق وزیرستان والے حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تاہم جہاں تک مولانا فضل اللہ گروپ کا تعلق ہے تو مذکورہ گروپ اس حوالے سے سخت موقف رکھتا ہے اور لگ نہیں رہا کہ فضل اللہ گروپ کے حکومت کے ساتھ مذاکرات ہو پائیں، اس صورت حال میں یقینی طور پر حکومت کو یہ سہولت ہو جائے گی کہ وہ بات چیت اور مذاکرات کے حامی اور مذاکرات کے مخالف گروپوں کو ان کے حالات کے مطابق ڈیل کر پائے گی جبکہ اب تک اس حوالے سے حکومت اور سکیورٹی اداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
چونکہ مرکزی حکومت بجٹ میں مصروف ہوگئی ہے اس لیے بجٹ کی مصروفیات کے ختم ہونے پر حکومت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی ضرور واضح کرنی چاہیے کیونکہ آپریشن اور مذاکرات اگر ساتھ ،ساتھ چلتے ہیں تو اس سے معاملات واضح نہیں ہوپائیں گے، اب بھی جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام(ف) سمیت کئی سیاسی ومذہبی پارٹیاں اسی بات پر مصر ہیں کہ مذاکراتی عمل کو ختم نہیں کرنا چاہیے اور قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہی اپنانی چاہیے۔
اس لیے اس موقع پر حکومت کو اپنی ساری پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جس میکنزم کے تحت وہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے تھی وہ موثر نہیں ہے تو اس صورت میں مولانا فضل الرحمٰن کے قبائلی جرگہ کا آپشن اب بھی حکومت کے پاس موجود ہے جس کے حوالے سے انہوں نے کئی مرتبہ خود حکومت کو پیشکش کی کہ ان کے جرگے کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور ان کی یہ پیشکش اب بھی برقرار ہے۔
اس لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمٰن کا آپشن بھی استعمال کرلی نا چاہیے تاکہ مذہبی جماعتوں کو اس حوالے سے جو تحفظات ہیں وہ ختم ہوسکیں بصورت دیگر اگر حکومت نے کاروائی شروع کی تو اسے عسکریت پسندوں کی جوابی کاروائیوں کے ساتھ مذہبی جماعتوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جس سے حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا اور ویسے بھی جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ موقف ہے کہ ان کا قبائلی جرگہ ، طالبان کے ساتھ قبائلی رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق بات چیت کرتے ہوئے مسائل کو حل کر سکتا ہے تو انھیں امن کا موقع نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی بھی پوزیشن عجیب سی ہے کیونکہ وہ ایک جانب تو حکومت کا حصہ بھی ہیں اور دوسری جانب وہ حکومت میںشامل بھی نہیں، مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم خان درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری چھ ماہ سے وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں تاہم انھیں محکموں کی الاٹمنٹ نہیں کی جا رہی، اس صورت حال کے خلاف مذکورہ دونوں وزراء نے اپریل کے مہینہ میں استعفے دے دیئے تھے تاہم ان استعفوں کو دیئے جانے کے دو ماہ گزرنے کے باوجود وزیراعظم نے یہ استعفے منظور نہیں کیے جبکہ دوسری جانب جے یو آئی بھی اب تک فیصلہ نہیں کر سکی کہ وہ اس صورت حال کے حوالے سے کیا لائن آف ایکشن اختیار کرنے جا رہی ہے، بظاہر تو ہونا ایسا ہی چاہیے تھا کہ جے یو آئی جسے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی حکومت کا حصہ نہیں بنایا جا رہا اور دوسری جانب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی جے یو آئی کا بتایا ہوا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔
حکومت سے اپنے راستے الگ کر لیتی تاہم اس تمام تر صورت حال کے باوجود جے یو آئی حکومت کا حصہ ہے اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کے پاس یقینی طور پر مضبوط دلائل اور منطق بھی موجود ہوگی تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے نئے اتحاد کے قیام کے حوالے سے جو پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے وہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوسکتی ہے، اگرچہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ اسی طرح کا اتحاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح کا اتحاد ایم ایم اے تھا اور جن قوتوں نے وہ اتحاد بنوایا تھا وہی قوتیں اب مذہبی جماعتوں کو دوبارہ اکھٹا کرتے ہوئے اسی طرح کی کوشش کر رہی ہیں تاہم پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔
اس لیے نہ تو ایم ایم اے کی طرز کا اتحاد دوبارہ بننے کے امکانات ہیں اور نہ ہی مذہبی جماعتیں دوبارہ اس طریقہ سے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوسکتی ہیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے کچھ تو غیب سے ظہور میں آئے گا جس کا مرکزی حکومت کو فائدہ ہوگا یا نقصان اس بارے میں آنے والے دنوں ہی میں صورت حال واضح ہو سکے گی۔
اوران سطور کی اشاعت تک پی کے 45 ایبٹ آباد کے ضمنی انتخابات کے معرکہ میں بھی بس گھنٹوں کا ہی وقت رہتا ہوگا اور اس معرکہ کی اہمیت جتنی تحریک انصاف اور صوبائی حکومت کے لیے ہے اس سے کہیں زیادہ گورنر سردار مہتاب اور مسلم لیگ (ن) کے لیے ہے کیونکہ مذکورہ نشست سردار مہتاب کی نشست ہے جہاں سے وہ ایک عرصہ سے الیکشن جیتتے آرہے ہیں اور اب کی با ر بھی انہوں نے گورنر بننے کے بعد یہ نشست خالی کی ہے جس پر وہ اپنے صاحبزادے شمعون یار کو لانے کی بجائے اپنے کزن سردار فرید کو لائے ہیں تاکہ وہ مذکورہ نشست ہر صورت برقراررکھیں جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف جس نے سوات میں (ن) لیگ کی جیتی ہوئی نشست ضمنی الیکشن میں اڑا لی تھی اس کی اس حوالے سے امیدیں بہت بڑھ چکی ہیں جن میں مزید اضافہ پنجاب میں حالیہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے جیتنے سے ہوا جس پر پی ٹی آئی کی نگہت انتصار کامیاب ہوئیں تاہم پی کے 45 کی عوام کیا سوچ رہی ہے کس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے اس کا پتا تو بہرکیف 5 جون ہی کو ہی چلے گا۔