Now or Never

 مطالبۂ پاکستان کی سب سے پہلی دستاویزکی اشاعت

مطالبۂ پاکستان کی سب سے پہلی دستاویزکی اشاعت ۔ فوٹو : فائل

کئی سیاسی شخصیات نے برصغیر میں ہندو مسلم مسئلہ کے حل کے لیے تجاویز پیش کیں لیکن یہ اعزاز تاریخ میں ہمیشہ چوہدری رحمت علی کو حاصل رہے گا کہ انہوں نے 1915ء میں جب کہ ان کی عمر فقط 18سال تھی اور FAکے طالب علم تھے اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کے تا سیسی اجالاس میں آزاد اسلامی ریاست کا نظریہ پیش کیا۔

پھر 28 جنوری 1933ء کو عیدالفطر کے مبارک دن پر Now Or Never نامی کتابچہ شائع کیا اور آزاد ریاست کے مطالبے کے ساتھ اس کا نام ''پاکستان'' تجویز کیا۔ برصغیر کے سیا سی مسائل کے حل کے لیے برطانیہ میں گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کیا جن میں برصغیر کی جملہ سیاسی قیادت کل ہند وفاق پر تقریباً متفق ہوگئی تھی اس دور میں جملہ سیاسی قیادت برطانیہ کی وفادار اور کانگرس سے وابستہ تھی۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی دعوے دار تھی۔

قائداعظم اس دور میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانے جاتے تھے اور بمبئی میں ان کی خدمات کے صلے میں جناح ہال بھی تعمیر کیا گیا۔ حضرت علامہ اقبال کا وہ ترانہ ہندی بھی ان کی سوچ اور فکر کا آئینہ دار تھا۔ اور اس پر وہ فخر کرتے تھے ''سارے جہاں سے اچھا ہندو ستان ہمارا۔''

ہندو ستانی قوم پرستی سے ہٹ کر کوئی بات کرتا تو اس کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور یہ ناقابل معافی جرم تھا۔ اس وقت چوہدری رحمت علی ان گول میز کانفرنسوں میں جملہ مسلم راہ نماؤں سے مل رہے تھے اور یہ التجا کر رہے تھے کہ وہ ہندوستان کے مسائل کے حل کے لیے ''کل ہند وفاق'' پر نہیں بلکہ علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کریں، لیکن کسی نے ان کی اس تجویز پر کان نہ دھرا اور اس کو نا قابل عمل کہا۔ چوہدری رحمت علی کے نزدیک اگر کل ہند وفاق کو تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس طرح برصغیر کی ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

بعد میں جب1937کے انتخابات میں ہندوؤں کی جماعت کانگرس کام یاب ہوئی اور اس کا اصل مکروہ چہرہ سامنے آیا تو چوہدری رحمت علی کے خدشات کی ہلکی سی جھلک جملہ مسلم قائدین نے دیکھ لی اور مسلمان سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر ملک انگریزوں سے آزاد ہوگیا تو ان سے کیا سلوک کیا جائے گا۔

سائمن کمیشن نے برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے کمیشن نے فروری، مارچ، اکتوبر 1928ء اور اپریل1929ء میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ کانگرس کمیشن کے مقاطعے کے حق میں جب کہ مسلم لیگ قائد اعظم کانگرس کے ساتھ تھی، سر شفیع گروپ کمیشن کے ساتھ تعاون کو پسند کرتا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ مئی 1930میں شائع ہوئی۔

برطانیہ میں لیبر جماعت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کے وزیراعظم ریمزے میکڈانلڈ کو محمد علی جناح نے خط لکھا اور ہندو ستان کے دستوری مسائل کے حل کے لیے سفارشات پیش کیں۔ آپ نے برطانوی حکومت کو مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ اگر سائمن کمیشن کی رپورٹ پر مسودہ آئین کی تیاری سے قبل ہندو ستانی سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ افہام و تفہیم ہوجائے۔

اس خط سے متاثر ہوکر حکومت برطانیہ نے ہندوستانی راہ نماؤوں کی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ 9جولائی 1930کو وائسرائے ہند نے اسمبلی و کونسل آف اسٹیٹ کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ آخری سیشن ہے۔ اس سال الیکشن ہوں گے۔ دوسری بات لندن میں گول میز کانفرنسوں کا انعقاد تھا، جس میں ہندوستان سے نمائندے بھیجے جائیں گے۔

پہلی گول میز کانفرنس 12نومبر 1930ء کو ہاؤس آف لارڈز کی رائل گیلری لندن میں منعقد ہوئی، جو وقفے وقفے سے 19جنوری 1931تک جاری رہی۔ کانفرنس کا افتتاح شاہ جارج پنجم نے اپنے خطاب سے کیا۔ اس کانفرنس میں ہندوستان سے 72مندوبین شریک ہوئے، جن میں فقط 16 مسلمان تھے۔ کانفرنس کے دوران محمد علی جوہر خالق حقیقی سے جاملے۔ کانگرس نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا، البتہ کانگرس کے موقف کو وزیر اعظم برطانیہ اور وزیرہند بیان کر رہے تھے۔ وہ نیشنل ازم کے نظریے کو بھی دہرا رہے تھے۔



اجلاس میں متفقہ طور پر ہندوستان میں وفاقی طرز کی حکومت اور ذمے دار حکومت کے قیام پر اتفاق ہوا۔ مسلم قیادت نے سرتیج بہادر سپرو کی اس تجویز سے اتفاق کرلیا۔ چودھری رحمت علی کے لیے یہ بات بے حد پریشانی کا موجب تھی کہ مسلم قائدین سیاسی صورت حال کا صحیح طور پر اندازہ نہیں کر رہے تھے ہندوستان کی مرکزی حکومت کے لیے دوسری گول میز کانفرنس 7 ستمبر تا یکم دسمبر 1931ء تک جاری رہی۔

اس کانفرنس میں گاندھی ''گاندھی ارون پیکٹ'' کے تحت شریک ہوئے۔ محمد علی جوہر کی جگہ ڈاکٹر محمد اقبال کو بلایا گیا تھا۔ گاندھی خود کو سارے ہندو ستان کا واحد نمائندہ قرار دے رہے تھے اور اپنی جماعت کانگرس کو بھی۔ اس کانفرنس میں ایک کمیٹی اقلیتوں کے مسائل کے لیے جب کہ دوسری وفاقی نظام کے بارے میں غور کرنے کے لیے بنائی گئی۔ مسلم وفد کے سربراہ سر آغا خان تھے۔ تیسری گول میز کانفرنس 17 نومبر 1932کو شروع ہوئی اور 24دسمبر 1932ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ کانگرس نے شرکت نہیں کی۔

قائداعظم دوسری تیسری کانفرنسوں میں شریک نہیں ہوئے۔ آپ برصغیر کے سیاسی حالات سے مایوس ہوکر لندن میں قیام اور پریکٹس کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کے نئے آئین پر تفصیلی بحث ہوئی اور اس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ہندو ستان کی جملہ اقلیتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا۔

ڈاکٹر محمد اقبال نے ہندوستان آکر فیصلوں کے بارے میں وضاحت فرمائی۔ 27 فروری 1933ء کو مسلم نیوز سروس کے نمائندے کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا میں امید کرتا ہوں کہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس آئیں کو جو گول میز کانفرنس میں وضع کیا گیا ہے، کام یاب بنانے کی کوشش کریں گی۔

ہندوستانیوں کے لیے یہی بہترین راستہ ہے، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو انتخاب کے لیے منظم کریں اور اپنی جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دیں۔

چوہدری رحمت علی فرماتے ہیں،''میں مسلمان راہ نماؤں کو خبردار کیا کہ ان کا یہ اقدام ہمارے مشن کی کام یابی کی تمام امیدیں خاک میں ملادے گا۔ میں نے مسلماں زعماء کی منت سماجت کی اور کہا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عائد کردہ ذمے داری کا احساس کریں اور ''وفاق ہند'' کے قیام کے مطالبہ سے دست برداری کا اعلان کریں اور اس کی جگہ ہندوستان کے شمال مغربی حصے میں ایک علیحدہ آزاد ملک کے قیام کا مطالبہ کریں، لیکن میری تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور کسی نے اس بات کی اہمیت کا احساس نہ کیا اور نہ اس کی حمایت میں کسی ردعمل کا اظہار کیا۔

مایوسی کے باوجود مجھے امید تھی کہ شاید ایسا سیاسی راہ نما جو کانفرنسوں میں شریک نہ ہو اس تجویز یعنی وفاق ہندوستان کے قیام کی مخالفت کرے گا، لیکن گول میز کانفرنس کے انعقاد تک کوئی بھی سامنے نہ آیا۔ میرے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ اس قدر مقدس فریضے کی ادائی کے لیے کوئی بھی سامنے نہیں آرہا۔''

ڈاکٹر عبدالرحیم، ایم اے۔ پی ایچ ڈی (لندن) سابق صدر ہائی کورٹ پشاور جو نومبر 1932ء میں پنی تعلیم مکمل کرکے انگلستان سے انڈیا آئے تھے، وہ گول میز کانفرنسوں کے سالوں میں انگلستان میں طالب علم تھے۔ ان کا تعلق خیبر یونین سے تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں:

قائداعظم محمد علی جناح اس زمانے میں لندن میں پریکٹس کر رہے تھے اور انہوں نے اپنی رہائش کے لیےBurk.Hampstead میں مکان خرید ا ہو تھا۔ ہم لوگوں نے ان سے ملاقات کے لیے ایک وفد تشکیل دیا۔ اس وفد (چودھری رحمت علی، محمد اسلم خان خٹک، ڈاکٹر عبدالرحیم وغیرہ) نے قائداعظم کی رہائش گاہ پر جاکر ان سے ملاقات کی۔ قائد اعظم نے وفد کا بڑی خوش دلی سے استقبال کیا اور وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آئے، لیکن جب وفد نے ان کی خدمات میں 'تقسیم کا نظریہ' پیش کیا تو ہنس پڑے۔ اور ہمیں یاد دلایا:

'' مسز سروجنی نائیڈو بلبل ہند نے اتحاد کے سفیر کے طور پر ہمیں دریافت کیا ہے اور بھر کچھ یو ں فرمایا کہ ''انگریز نے مختلف لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک ملک بنایا ہے اور تم اس کو توڑنا چاہتے ہو!'' ہم لوگ ان کی باتین سن کر وہاں سے واپس آگے۔ ان کی طرح دیگر ممتاز مسلمان راہ نماؤں اور انگریز سیاست دانوں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا۔''

محمد اسلم خان خٹک نے راقم الحروف کو بتایا

''قائداعظم ان دنوں لندن میں پریکٹس کر رہے تھے اور لندن میں ٹھہرے ہوئے تھے ہمارا ایک وفد ان سے ملنے گیا جس میں چودھری رحمت علی ؒ بھی تھے۔ اس وفد نے قائداعظم کی خدمت میں 'تقسیم ملک' کی تجویز پیش کی، جس کو پڑھ کر انہوں نے ہمیں خوب ڈانٹا اور دبایا قائداعظم فر مانے لگے:

''انگریز نے اپنی ذہانت سے ایک ہی نیک کام کیا کہ اس نے مختلف اقوام کو اکٹھے کرکے ایک ملک بنایا ہے اور تم اس کو توڑنے پر لگے ہوئی ہو۔ میں اس تجویز کو قطعاً نہیں مانتا۔ میں prince of peace'' ہوں۔ اور پھر فرمایا،''keep away from it, Keep away from it''(یعنی اس سے دور رہو، اس سے دور رہو)

ڈاکٹر عبدالرحیم اور اسلم خان خٹک کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت چودھری رحمت علی اور ان کے ساتھیوں نے قائداعظم کے ساتھ جو ملاقات کی تھی، اس کا مقصد یہی تھا کہ قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی راہ نما کی حیثیت سے 'تقسیم ہند' کا نظریہ پیش کریں، لیکن انہیں قائداعظم کا جواب سن کر مایوسی ہوئی۔

نام ور شاعر ادیب اور صحافی رئیس امروہوی مرحوم، چودھری خلیق الزمان ناظم اعلیٰ کنونشن مسلم لیگ کی کتاب ''پاتھ وے ٹو پاکستان'' کے حوالے سے ان کا یہ بیان تحریر کرتے ہیں:

''ایک روز لندن میں چودھری رحمت علی، جنہوں نے پاکستان کی اصطلاح وضع کی تھی مجھے چائے پر مدعو کیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی اور اس پہلی ملاقات ہی میں اس طویل القامت' شان دار اور خوش وضع جوان نے مجھے متاثر کردیا۔ جب پاکستان کے موضوع پر گفتگو شروع ہوئی تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس شخص نے نہ صرف پاکستان کی موضوع پر گہرا مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ اس تحریک کی کام یابی کا بھی پکا یقین رکھتا ہے۔

چودھری خلیق الزماں کے بیان کے مطابق' رحمت علی مرحوم نے پہلی گول میز کانفرنس کے موقع پر ''تقسیم ہند'' مسلم لیگی راہ نماؤں کے سامنے رکھی تھی، لیکن اس وقت کسی نے بھی اس کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔ چودھری صاحب (چودھری خلیق الزماں) نے اس مر پر اظہارافسوس کرنے کے بعد کہ مسلم ہند نے اس قابل تخلیقی ذہن رکنے والے نوجوان کی قدر نہ کی، اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ پہلے پہل پاکستان کا لفظ ان کی سمجھ میں نہ آیا تھا لیکن چودھری رحمت علی اس لفظ کی معنویت پر اصرار کرتے رہے (اور تاریخ نے ثابت کردیا کہ اس لفظ کے بارے میں مرحوم کا وجدان اور ایقان کتنا صحیح تھا۔''



پاکستان کے سابق وزیرخزانہ، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر: یو این او میں پاکستان کے سابق سفیر یونی نسٹ پارٹی کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری، دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مسلم وفد کے سیکرٹری، سید امجد علی نے 22 مئی 1996ء کو اپنی رہائش گاہ ''آشیا نہ'' واقع گلبرگ لاہور میں اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس زمانے میں گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے انڈیا سے بڑے بڑے راہ نما وفد کی صورت میں لندن جاتے تھے۔

میں دو مرتبہ مسلم وفد کے ساتھ سیکریٹری کے طور پر دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے لندن گیا تھا۔ اس وقت انڈیا کی سب سے بری جماعت کانگریس تھی۔ گو اس وقت مسلم لیگ اتنی بڑی جماعت نہیں تھی لیکن کانگرس کے مقابلے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ہی تھی۔ اس لیے برطانوی حکومت اسے اہمیت دیتی تھی۔ مجھے دونوں گول میز کانفرنسوں (یعنی دوسری اور تیسری) کے موقع پر چودھری رحمت علی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ چودھری رحمت علی کیمبرج کے طالب علم تھے۔

اس وقت وہ ہر اس مسلمان لیڈر سے ملتے تھے جو لندن میں موجود ہوتا تھا اور پاکستان اسکیم کو سیاسی نقطہ نگاہ سے بیان کرتے تھے۔ وہ مسلمان راہ نماؤں سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ پاکستان کا مطلب انگریز کے سامنے پیش کریں اور ہندوؤں کے سامنے پاکستان کے حصول کا کھل کر اظہار کریں۔ چوںکہ گول میز کانفرنسوں میں انڈیا کے سیاسی مسائل پر بات چل رہی تھی اس لیے اس وقت مسلم وفد کا کا کوئی بھی رکن ''پاکستان'' جیسے متنازع موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔

غالباً تیسری راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دنوں میں چودھری رحمت علی نے ''ناؤ آر نیور'' کے نام سے ایک چھوٹا سا پمفلٹ تقسیم کیا تھا، جس میں پاکستان سے متعلق انہوں نے اپنا نقطۂ نظر اور موقف کھل کر بیان کیا تھا۔ ا س مضمون کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک تصوراتی کہانی ہے۔

چوہدری رحمت علی جملہ مسلم قائدین کو اپنے موقف سے آگاہ کرچکے تھے۔ آپ اس بات پر پریشان تھے کہ مسلمان راہ نما بلاسوچے سمجھے ہندوستانیت کا شکار ہوچکے ہیں۔

ناؤ آر نیور کی اشاعت

جب خدا تعالیٰ کسی قوم کو نوازنا چاہتا ہے اور اس کو پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچانا چاہتا ہے تو وہ اس امر کو پایۂ تکمیل پر پہنچانے کے لیے اسباب مہیا کرتا ہے اور ان اسباب کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم منشائے خداوندی کے مطابق حرکت میں آتی ہے اور قانون قدرت کے مطابق اس قوم کو حرکت میں لانے والا کوئی نہ کوئی فرد ضرور وجود میں آتا ہے۔ ایسا ہی ایک دیدہ ور اور بطل حریت چودھری رحمت علی کے روپ میں پید ہوا جس نے برصغیر کی مسلم قوم کو انگریز کی محکومیت اور ہندو کی بالا دستی سے نجات دلانے کے لیے پاکستان کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔

چودھری رحمت علی 1915ء میں ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں ہر مشتمل ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کا ''نظریہ پیش '' کر چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے اس نظریہ کو 1933ء میں ''پاکستان'' کا نام دیا اور اس ''نظریہ پاکستان'' کو اپنے پمفلٹ ناؤ آر نیور میں متعارف کرایا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب انگلستان میں گول میز کانفرنسیں ہوئی تھیں۔ اور تیسری گول میز کانفرنس میں ''کل ہندو وفاق'' کے خطوط پر آئین کی منظور کا اعلان کردیا گیا تھا۔

اس سے قبل چودھری صاحب گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مسلم راہ نماؤں سے مل کر انہیں اپنا نقطہ نظر سمجھانے کی کوشش بھی کر چکے تھے اور اس بت پر انتہائی دل گرفتہ تھے کہ مسلمان لیڈر بلاسوچے سمجھے ہندو وطنیت کا شکار ہونے پر آمادہ ہیں۔

محمد حسین زبیری تحریر کرتے ہیں

''چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسوں کے مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان پر یہ بات واضح کیا کہ انڈین فیڈریشن قبول کرلینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہوجائے گی اور آپ اللہ اور رسولﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں۔ چودھری صاحب کی یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور مسلم مندوبین میں احسان بیدار نہ ہوا بلکہ اس تجویز کی مخالفت شروع کردی گئی ۔ اور سب نے آل انڈیا فیڈریشن کو قبول کرلیا۔''

چودھری صاحب نے ناؤ آر نیور (اب یا کبھی نہیں) 1931-32ء میں تیار کرلیا تھا اور اس کو نمائندہ حیثیت دینے کے لیے اس پر محمد اسلم خان خٹک صدر خیبر یونین' عنایت اللہ خان آف چار سدہ 'جنرل سیکرٹری خیبر یونین اور صاحبزادہ شیخ محمد صدیق کے دستخط بھی حاصل کرلیے گئے تھے۔ ناؤ آر نیور پر دستخط کرنے والوں میں چودھری کے دستخط سرفہرست تھے۔

چودھری رحمت علی صاحب نے اس پمفلٹ کی باقاعدہ اشاعت 28 جنوری 1933ء کو عیدالفطر کے دن اپنے گھر کے پتے -3ہمبر سٹون روڈ کیمپرج'انگلستان سے کی تھی۔ اس پمفلٹ کی اشاعت کے وقت پمفلٹ کے ساتھ چودھری صاحب نے اپنے دستخطوں سے ایک الگ خط بھی لگایا تھا۔ اس خط میں ان کی طرف سے مسلمانوں کے لیے الگ خطہ ارضی ''پاکستان'' کے حصول کے لیے اپیل کی گئی تھی۔

چودھری صاحب نے ناؤ آر نیور1931-32میں شائع کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب حالات و واقعات سے ملتا ہے کہ چودھری صاحب یہ چاہتے تھے کہ گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مسلم راہ نما ہی ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں پر مبنی ایک علیحدہ وفاق کا مطالبہ کریں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اکثر مسلمان راہ نماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش بھی کی۔


لیکن جب چودھری صاحب مسلمان راہ نماؤں کی طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے پاکستان کے حصول کے لیے خود عملی جدوجہد کرنے کا عزم کرلیا۔ یہ مشیت ایزدی تھی کہ ''مطالبہ پاکستان'' کا فریضہ چودھری رحمت علی صاحب کے ہاتھوں سے ہی سرانجام پانا تھا اور پاکستان کی بنیاد رکھنا چودھری رحمت علی کا مقدر بن چکا تھا۔

ناؤ آر نیور چودھری صاحب کی ایک ایسی نادر تخلیق ہے جو ''پاکستان'' کے قیام کے سلسلے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ 28 جنوری 1933ء کو چودھری رحمت علی نے اس پاکستان کی بنیاد رکھ دی جس پر ابھی چودہ سال چھے ماہ اور سولہ دن بعد پاکستان کی عمارت تعمیر ہو نا تھی۔

دنیا کی تاریخ میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ پلٹ دیا۔ روسو کی کتاب 'Social Cotract'' انقلاب فرانس برپا کرنے کے اسباب میں شمار ہوتی ہے۔ تھامس پین کا کتابچہ ''common sense''امریکا کی آزادی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ مسز ہیرٹ ہیمپر اسٹو کی کتاب''uncle Tom'Cabin'' امریکا میں غلامی کے خاتمے کا سبب بنی تھی اور ہٹلر کی خودنوشت"mein Kempf"دوسری جنگ عظیم کا بعث سمجھی جاتی ہے۔

برصغیر کی تاریخ میں یہی درجہ چودھری رحمت علی کے مختصر کتابچے ''Now or Never'' کا ہے جو 1933ء میں شائع ہو ا اور چند ہی برسوں میں ہندوستان کے ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ یہ کتابچہ نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن پاکستان کے قیام کا بعث بن گیا بلکہ اسے ایک خوب صورت اور بامعنی نام بھی عطا کردیا گیا۔

پاکستان' ناقابل عمل تجویز

''مطالبہ پاکستان'' ایک آزاد خود مختار وطن کا مطالبہ تھا ۔ جس کا ہندوستان کے وفاق یا برطانوی حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چودھری رحمت علی نے اس مطالبہ کو تیسری گول میز کانفرنس کیا اختتام پر کیا تھا ۔ اس وقت برصغیر کے اکثر مسلم اور غیر مسلم نمائندے ابھی لندن میں موجود تھے ۔ جو گول میز کانفرنس کے فیصلوں کے نتیجے میں بنائی جانے والی مختلف کمیٹیوں میں شرکت کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے۔

چودھری صاحب نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے 28 جنوری 1933ء کو اپنا پمفلٹ ـ''Now or Never'' (اب یا کبھی نہیں) جاری کیا اور اس کو برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان اور ہندوستانی مسلم و غیرمسلم نمائندگان میں تقسیم کیا۔

''اس پمفلٹ میں واضح طور مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن ''پاکستان'' کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ان علاقوں کی نشان دہی کردی تھی جو پاکستان میں شامل ہوں گے۔ اس لیے ا س منصوبے پر انگریز حکم رانوں' ہندو راہ نماؤں، جو تقسیم ہندوستان کے مخالف تھے اور ان مسلمان زعماء کا ردعمل فطری بات تھی جو مسلمانوں کے مسائل کا حل وفاق نظام کو قرار دے رہے تھے۔

انگریز حکم رانوں نے فوری ردعمل کا اظہار کیا اور بعض مسلمان راہ نماؤں کو جو گول میز کانفرنس میں شرکت کر رہے تھے برطانوی پارلیمینٹ کی جائنٹ سلیکٹ کمیٹی نے وضاحت کے لیے طلب کرلیا۔ ان راہ نماؤوں سے ''پاکستان منصوبے'' کے بارے میں تفصیل سے دریافت کیا گیا۔''

جائنٹ سلیکٹ کمیٹی کا اجلاس یکم اگست 1933ء کو منعقد ہوا، جس میں مسلم راہ نماؤں مسٹر ظفر اللہ خان'عبداللہ یوسف علی اور ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین سے '' پاکستان'' سے متعلق موقف بیان کرنے کو کہا گیا۔

ذیل میں جو سوالات و جوابات نقل کیے گئے ہیں وہ ان "Minutus of Evidence" (شہادتوں کی روداد) میں درج ہیں جو ہندوستان کی آئینی اصلاحات کے بارے میں مشترکہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوئیں۔ ہندوستان کی آئینی اصلاحات جلد دوم صفحہ 1406پر اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دستاویز تاج برطانیہ کے اسٹیشنری آفس لندن نے 1934ء میں شائع کی۔

سوالات و جوابات

سر ریجنالڈ کریڈاک(Sir reginald Craddock)

''کیا کوئی مندوب یا مبصر میرے اس سوال کا جواب دینا پسند کرے گا اور مجھے یہ بتائے گا کہ آیا ''پاکستان'' کے نام سے صوبوں کا ایک فیڈریشن قائم کرنے کی کوئی تجویز موجود ہے؟

جواب نمبر9598

عبداللہ یوسف علی' سی بی ایل۔

جہاں تک مجھے علم ہے یہ محض ایک طالب علم کی تجویز ہے۔ اسے ذمہ دار افراد نے پیش نہیں کیا ہے۔

سر ریجنالڈ کریڈاک

ذمے دار افراد نے اسے پیش نہیں کیا، لیکن جیسا کہ آپ لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ ہندوستان میں حالات و واقعات کی رفتار ہمیشہ تیز ہوا کرتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہی طالب علم جب آگے بڑھیں تو مذکورہ تجویز باقاعدہ طور پیش کی جائے۔ بہرحال وہ تجویز لوگوں کے ذہنوں میں یقیناً موجود ہوگی۔

ظفر اللہ خان

سوال کیا ہے؟

سر ریجنالڈ کریڈاک

میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا فاضل مبصرین اس تجویز سے باخبر ہیں جو اس بارے میں وضع کی گئی ہے اور جسے عام طور پر ''پاکستان'' کہا جاتا ہے۔

ظفر اللہ خان

ابھی ابھی ہم نے جواب دیا ہے کہ یہ ایک طالب علم کی تجویز ہے اور اس میں کوئی بات نہیں مزید سوال کیا ہے۔

سوال نمبر9599

مسٹر آئزک فٹ (Mr. Isaac Foot)

پاکستان کیا ہے؟

جواب نمبر9599

ظفر اللہ خان

جہاں تک ہم نے غور کیا ہے ہم نے اسے بے کار اور ناقابل عمل پایا ہے۔

سوال نمبر9600

سر رینجالڈ کریڈاک

بعض مسلمان صوبوں کو پاکستان کے نام سے متحد کرنے کی تجویز کے متعلق مجھے عرض داشتیں موصول ہوئی ہیں۔

جواب نمبر9600

ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین

غالباً یہ کہنا کافی ہوگا کہ کسی نمائندہ فرد یا انجمن نے اب تک ایسی کسی تجویز پر غور نہیں کیا ہے۔

 

جائنٹ سلیکٹ کمیٹی کی کارروائی سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند کے نمائندگان نے '' پاکستان'' سے لاتعلقی کے علاوہ اسے ''بے کار اور ناقابل عمل'' بھی قرار دیا۔

1933ء میں انگریز کے سامنے ''پاکستان'' کو بے کار اور ناقابل عمل کہنے والے سرظفر اللہ خان 1947ء میں اسی پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ بنے۔ سر ظفر اللہ خان اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:''وہ رحمت علی مرحوم کو قریب سے جانتے تھے لیکن اس زمانے میں جناح صاحب بھی ہندوستانی اتحاد ہی چاہتے تھے۔ اور حتٰی کہ اقبال مرحوم بھی مسلمانوں کو ایک جگہ صرف گروپ کی شکل میں ہندو ستانی وفاق کے اندر مجتمع دیکھنا چاہتے تھے، جب کہ چودھری صاحب پاکستان کو ایک آزاد اور صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ دیکھنا چاہتے تھے۔

اقبال اور پاکستان

خطبہ الہ آباد میں اقبال نے ایک متحدہ ہندوستانی صوبے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ رحمت علی مکمل آزاد خودمختار اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اقبال کی تجویز میں کشمیر کا نام تک شامل نہیں۔ یہی حال مشرقی بنگال کے بارے میں تھا۔
Load Next Story