سندھ کے گیارہ میگا پراجیکٹس کی تکمیل مشکوک ہوگئی
اگر ان 11 منصوبوں کے لیے فنڈز مختص نہ کیے گئے تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا کیونکہ ان منصوبوں پر پہلے ہی اربوں۔۔۔
متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے قائد الطاف حسین کی گرفتاری کی افواہوں پر منگل کو کراچی سمیت سندھ کے بیشتر بڑے شہروں میں کاروبار زندگی اچانک معطل ہوگیا۔
لوگ گھروں کی طرف بھاگنے لگے ۔ مارکیٹیں بند کردی گئیں۔ افرا تفری کے باعث کراچی اور حیدر آباد میں شدید ٹریفک جام ہوگیا۔ ایم کیو ایم کے کارکنان اور حامی اشتعال میں سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے لوگوں سے کاروبار بند کرنے کی اپیل کی۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور مختلف علاقوںمیں بسوں اور دیگر گاڑیوں کو نذر آتش کردیا گیا ۔ کراچی اور حیدرآباد میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نظر نہیں آئے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں حکومت کی کوئی رٹ موجود نہیں۔ اس صورت حال سے سندھ حکومت کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اگر الطاف حسین لندن میں گرفتار ہوتے ہیں تو کراچی، حیدر آباد اور دیگر بڑے شہروں میں کیا صورت حال بن سکتی ہے۔ حکومت کو اس ہنگامی صورت حال کے پیش نظر پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے تھی۔
برطانوی حکومت نے کراچی میں اپنا قونصل خانہ عارضی طور پر بند کردیا تھا اور اپنے عملے کو واپس برطانیہ بلا لیا تھا، تاہم ہماری حکومت کی طرف سے پہلے سے تیاری اور منصوبہ بندی نظر نہیں آئی۔ اس صورت حال کے بعد وفاقی اور سندھ حکومت کو یہ اندازہ لگا لینا چاہئے کہ یہ معاملہ کس قدر حساس ہے۔
سندھ حکومت اس وقت اپنے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے لیکن اسے اچانک غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) اور اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی ) کے اجلاسوں میں شرکت کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اسلام آباد سے کراچی واپس آئے تو انہوں نے یہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو یہ پیغام دیا کہ کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام وفاقی حکومت سے ناراض ہے۔
اس ناراضی کا سبب بتاتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2014-15 کے پبلک فیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ( پی ایف ڈی پی) میں سے سندھ کے 11 بڑے منصوبوں کو نکال دیا ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران وفاقی حکومت نے ان منصوبوں کے لیے رقم مختص کی تھی لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ان منصوبوں کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ ان میگا پروجیکٹس میں تھر کول پروجیکٹ، کراچی کا گریٹر واٹر سپلائی پروجیکٹ ( کے۔ 4)، کراچی کا سیوریج کا منصوبہ ( ایس۔ 3)، لیاری ایکسپریس وے، کراچی سرکلر ریلوے اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے اگر وفاق نے رقم نہ دی تو اب تک ان منصوبوں پر ہونے والی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی۔ وفاقی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ کے اس سخت ردعمل کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اگلے روز اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے صحافیوں کو ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سندھ کے 11 بڑے منصوبوں کے لیے آئندہ سال کے ترقیاتی پروگرام میں فنڈز مختص کیے گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک باضابطہ طور پر دستاویزات میں ان فنڈز کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ آئندہ ایک دو روز میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کراچی کا دورہ کر سکتے ہیں۔
اس دورے میں ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ سندھ کے 11 میگا پروجیکٹس کو نظرانداز کیوں کیا گیا ہے۔ اگر ان 11 منصوبوں کے لیے فنڈز مختص نہ کیے گئے تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا کیونکہ ان منصوبوں پر پہلے ہی اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس بات کے پیش نظر سندھ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان منصوبوں میں وہ خود سرمایہ کاری جاری رکھے گی تاکہ آہستہ آہستہ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس مرتبہ سندھ کے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ سازی کے کام کو خود مانیٹر کر رہے ہیں تاکہ بجٹ نہ صرف پارٹی کے منشور کے مطابق ہو بلکہ حقیقت پسندانہ اور قابل عمل بھی ہو۔ بلاول ہاؤس میں ارکان سندھ اسمبلی کا ایک اہم اجلاس آصف علی زرداری کی صدارت میں منعقد ہوا ،جس میں بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی شریک تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے ارکان سندھ اسمبلی کو کھل کر بات کرنے کا موقع فراہم کیا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ان کی پارٹی کے منتخب نمائندے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ ارکان سندھ اسمبلی نے وزراء اور بیوروکریسی کے خلاف شکایات کیں اور بتایا کہ یہ لوگ منتخب نمائندوں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں اور ان کی تجاویز کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے وزراء کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں اور عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کی توقعات پر پورا اتریں ۔ انہوں نے حکومت سندھ کو بھی ہدایت کی کہ وہ عوام دوست بجٹ بنائے اور مالیاتی وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑ دیا جائے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو اور انہیں روزگار کے مواقع میسر آئیں۔
لوگ گھروں کی طرف بھاگنے لگے ۔ مارکیٹیں بند کردی گئیں۔ افرا تفری کے باعث کراچی اور حیدر آباد میں شدید ٹریفک جام ہوگیا۔ ایم کیو ایم کے کارکنان اور حامی اشتعال میں سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے لوگوں سے کاروبار بند کرنے کی اپیل کی۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور مختلف علاقوںمیں بسوں اور دیگر گاڑیوں کو نذر آتش کردیا گیا ۔ کراچی اور حیدرآباد میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نظر نہیں آئے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں حکومت کی کوئی رٹ موجود نہیں۔ اس صورت حال سے سندھ حکومت کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اگر الطاف حسین لندن میں گرفتار ہوتے ہیں تو کراچی، حیدر آباد اور دیگر بڑے شہروں میں کیا صورت حال بن سکتی ہے۔ حکومت کو اس ہنگامی صورت حال کے پیش نظر پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے تھی۔
برطانوی حکومت نے کراچی میں اپنا قونصل خانہ عارضی طور پر بند کردیا تھا اور اپنے عملے کو واپس برطانیہ بلا لیا تھا، تاہم ہماری حکومت کی طرف سے پہلے سے تیاری اور منصوبہ بندی نظر نہیں آئی۔ اس صورت حال کے بعد وفاقی اور سندھ حکومت کو یہ اندازہ لگا لینا چاہئے کہ یہ معاملہ کس قدر حساس ہے۔
سندھ حکومت اس وقت اپنے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے لیکن اسے اچانک غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) اور اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی ) کے اجلاسوں میں شرکت کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اسلام آباد سے کراچی واپس آئے تو انہوں نے یہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو یہ پیغام دیا کہ کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام وفاقی حکومت سے ناراض ہے۔
اس ناراضی کا سبب بتاتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2014-15 کے پبلک فیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ( پی ایف ڈی پی) میں سے سندھ کے 11 بڑے منصوبوں کو نکال دیا ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران وفاقی حکومت نے ان منصوبوں کے لیے رقم مختص کی تھی لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ان منصوبوں کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ ان میگا پروجیکٹس میں تھر کول پروجیکٹ، کراچی کا گریٹر واٹر سپلائی پروجیکٹ ( کے۔ 4)، کراچی کا سیوریج کا منصوبہ ( ایس۔ 3)، لیاری ایکسپریس وے، کراچی سرکلر ریلوے اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے اگر وفاق نے رقم نہ دی تو اب تک ان منصوبوں پر ہونے والی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی۔ وفاقی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ کے اس سخت ردعمل کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اگلے روز اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے صحافیوں کو ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سندھ کے 11 بڑے منصوبوں کے لیے آئندہ سال کے ترقیاتی پروگرام میں فنڈز مختص کیے گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک باضابطہ طور پر دستاویزات میں ان فنڈز کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ آئندہ ایک دو روز میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کراچی کا دورہ کر سکتے ہیں۔
اس دورے میں ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ سندھ کے 11 میگا پروجیکٹس کو نظرانداز کیوں کیا گیا ہے۔ اگر ان 11 منصوبوں کے لیے فنڈز مختص نہ کیے گئے تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا کیونکہ ان منصوبوں پر پہلے ہی اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس بات کے پیش نظر سندھ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان منصوبوں میں وہ خود سرمایہ کاری جاری رکھے گی تاکہ آہستہ آہستہ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس مرتبہ سندھ کے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ سازی کے کام کو خود مانیٹر کر رہے ہیں تاکہ بجٹ نہ صرف پارٹی کے منشور کے مطابق ہو بلکہ حقیقت پسندانہ اور قابل عمل بھی ہو۔ بلاول ہاؤس میں ارکان سندھ اسمبلی کا ایک اہم اجلاس آصف علی زرداری کی صدارت میں منعقد ہوا ،جس میں بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی شریک تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے ارکان سندھ اسمبلی کو کھل کر بات کرنے کا موقع فراہم کیا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ان کی پارٹی کے منتخب نمائندے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ ارکان سندھ اسمبلی نے وزراء اور بیوروکریسی کے خلاف شکایات کیں اور بتایا کہ یہ لوگ منتخب نمائندوں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں اور ان کی تجاویز کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے وزراء کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں اور عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کی توقعات پر پورا اتریں ۔ انہوں نے حکومت سندھ کو بھی ہدایت کی کہ وہ عوام دوست بجٹ بنائے اور مالیاتی وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑ دیا جائے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو اور انہیں روزگار کے مواقع میسر آئیں۔