بڑھتی غربت میں ٹیکسوں کا بوجھ
ملک میں خودکشیاں ہو رہی ہیں، بے روزگار جرائم پر مجبور کر دیے گئے ہیں
ملک کے 76 سالوں میں وہ الیکشن منعقد ہونے جا رہے ہیں جب ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری انتہا پر پہنچانے کا ریکارڈ قائم کر دیا گیا ہے۔
ملک میں خودکشیاں ہو رہی ہیں، بے روزگار جرائم پر مجبور کر دیے گئے ہیں اور ملک میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم کرنے میں نگراں حکومتوں نے ماضی کی تمام حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس پر بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نگراں حکومت اپنے آنے کے بعد سے مسلسل مہنگائی بڑھا رہی ہے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے پر اضافہ کر رہی ہے جس پر لوگ اتحادی حکومت کو ہی نگرانوں سے بہتر سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں حالانکہ سابق اتحادی حکومت نے بھی مہنگائی بڑھانے اور جھوٹے وعدوں میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔
نگرانوں کی حکومت کو عوام سے ووٹ لینے ہیں نہ انھیں عوام کی مشکلات کا احساس ہے اس لیے نگراں حکومتوں کا کوئی وزیر مہنگائی اور بے روزگاری پر بات کرتا ہے نہ انھیں عوام کی پریشانیوں کا احساس ہے اور نہ ہی عوام کو تسلی دینیوالا کوئی ہے، نہ کسی کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ عوام کو جب گیس مل رہی ہے نہ بجلی مگر ان کے نرخ کیوں مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں اور گیس و بجلی سے محروم صارفین کے بل کیوں زیادہ آ رہے ہیں؟
بجلی صارفین کو توقع تھی کہ موسم سرما میں بجلی کم استعمال ہوگی تو بجلی کے بل کم آئیں گے مگر گرمیوں میں استعمال کی گئی بجلی کے بلوں میں ہر ماہ پانچ روپے فی یونٹ مزید بڑھا کر سردیوں میں گرمی کے اضافی بل بھجوائے جا رہے ہیں اور صارفین کو سردیوں میں بھی گرمیوں جیسے بل بھیجے جا رہے ہیں اور مزید ظلم کی انتہا سوئی گیس کمپنیوں نے کردی ہے جو گھروں کو گیس فراہم نہیں کر رہی ہیں۔
سابق اتحادی حکومت کے وزیر مملکت برائے توانائی عوام کو تسلی دینے کے اعلانات اور گیس فراہمی کا جھوٹا ٹائم ٹیبل تو دے دیتے تھے جس پر عمل نہیں ہوتا تھا مگر نگراں حکومت نے سردیوں میں عوام کو درپیش گیس و بجلی کے بحران پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ملک میں سردیوں میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جس سے لوگ گرمیوں کی طرح متاثر نہیں ہو رہے مگر سوئی گیس کی قلت نے ملک بھر میں عوام کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
سوئی گیس کمپنیوں کے پاس گیس فراہمی کا کوئی اصول ہے نہ شیڈول۔ کسی علاقے میں گیس کم جاتی ہے اور کسی علاقے میں گیس آتی ہی نہیں۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں لوگ گیس سیلنڈر رکھنے پر مجبور ہیں جو خطرناک بھی ہیں جن کے پھٹنے کی خبریں اور جانی نقصان کی تفصیلات میڈیا میں مسلسل آ رہی ہیں جب کہ سیلنڈروں کے استعمال سے صارفین پر کئی ہزار روپے ماہانہ کا اضافی بوجھ بڑھا ہے۔
سیلنڈروں کی گیس بھی مسلسل مہنگی کی جا رہی ہے جس سے لوگوں کے گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں مگر نگراں حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ نگراں پٹرولیم مصنوعات میں بھی عوام کو وہ ریلیف نہیں دے رہے جو عالمی سطح پر نرخ کم ہونے پر ملنا چاہیے۔
سردیوں میں یہ حالت ہے کہ ملک کے شہروں میں بھی اس سال سخت سردی پڑ رہی ہے۔ سردیوں میں لوگوں کے لیے گیزروں اور ہیٹروں کا استعمال تو خواب بن چکا ہے۔
گھروں میں کھانے پکانے کے لیے گیس میسر نہیں مگر عوام کو لوٹنے کا بہیمانہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جنھوں نے مظالم اور عوام کو لوٹنے میں بجلی کمپنیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر احتجاج ہو رہا ہے مگر کوئی عدالت حرکت میں نہیں آ رہی کہ ملک کے عوام پر کیا گزر رہی ہے۔
نگراں حکومت صرف عوام کی پریشانیاں بڑھا رہی ہے مگر گیس اور بجلی کمپنیوں کے جبر سے عوام کو کوئی بھی نہیں بچا رہا۔ کوئی جواب طلبی نہیں کر رہا کہ نرخ مسلسل کیوں بڑھائے جا رہے ہیں؟ گیس اور بجلی صارفین کے اپنے پیسوں سے خریدے گئے میٹروں پر جبری کرایہ کیوں وصول کیا جا رہا ہے؟ گیس نرخ اور ان پر ٹیکس بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں جن کے خلاف کہیں شنوائی نہیں ہو رہی اور صارفین کو ہر حالت میں مہنگے بلز بھرنے پڑ رہے ہیں۔
سابق پی ٹی آئی حکومت مسلسل عوام پر الزام لگاتی تھی کہ وہ ٹیکس نہیں دے رہے جب کہ کوئی ایک چیز ایسی نہیں جس پر عوام سے ٹیکس حکومت وصول نہ کر رہی ہو۔ بری معاشی حالت سے متاثر غریبوں کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے جس سے وہ اب کھلی اشیائے خور و نوش یا یہ اشیا بنانے والی کمپنیوں کے چھوٹے پیکٹ یا ساشے خریدنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ہر کمپنی کے ساشے پر سیلز ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جو خریدار ادا کرتا ہے جب کہ اشیائے خوردنی کی ان کمپنیوں پر کوئی بوجھ نہیں وہ انکم ٹیکس بھی خریداروں سے نرخ بڑھا کر وصول کر رہی ہیں۔ ستم یہ بھی ہے کہ اشیائے ضرورت کے سب سے چھوٹے پیکٹس اور ساشوں میں مقدار بھی کم کی جا رہی ہے اور نرخ بھی بڑھائے گئے ہیں۔
سیکڑوں پیک اشیائے ضرورت پر قیمت ہی درج نہیں ہوتی کہ عوام کو ان پر اپنی ادائیگی کا علم ہو سکے۔ کھلی اشیا، کپڑے، پھلوں، سبزیوں، مسالوں اور گھریلو اشیا پر منہ مانگے نرخوں پر کھلے عام لوٹ کھسوٹ جاری ہے جب کہ مسالہ جات، تیل و گھی، دودھ اور دیگر خوردنی اشیا میں ملاوٹ کرکے انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مضر صحت اشیا، نقلی دوائیوں، مصنوعی دودھ اور اشیا خوردنی کے نام پر عوام کو زہر کھلایا جا رہاہے اور عوام ان مظالم کے علاوہ ٹیکسوں کے عذاب میں جینے پر مجبور ہیں۔