شاہین کو بلند پرواز کیلیے وقت دیں
بابر کی فتوحات میں شاہین کا اہم کردار تھا، کیویز کیخلاف بابر نے بہتر کارکردگی دکھائی مگر فنشنگ کا فقدان رہا
اگر آپ تاریخی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں یا ایسے موضوعات پر مبنی فلمیں دیکھی ہوں تو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ اقتدار ایک ایسی چیز ہے جو بیٹے کو باپ اور بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتی ہے۔
حالیہ سیاسی ماحول میں دیکھیں تو کچھ عرصے قبل تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلنے والے سیاسی حلیف اب بدترین حریف بن چکے، وجہ الیکشن کا قریب ہونا ہے جس کے بعد 5 سال تک حکومت کرنے کا موقع ملے گا، کرکٹ میں کچھ الگ نہیں ہے۔
یہاں بھی مفاد ٹکرائے تو بھائی چارہ بھول کر لوگ ایک دوسرے کے مخالف بن جاتے ہیں،کچھ عرصے قبل تک قومی ٹیم میں ایک گروپ کا غلبہ تھا،وہ جسے چاہے کھلاتا جسے چاہے نکال دیتا، یہ بات ارباب اختیار نے محسوس کر لی، نجم سیٹھی نے تینوں طرز کیلیے الگ کپتان بنانے کا فیصلہ کیا مگر منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ہی وہ خود فارغ ہو گئے، اس کے بعد ذکا اشرف آئے،سینٹرل کنٹریکٹ پر جتنا بڑا تنازع ہوا اس نے انھیں بھی احساس دلا دیا کہ معاملات ٹھیک نہیں چل رہے، پلیئرز پاور حاوی ہے۔
کوئی حل نکالنا ہوگا،ورلڈکپ میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد انھوں نے بابر اعظم کو ہٹایا اور ٹیسٹ میں شان مسعود جبکہ ون ڈے میں شاہین شاہ آفریدی کو قیادت کی ذمہ داری سونپ دی، بابر کو ٹیسٹ میں کپتان برقرار رہنے کی پیشکش ہوئی مگر وہ جانتے تھے کہ 59 سال میں ٹیم نہیں جیتی اب کیا جیتے گی لہٰذا خود انکار کر دیا۔
حسب توقع ٹیم کو 0-3 سے شکست ہوئی، ٹی ٹوئنٹی میں توقع تھی کہ کارکردگی اچھی رہے گی مگر گرین شرٹس ابتدائی چاروں میچز ہار گئے،آخری مقابلے میں ہی فتح نصیب ہوئی، ہونا تو یہ چاہیے کہ شاہین کا حوصلہ بڑھایا جائے مگر یہاں ان کے خلاف مہم شروع ہو گئی کہ کپتانی سے ہٹانا چاہیے، بابر اعظم کو جب بھرپور مواقع دیے گئے تو شاہین کو کیا محض ایک سیریز میں ناکامی پر تبدیل کرنا درست ہوگا؟ میرے خیال میں تو ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے، اگر کھلاڑی ہی پرفارم نہ کریں تو کپتان اکیلا کیا کر سکتا ہے۔
بابر کی فتوحات میں شاہین کا اہم کردار تھا، کیویز کیخلاف بابر نے بہتر کارکردگی دکھائی مگر فنشنگ کا فقدان رہا، ساتھی بیٹرز نے بھی شراکتیں نہیں بنائیں، ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ بھی ان دنوں زیر تنقید ہیں، ان کا انداز بتا رہا ہے کہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کہہ نہیں پا رہے،انھوں نے کوچنگ بھی سنبھالی اور کئی بولڈ فیصلے کیے۔
اس میں سے ایک بابراعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی کو توڑنا بھی تھا، صائم ایوب باصلاحیت بیٹر ہیں مگر بدقسمتی سے اس سیریز میں توقعات پر پورا نہ اتر سکے اور ایک طرح سے رضوان اور بابر ہی اوپننگ کرتے رہے، سیریز سے قبل کوئی نائب کپتان نہ تھا لیکن پھر رضوان کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ، لوگ کہتے ہیں کہ حفیظ کو یہ ڈر تھا کہ شاہین ان کے قابو نہیں آئیں گے اس لیے ان پر تھوڑا پریشر رکھنا چاہیے۔۔
اب نجانے سچ کیا ہے لیکن یہ درست ہے کہ شان مسعود کی صورت میں ٹیسٹ میں انھیں فرمانبردار کپتان ملا تھا، شاہین ویسے نہیں ہیں، وہ اپنے فیصلے بھی کرتے ہیں، اگر وہ پہلی سیریز جیت جاتے تو حوصلہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا مگر افسوس ایسا ہو نہیں سکا، اب حفیظ کی اپنی پوزیشن کمزور ہے۔
ذکا اشرف چاہتے تھے ان کے ساتھ تین سالہ معاہدہ ہو لیکن حکومت سے اجازت نہیں ملی، قائم مقام چیئرمین شاہ خاور نے بھی واضح یقین دہانی سے گریز کرتے ہوئے اشتہار آنے پر درخواست دینے کا کہا ہے، حفیظ پاکستان کرکٹ کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں،البتہ ان کے بعض فیصلوں پر سوال اٹھانا بنتا ہے،ان میں سے ایک رضوان کو نائب کپتان بنانے کا بھی ہے۔
اگر کسی نوجوان کو یہ ذمہ داری سونپتے تو اسے سیکھنے کا موقع تو ملتا، اب تو کپتانی کا گیم بدستور جاری رہے گا، اسی طرح زمان خان کو آغاز میں نہ کھلا کر بھی انھوں نے منفرد فیصلہ کیا، ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ یقینا اکیلے کپتان کا نہیں تھا،انھیں آپشنز بھی محدود دستیاب تھے، چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے منتخب کردہ بعض کھلاڑیوں پر تنقید بھی ہوئی ہے، وہ متوقع چیئرمین محسن نقوی کے قریب ہیں لہذا بظاہر پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں لگتا، البتہ بورڈ کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ کرنا کیا ہے۔
اگر حالیہ پالیسیز برقرار رکھنی ہیں تو پھر شاہین کو بلند پرواز کیلیے وقت دیں، انھیں ورلڈکپ تک کپتان بنانے کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ دیگر کھلاڑیوں کو بھی صبر آ جائے اور قیادت کی دوڑ ختم ہو،لاہور قلندرز کیلیے اگر شاہین کامیاب کپتان ثابت ہوئے تو اس کی وجہ انھیں فری ہینڈ ملنا تھا، وہاں ٹیم اونر بھی ان کا فیصلہ نہیں بدلتا، پاکستان ٹیم میں اتنی آزادی میسر نہیں ہو سکتی، اگر ماضی میں واپس جانا ہے تو بابر کو کپتان کی ذمہ داری سونپ دیں لیکن وہ بطور بیٹر اضافی ذمہ داریوں سے آزاد رہ کر ٹیم کیلیے زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
کھلاڑی زیادہ سختیوں کے عادی نہیں تھے حفیظ نے نیا انداز اپنایا،ڈسپلن کی خلاف ورزیوں پر جرمانوں کا فیصلہ کیا، کئی مشکل کرکٹنگ فیصلے بھی کیے، ان کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی، فلائٹ مس ہونا ایشو بنا، اہلیہ کے ساتھ تصاویر وائرل کی گئیں، لمبے لیکچرز سے کھلاڑیوں کے بور ہونے کی باتیں ہوئیں، جس طرح ہم غیرملکی کوچز سے بڑے معاہدے کر کے بورڈ میں تبدیلی پر جلد گھر بھیجنے کی روایت رکھتے ہیں۔
اب کسی بڑے نام کی خدمات حاصل ہونا مشکل لگتا ہے، حفیظ سے یقینی طور پر غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن کیا اتنی جلدی ان کو بھی تبدیل کرنا درست ہوگا، یہ بورڈ کے نئے حکام کو سوچنا پڑے گا،البتہ سابق کپتان کو بھی اپنے انداز میں تبدیلی لانا چاہیے، کوچنگ کے جدید طریقے اپنائیں، اگر کوئی فیصلہ کیا ہے تو اس پر قائم رہیں۔
کھلاڑی بچے نہیں ہیں انھیں اچھے انداز میں ٹریٹ کریں ، تب یقینی طور پر بہتری نظر آئے گی، خیر ابھی تو پی سی بی کا اپنا کچھ نہیں پتا، جب غیریقینی ختم ہوئی اور نئے چیئرمین آئے تب ہی اندازہ ہو گا کہ وہ کس سمت میں جاتے ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
حالیہ سیاسی ماحول میں دیکھیں تو کچھ عرصے قبل تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلنے والے سیاسی حلیف اب بدترین حریف بن چکے، وجہ الیکشن کا قریب ہونا ہے جس کے بعد 5 سال تک حکومت کرنے کا موقع ملے گا، کرکٹ میں کچھ الگ نہیں ہے۔
یہاں بھی مفاد ٹکرائے تو بھائی چارہ بھول کر لوگ ایک دوسرے کے مخالف بن جاتے ہیں،کچھ عرصے قبل تک قومی ٹیم میں ایک گروپ کا غلبہ تھا،وہ جسے چاہے کھلاتا جسے چاہے نکال دیتا، یہ بات ارباب اختیار نے محسوس کر لی، نجم سیٹھی نے تینوں طرز کیلیے الگ کپتان بنانے کا فیصلہ کیا مگر منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ہی وہ خود فارغ ہو گئے، اس کے بعد ذکا اشرف آئے،سینٹرل کنٹریکٹ پر جتنا بڑا تنازع ہوا اس نے انھیں بھی احساس دلا دیا کہ معاملات ٹھیک نہیں چل رہے، پلیئرز پاور حاوی ہے۔
کوئی حل نکالنا ہوگا،ورلڈکپ میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد انھوں نے بابر اعظم کو ہٹایا اور ٹیسٹ میں شان مسعود جبکہ ون ڈے میں شاہین شاہ آفریدی کو قیادت کی ذمہ داری سونپ دی، بابر کو ٹیسٹ میں کپتان برقرار رہنے کی پیشکش ہوئی مگر وہ جانتے تھے کہ 59 سال میں ٹیم نہیں جیتی اب کیا جیتے گی لہٰذا خود انکار کر دیا۔
حسب توقع ٹیم کو 0-3 سے شکست ہوئی، ٹی ٹوئنٹی میں توقع تھی کہ کارکردگی اچھی رہے گی مگر گرین شرٹس ابتدائی چاروں میچز ہار گئے،آخری مقابلے میں ہی فتح نصیب ہوئی، ہونا تو یہ چاہیے کہ شاہین کا حوصلہ بڑھایا جائے مگر یہاں ان کے خلاف مہم شروع ہو گئی کہ کپتانی سے ہٹانا چاہیے، بابر اعظم کو جب بھرپور مواقع دیے گئے تو شاہین کو کیا محض ایک سیریز میں ناکامی پر تبدیل کرنا درست ہوگا؟ میرے خیال میں تو ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے، اگر کھلاڑی ہی پرفارم نہ کریں تو کپتان اکیلا کیا کر سکتا ہے۔
بابر کی فتوحات میں شاہین کا اہم کردار تھا، کیویز کیخلاف بابر نے بہتر کارکردگی دکھائی مگر فنشنگ کا فقدان رہا، ساتھی بیٹرز نے بھی شراکتیں نہیں بنائیں، ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ بھی ان دنوں زیر تنقید ہیں، ان کا انداز بتا رہا ہے کہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کہہ نہیں پا رہے،انھوں نے کوچنگ بھی سنبھالی اور کئی بولڈ فیصلے کیے۔
اس میں سے ایک بابراعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی کو توڑنا بھی تھا، صائم ایوب باصلاحیت بیٹر ہیں مگر بدقسمتی سے اس سیریز میں توقعات پر پورا نہ اتر سکے اور ایک طرح سے رضوان اور بابر ہی اوپننگ کرتے رہے، سیریز سے قبل کوئی نائب کپتان نہ تھا لیکن پھر رضوان کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ، لوگ کہتے ہیں کہ حفیظ کو یہ ڈر تھا کہ شاہین ان کے قابو نہیں آئیں گے اس لیے ان پر تھوڑا پریشر رکھنا چاہیے۔۔
اب نجانے سچ کیا ہے لیکن یہ درست ہے کہ شان مسعود کی صورت میں ٹیسٹ میں انھیں فرمانبردار کپتان ملا تھا، شاہین ویسے نہیں ہیں، وہ اپنے فیصلے بھی کرتے ہیں، اگر وہ پہلی سیریز جیت جاتے تو حوصلہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا مگر افسوس ایسا ہو نہیں سکا، اب حفیظ کی اپنی پوزیشن کمزور ہے۔
ذکا اشرف چاہتے تھے ان کے ساتھ تین سالہ معاہدہ ہو لیکن حکومت سے اجازت نہیں ملی، قائم مقام چیئرمین شاہ خاور نے بھی واضح یقین دہانی سے گریز کرتے ہوئے اشتہار آنے پر درخواست دینے کا کہا ہے، حفیظ پاکستان کرکٹ کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں،البتہ ان کے بعض فیصلوں پر سوال اٹھانا بنتا ہے،ان میں سے ایک رضوان کو نائب کپتان بنانے کا بھی ہے۔
اگر کسی نوجوان کو یہ ذمہ داری سونپتے تو اسے سیکھنے کا موقع تو ملتا، اب تو کپتانی کا گیم بدستور جاری رہے گا، اسی طرح زمان خان کو آغاز میں نہ کھلا کر بھی انھوں نے منفرد فیصلہ کیا، ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ یقینا اکیلے کپتان کا نہیں تھا،انھیں آپشنز بھی محدود دستیاب تھے، چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے منتخب کردہ بعض کھلاڑیوں پر تنقید بھی ہوئی ہے، وہ متوقع چیئرمین محسن نقوی کے قریب ہیں لہذا بظاہر پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں لگتا، البتہ بورڈ کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ کرنا کیا ہے۔
اگر حالیہ پالیسیز برقرار رکھنی ہیں تو پھر شاہین کو بلند پرواز کیلیے وقت دیں، انھیں ورلڈکپ تک کپتان بنانے کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ دیگر کھلاڑیوں کو بھی صبر آ جائے اور قیادت کی دوڑ ختم ہو،لاہور قلندرز کیلیے اگر شاہین کامیاب کپتان ثابت ہوئے تو اس کی وجہ انھیں فری ہینڈ ملنا تھا، وہاں ٹیم اونر بھی ان کا فیصلہ نہیں بدلتا، پاکستان ٹیم میں اتنی آزادی میسر نہیں ہو سکتی، اگر ماضی میں واپس جانا ہے تو بابر کو کپتان کی ذمہ داری سونپ دیں لیکن وہ بطور بیٹر اضافی ذمہ داریوں سے آزاد رہ کر ٹیم کیلیے زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
کھلاڑی زیادہ سختیوں کے عادی نہیں تھے حفیظ نے نیا انداز اپنایا،ڈسپلن کی خلاف ورزیوں پر جرمانوں کا فیصلہ کیا، کئی مشکل کرکٹنگ فیصلے بھی کیے، ان کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی، فلائٹ مس ہونا ایشو بنا، اہلیہ کے ساتھ تصاویر وائرل کی گئیں، لمبے لیکچرز سے کھلاڑیوں کے بور ہونے کی باتیں ہوئیں، جس طرح ہم غیرملکی کوچز سے بڑے معاہدے کر کے بورڈ میں تبدیلی پر جلد گھر بھیجنے کی روایت رکھتے ہیں۔
اب کسی بڑے نام کی خدمات حاصل ہونا مشکل لگتا ہے، حفیظ سے یقینی طور پر غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن کیا اتنی جلدی ان کو بھی تبدیل کرنا درست ہوگا، یہ بورڈ کے نئے حکام کو سوچنا پڑے گا،البتہ سابق کپتان کو بھی اپنے انداز میں تبدیلی لانا چاہیے، کوچنگ کے جدید طریقے اپنائیں، اگر کوئی فیصلہ کیا ہے تو اس پر قائم رہیں۔
کھلاڑی بچے نہیں ہیں انھیں اچھے انداز میں ٹریٹ کریں ، تب یقینی طور پر بہتری نظر آئے گی، خیر ابھی تو پی سی بی کا اپنا کچھ نہیں پتا، جب غیریقینی ختم ہوئی اور نئے چیئرمین آئے تب ہی اندازہ ہو گا کہ وہ کس سمت میں جاتے ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)