سائفر کیس حتمی مرحلے میں داخل عمران خان اور شاہ محمود کا حقِ دفاع ختم
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی جج پر عدم اعتماد کی درخواست مسترد
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کی، کیس میں مزید 11 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل کرلی گئی، سائفر کیس میں مجموعی طور پر تمام 25 گواہان پر جرح کا عمل مکمل ہوگی، گواہان پر جرح کے بعد ملزمان کے 342 کے بیانات ریکارڈ کرنے کیلئے سوالنامے تیار کرلیے گئے۔
سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سابق سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی، امریکہ میں سابق سفیر اسد مجید اور دیگر گواہوں کے بیانات پر جرح اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نے کی۔
جرح کے دوران شاہ محمود قریشی نے اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز پر اعتراض کیا، جس پر جج کا کہنا تھا کہ آپ خاموشی سے بیٹھ جائیں ورنہ آپ کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا، عدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفر کیس نہ سننے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں عدالت کے ساتھ چلنا مشکل ہو گیا ہے، ہم عدالت سے کہتے رہے کہ احتیاط سے چلیں مگر اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو مرتبہ ٹرائل کو کالعدم قرار دیا، ہم اس کے باوجود تیسری مرتبہ بھی عدالت کے سامنے آگئے، سیکرٹ گرفتاری اور سیکرٹ ریمانڈ بھی دیا گیا ہم نے تب بھی اعتراض نہیں کیا۔
سلمان صفدر نے کہا ہمیں معلوم نہیں کہ عدالت جلدی کیوں کر رہی ہے، عدالت نے جو ڈیفینس کونسل مقرر کیئے وہ اتنے قابل ہیں کہ 14 گھنٹے میں کیس سمجھ لیا، سرکاری وکلاء نے کیس کو سمجھ کر 9 گواہوں پر جرح بھی کر لی یہ ناممکن ہے، اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز نے ہمارے کلائنٹس کے کیس پر ہاتھ سیدھا کیا ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جلد ٹرائل کا کہا کہیں یہ نہیں کہا کہ کیس روانہ کی بنیاد پر چلے گا۔
جس پر جج کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی انکاری نہیں، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کیس میں رکاوٹیں آتی ہیں تو ضمانت کینسل کی جاسکتی ہے، جب ملزمان جیل میں ہوں تو سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جج صاحب ضمانت مل بھی گئی تو ہم نے اندر ہی رہنا ہے، وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ کچھ تو غلط ہوا تھا جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعتوں کو کالعدم قرار دیا تھا، یہ عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے آڈر پر توجہ نہیں دے رہی، قانون ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل رکھنے کا حق دیتا ہے۔
گزشتہ سماعت پر سکندر ذوالقرنین دانت کے آپریشن کی وجہ سے عدالت نہیں آسکے، ملزم اگر دیوالیہ ہو جائے اور کہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں تو ہی ملزم کو ڈیفینس کونسل دیا جاسکتا ہے مگر موجودہ کیس میں ایسی کوئی بات نہیں، اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز کی تعیناتی بھی غلط کی گئی۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سیریس کیس ہے اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز نے ہم سے مشاورت تک نہیں کی، سلمان صفدر نے کہا کہ 10 گواہوں سے چار چار سوال پوچھ کر جرح مکمل کر لی گئی، اہم گواہ اعظم خان پر جرح کے دوران بھی ہمارے وکلا کو جیل سے باہر روکا گیا، وکیل صفائی کے پاس جرح ہی ایک ہتھیار ہوتا ہے لیکن عدالت نے اس سے بھی محروم کر دیا۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جلد ٹرائل کا کہا، سپریم کورٹ نے رکاوٹیں آنے پر ضمانت خارج کرنے کا بھی کہا تھا، عثمان گل اور علی بخاری گزشتہ سماعت پر عدالت میں موجود تھے مگر انہوں نے گواہوں پر جرح نہیں کی، عثمان گل نے کہا تھا کہ انھیں جرح کا اختیار نہیں دیا گیا، ان کے وکالت نامہ میں کہاں لکھا ہے کہ یہ جرح نہیں کرسکتے، یہ تفویض کردہ عدالت ہے یہ کیس سننے سے انکار نہیں کر سکتی، عدالت ملزمان کی کیس نہ سننے کی درخواست خارج کرے اور گواہان پر جرح شروع کی جائے۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کی، کیس میں مزید 11 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل کرلی گئی، سائفر کیس میں مجموعی طور پر تمام 25 گواہان پر جرح کا عمل مکمل ہوگی، گواہان پر جرح کے بعد ملزمان کے 342 کے بیانات ریکارڈ کرنے کیلئے سوالنامے تیار کرلیے گئے۔
سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سابق سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی، امریکہ میں سابق سفیر اسد مجید اور دیگر گواہوں کے بیانات پر جرح اسٹیٹ ڈیفنس کونسل نے کی۔
جرح کے دوران شاہ محمود قریشی نے اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز پر اعتراض کیا، جس پر جج کا کہنا تھا کہ آپ خاموشی سے بیٹھ جائیں ورنہ آپ کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا، عدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفر کیس نہ سننے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں عدالت کے ساتھ چلنا مشکل ہو گیا ہے، ہم عدالت سے کہتے رہے کہ احتیاط سے چلیں مگر اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو مرتبہ ٹرائل کو کالعدم قرار دیا، ہم اس کے باوجود تیسری مرتبہ بھی عدالت کے سامنے آگئے، سیکرٹ گرفتاری اور سیکرٹ ریمانڈ بھی دیا گیا ہم نے تب بھی اعتراض نہیں کیا۔
سلمان صفدر نے کہا ہمیں معلوم نہیں کہ عدالت جلدی کیوں کر رہی ہے، عدالت نے جو ڈیفینس کونسل مقرر کیئے وہ اتنے قابل ہیں کہ 14 گھنٹے میں کیس سمجھ لیا، سرکاری وکلاء نے کیس کو سمجھ کر 9 گواہوں پر جرح بھی کر لی یہ ناممکن ہے، اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز نے ہمارے کلائنٹس کے کیس پر ہاتھ سیدھا کیا ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جلد ٹرائل کا کہا کہیں یہ نہیں کہا کہ کیس روانہ کی بنیاد پر چلے گا۔
جس پر جج کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی انکاری نہیں، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کیس میں رکاوٹیں آتی ہیں تو ضمانت کینسل کی جاسکتی ہے، جب ملزمان جیل میں ہوں تو سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جج صاحب ضمانت مل بھی گئی تو ہم نے اندر ہی رہنا ہے، وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ کچھ تو غلط ہوا تھا جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعتوں کو کالعدم قرار دیا تھا، یہ عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے آڈر پر توجہ نہیں دے رہی، قانون ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل رکھنے کا حق دیتا ہے۔
گزشتہ سماعت پر سکندر ذوالقرنین دانت کے آپریشن کی وجہ سے عدالت نہیں آسکے، ملزم اگر دیوالیہ ہو جائے اور کہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں تو ہی ملزم کو ڈیفینس کونسل دیا جاسکتا ہے مگر موجودہ کیس میں ایسی کوئی بات نہیں، اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز کی تعیناتی بھی غلط کی گئی۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سیریس کیس ہے اسٹیٹ ڈیفینس کونسلز نے ہم سے مشاورت تک نہیں کی، سلمان صفدر نے کہا کہ 10 گواہوں سے چار چار سوال پوچھ کر جرح مکمل کر لی گئی، اہم گواہ اعظم خان پر جرح کے دوران بھی ہمارے وکلا کو جیل سے باہر روکا گیا، وکیل صفائی کے پاس جرح ہی ایک ہتھیار ہوتا ہے لیکن عدالت نے اس سے بھی محروم کر دیا۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جلد ٹرائل کا کہا، سپریم کورٹ نے رکاوٹیں آنے پر ضمانت خارج کرنے کا بھی کہا تھا، عثمان گل اور علی بخاری گزشتہ سماعت پر عدالت میں موجود تھے مگر انہوں نے گواہوں پر جرح نہیں کی، عثمان گل نے کہا تھا کہ انھیں جرح کا اختیار نہیں دیا گیا، ان کے وکالت نامہ میں کہاں لکھا ہے کہ یہ جرح نہیں کرسکتے، یہ تفویض کردہ عدالت ہے یہ کیس سننے سے انکار نہیں کر سکتی، عدالت ملزمان کی کیس نہ سننے کی درخواست خارج کرے اور گواہان پر جرح شروع کی جائے۔