پاکستان اور گِرد و پیش
یہ وقت بہت نازک ہے کیونکہ پاک افغان تعلقات اِس وقت تعطل کا شکارہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے
ایران کی حالیہ جارحیت اور پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں دونوں برادر ممالک میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے، یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی۔
ایران کی جانب سے اِس کا سبب یہ بتایا گیا کہ ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان میں موجود ایران مخالف عناصر وقتاً فوقتاً تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ اِدھر حکومتِ پاکستان کی جانب سے مسلسل یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ ایران کے سرحدی علاقوں میں پاکستان مخالف بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے گروہوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اُس نے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا تاکہ دونوں برادر ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ نہ ہوں لیکن اِس کے برعکس ایران نے پاکستان کے سرحدی علاقے پر اچانک حملہ کردیا۔
عین ممکن تھا کہ اِس کارروائی کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑجاتی جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کو بڑے پیمانہ پر تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا۔ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد گروہ چھپے ہوئے ہیں جو سرحد کے آر پار دونوں علاقوں میں کارروائیاں کرکے حالات کو کشیدہ کرنا چاہتے ہیں ، یہ دہشت گرد گروہ پورے منصوبہ بندی سے سازش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دونوں برادر ممالک میں جنگ ہو جائے۔
حالات نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور اچھا شگون یہ ہے کہ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت نے اپنے اپنے ممالک کے سفیروں کو واپس بھیج دیا ہے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد ایک خوش آیند دور شروع ہوا ہے جس کے حوالے سے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ :
بڑا مزا اُس ملاپ میں ہے
جو صلح ہوجائے جنگ ہو کر
امید کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیں گے۔ پاکستان اور ایران دونوں کے دشمنوں کے مکروہ عزائم پر اِس پیش رفت سے پانی پھرگیا ہے۔ بھارت کا خیال یہ تھا کہ ایران اور پاکستان کی جھڑپ ایک خطرناک موڑ لے گی، جب کہ امریکا یہ آس لگائے بیٹھا تھا کہ ایران تباہی کے گڑھے میں جا گرے گا لیکن ہوا وہی جو اللہ نے چاہا تھا۔
مدعی لاکھ بُرا چاہے توکیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اسرائیل کو اِس صورتحال سے شدید مایوسی ہوئی ہے،کیونکہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری سے سب سے بڑا دھچکا اُسی کو لگا ہے۔ یہ وقت بہت نازک ہے کیونکہ پاک افغان تعلقات اِس وقت تعطل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔پاک افغان تعلقات کو خراب کرنے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
برسوں پرانی بات ہے کہ جب افغان اعلیٰ قیادت نے، جو ظاہر شاہ اور سردار داؤد پر مشتمل تھی، بھارت کا سرکاری دورہ کیا تھا تو اُس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان اور بھارت کے تعلقات کی سمت معین کی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد پاک افغان تعلقات کوکشیدہ رکھنا تھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو سب سے آخر میں تسلیم کیا تھا۔
یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان نے برادر ملک ہونے کے ناتے افغانستان کی ہر ممکنہ مدد کی ، حتیٰ کہ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی خاطر اپنے وجود کو بھی داؤ پر لگا دیا خواہ وہ روسی جارحیت ہو یا امریکی جارحیت۔ وطنِ عزیز میں ہونے والے عام انتخابات اب زیادہ دور نہیں ہیں۔
امید واثق ہے کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگی جو اہل اور انتہائی مخلص ہوگی جس کے بعد استحکام کا قیام ہوگا اور ملکی مسائل کو حل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا۔
بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ اِس ایجنڈے میں سرِفہرست ہونا چاہیے۔ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر وطنِ عزیزکے بہتر مستقبل پر اپنی توجہ مرکوزکریں اور مقتدرہ قوتیں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے اپنے فرائض انجام دیں۔
ایران کی جانب سے اِس کا سبب یہ بتایا گیا کہ ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان میں موجود ایران مخالف عناصر وقتاً فوقتاً تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ اِدھر حکومتِ پاکستان کی جانب سے مسلسل یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ ایران کے سرحدی علاقوں میں پاکستان مخالف بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے گروہوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اُس نے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا تاکہ دونوں برادر ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ نہ ہوں لیکن اِس کے برعکس ایران نے پاکستان کے سرحدی علاقے پر اچانک حملہ کردیا۔
عین ممکن تھا کہ اِس کارروائی کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑجاتی جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کو بڑے پیمانہ پر تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا۔ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد گروہ چھپے ہوئے ہیں جو سرحد کے آر پار دونوں علاقوں میں کارروائیاں کرکے حالات کو کشیدہ کرنا چاہتے ہیں ، یہ دہشت گرد گروہ پورے منصوبہ بندی سے سازش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دونوں برادر ممالک میں جنگ ہو جائے۔
حالات نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور اچھا شگون یہ ہے کہ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت نے اپنے اپنے ممالک کے سفیروں کو واپس بھیج دیا ہے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد ایک خوش آیند دور شروع ہوا ہے جس کے حوالے سے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ :
بڑا مزا اُس ملاپ میں ہے
جو صلح ہوجائے جنگ ہو کر
امید کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیں گے۔ پاکستان اور ایران دونوں کے دشمنوں کے مکروہ عزائم پر اِس پیش رفت سے پانی پھرگیا ہے۔ بھارت کا خیال یہ تھا کہ ایران اور پاکستان کی جھڑپ ایک خطرناک موڑ لے گی، جب کہ امریکا یہ آس لگائے بیٹھا تھا کہ ایران تباہی کے گڑھے میں جا گرے گا لیکن ہوا وہی جو اللہ نے چاہا تھا۔
مدعی لاکھ بُرا چاہے توکیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اسرائیل کو اِس صورتحال سے شدید مایوسی ہوئی ہے،کیونکہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری سے سب سے بڑا دھچکا اُسی کو لگا ہے۔ یہ وقت بہت نازک ہے کیونکہ پاک افغان تعلقات اِس وقت تعطل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔پاک افغان تعلقات کو خراب کرنے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
برسوں پرانی بات ہے کہ جب افغان اعلیٰ قیادت نے، جو ظاہر شاہ اور سردار داؤد پر مشتمل تھی، بھارت کا سرکاری دورہ کیا تھا تو اُس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان اور بھارت کے تعلقات کی سمت معین کی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد پاک افغان تعلقات کوکشیدہ رکھنا تھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو سب سے آخر میں تسلیم کیا تھا۔
یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان نے برادر ملک ہونے کے ناتے افغانستان کی ہر ممکنہ مدد کی ، حتیٰ کہ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی خاطر اپنے وجود کو بھی داؤ پر لگا دیا خواہ وہ روسی جارحیت ہو یا امریکی جارحیت۔ وطنِ عزیز میں ہونے والے عام انتخابات اب زیادہ دور نہیں ہیں۔
امید واثق ہے کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگی جو اہل اور انتہائی مخلص ہوگی جس کے بعد استحکام کا قیام ہوگا اور ملکی مسائل کو حل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا۔
بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ اِس ایجنڈے میں سرِفہرست ہونا چاہیے۔ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر وطنِ عزیزکے بہتر مستقبل پر اپنی توجہ مرکوزکریں اور مقتدرہ قوتیں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے اپنے فرائض انجام دیں۔