نظریاتی ابہام
پاکستان کو دوسروں کی چراگاہ نہ بنایا جائے۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ان کی زبان میں سبق دینا ضروری ہو چکا ہے
ہم پاکستانیوں کے لیے بم دھماکے، خود کش حملے، قتل عام،اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ روٹین کی خبر ہے ، سانحہ کتنا ہی سنگین اور سفاکانہ ہو، ہم غمزدہ ہوتے ہیں نہ خوفزدہ، ایران میں گیارہ پاکستانی مزدوروں کا سفاکانہ قتل ہی دیکھ لیں، کیسی اطمینان بخش خاموشی ہے۔
جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ سیاسی قیادت، علماء کرام، سیاسی پیر ،گدی نشین، وکلا،شاعراور ادیب سب اپنے اپنے ''دھندوں'' میں غرق ہیں۔ انسانی حقوق کے نام پر تنظیمیں چلانے والے اکڑبکڑ دانشوراور قلم کار تو اس سانحہ کا الزام بھی پاکستان پر لگا سکتے ہیں، لگتا ہے ، ابھی وہ اس سانحہ کے پس پردہ حقائق کی چھان بین کر رہے ہیں، وقت آنے پر وہ بولیں گے ضرور۔
پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کو کبھی خطرہ سمجھا ہی نہیں گیا ہے، ہمارا تعلیمی نصاب ''داغ تو اچھے ہوتے ہیں'' کے سنہری اصول پر استوار ہے۔اب جو بچے ''داغ'' کو اچھا پڑھتے سنتے جوان ہوں گے، سرکاری افسر بنیں گے،وکیل اور جج بنیں گے، سیاستدان اور کاروباری بنیں گے، وہ اپنے اور ریاست کے دامن پر لگے انتہا پسندی کے داغ کو کبھی برا نہیں سمجھ سکیں گے بلکہ سب کو داغدار کریںگے کیونکہ ان کا ''علم دریاؤ'' داغوں کو اچھا بتاتا ہے، ان سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی''صفائی'' کی توقع کرنا اندھیرے میں کالی بلی پکڑنے والی بات ہے۔
میری کئی ایسے بیورو کریٹس سے یاد اﷲ ہے، جو سیاستدانوں کونااہل، کرپٹ اورکاروباری طبقے کو ٹیکس چورکہتے ہیں ، عام شہری جہالت کے درجے پر فائز ہے لیکن اسے اپنے دامن پر لگے کرپشن ، نااہلی، کام چوری کے داغ نظر نہیں آتے، اگر کوئی پوچھ لے تو '' داغ تو اچھے ہوتے ہیں'' کا جواب دے ماریں گے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہمیں سبق ہی یہ پڑھایا گیا ہے کہ افغانستان اور ایران محض ہمسائے نہیں ہمارے سگے بھائی ہیں، شمال مغرب سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا ادھر سیکیورٹی فورسز تعینات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے متصل خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوںکو وہاں کے سرداروں، نوابوں، ملکان و مشرانو اور طاقتور مذہبی شخصیات کے رحم کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
ایسے مائنڈ سیٹ کے ساتھ پاکستان کے ادارے اور حکومت انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتے، یہ جنگ جیتنا تو بڑی دور کی بات ہے۔جب پوری ریاستی مشینری، آئین و قوانین ،سیاست اور معاشرت انتہاپسندی کے وائرس کا شکار ہو، انفیکٹیڈ مریض علاج پر بھی تیار نہ ہو تو ایسے مریض کا علاج کون کرسکتا ہے؟
ہم ایسے ہی مریض ہیں جو دہائیوں پہلے انتہاپسندی کے وائرس کا شکار ہوئے ، تب کسی نے اس وائرس کی ہلاکت خیزی کا ادراک نہیں کیاکیونکہ مریض صحت مند لگ رہا تھا، لیکن انفیکشن بڑھتی چلی گئی اور آج آپریشن کے سوا مریض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ عوام کو اس بارے میں کبھی حقائق نہیں بتائے گئے، آج ایرانی علاقے میں پاکستانی مزدور قتل ہوئے ہیں تو سب حیرانی اور پریشانی کے عالم میں منہ اٹھائے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں، ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں'' ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے''؟
افغانستان کا حکمران طبقہ پچھتر برس سے پاکستانی عوام کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے، پاک ایران سرحد بھی پاکستانی مفادات کے لیے کبھی سود مند نہیں رہی ۔پاکستان اور ایران دونوں انتہاپسندی اور دہشت گردی بھگت رہے ہیں۔ایران نے کبھی پاکستان کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقوں میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کیا نہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سرحدی میکنزم بنایا، پاکستان نے بھی ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں کو آئین و قانون کا پابند کیا نہ اسمگلنگ کی روک تھام پر توجہ دی، یہی صورتحال پاک افغان سرحد کی ہے۔
اگر سرحدوں کو سرحدیں سمجھ کر حفاظتی انتظامات کر لیے جاتے، تجارت و سیاحت کو قانون وضوابط کا پابند بنایا جاتا، آمد و رفت کے لیے قوانین بنائے جاتے، ویزا پابندی عائد کی جاتیں تو آج پاکستان پرامن وخوشحال ہوتا ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قانون تجارت عروج پر ہوتی ۔ افغانستان میں بھی امن ہوتا اور ایران میں بھی ۔لیکن آج بارہ تیرہ لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط یہ سارا خطہ دہشت گردی، بدامنی ، انتہاپسندی اور پسماندگی گا شکار ہے۔
سرمایہ کار یہاں سے فرار ہورہا ہے۔ شمال مغربی سرحدوں پر اربوںڈالرز مالیت کا مال آر پار جارہا ہے۔لیکن اس میں نوے فیصد تجارت غیرقانونی ہے جس کا پاکستان کو ئی فائدہ نہیں ہورہا البتہ بلیک منی کاحجم بڑھ گیاہے۔ پاکستان کی کسی حکومت نے اس کالے کاروبار کا مالی تخمینہ پارلیمنٹ میں کبھی پیش نہیں کیا اور نہ عوام کو براہ راست بتایا ہے کہ سرحدی کسٹمز ڈیوٹیز، ٹیرف اور راہداری ٹیکسز کی مد میں کتنا ریونیوجمع ہوا ہے۔
جو لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی جنرل پرویز مشرف لے کر آیا، وہ حقائق چھپاتے ہیں یا ان سے لاعلم ہیں ۔ قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کی پراسرار موت سے لے کر لیاقت علی کے قتل تک ، اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا ہوتا رہا، اہل علم یا صحافیوں کے لیے کبھی تحقیق کا موضوع نہیں رہا ہے۔ ستر کی دہائی کے صوبہ سرحد کے ترقی پسند نوجوان وزیراعلیٰ حیات محمد شیرپاؤ بم دھماکے میں شہید کیے گئے، کیا یہ دہشت گردی نہیں تھی ؟ اس کی منصوبہ بندی کہاں ہوئی ؟ کبھی حقائق سامنے نہیں آئے ۔
مرحوم اصغر خان کے صاحبزادے کا قتل کرانے والے کون تھے ؟ بیچارے اصغرخان سب کچھ جان کر بھی کچھ نہ کر سکے اور خاموشی سے قبر میں چلے گئے۔ دہشت گردی کی خوراک انتہا پسندی ہے، ستر برس پہلے ہی یہ وائرس پاکستان کے جسم میں انجیکٹ کردیا گیا تھا، مرحوم پرویز مشرف تو اس وقت آئے جب وائرس اور مریض بے قابو ہوچکے تھے۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور عام شہری خود کش حملوں، بم دھماکوں میں شہید ہورہے تھے، عبادت گاہیں اور درگاہیں تک دہشت گردوں سے محفوظ نہیں تھیں۔ بے نظیر بھٹو بھرے مجمعے میں شہید کردی گئیں، لہٰذا یہ کہنا کہ پاکستان میں دہشت گردی مرحوم پرویز مشرف لے کر آیا، پرلے درجے کی ''لنگورانہ دانشوری'' ہے۔
دہشت گرد کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں تربیت حاصل کرتے ہیں ، ان کی فنانشل لائف لائن کدھر سے گزرتی ہے؟ فنانسر اور سہولت کار کون ہیں اور وہ کیوں ایسا کررہے ہیں؟ پاکستان کے اندر وہ کون سے وائٹ کالر طبقے ہیں جن کے مالی مفادات دہشت گردوں کے سرپرستوں،نگہبانوں اورہینڈلرز کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں؟ان حوالوں سے کئی شک دور ہوچکے ہیں، جو شکوک تاحال موجود ہیں، وہ بھی جلد دور ہوجائیں گے۔ پاکستان کے وسائل ہڑپ کرکے امیر ہونے والا ایک بااثر گروہ ، اپنی جواب دہی سے بچنے کے لیے ریاست کے وجود تک کو داؤ پر لگانے پر تل گیا ہے ۔
بلوچستان میں ریاست کے خلاف لڑنے والے مسلح گروہوں کے پاس کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے ، اگر وہ سیاسی نظریہ رکھتے تو کبھی ہتھیار نہ اٹھاتے۔ فریڈم فائٹرز کبھی رنگ، نسل اور زبان کے تعصب میں بے گناہوں کا قتل نہیں کرتے۔قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی ساری جدوجہد آزادی مسلمہ جمہوری اصولوں پر استوار تھی۔ گاندھی، نہرو اور مولانا آزاد کی سیاست و نظریے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی جدوجہد آزادی میں تشدد نہیں تھا۔
پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی قیادت نے انتہاپسندی پر کبھی سنجیدہ رویے کا مظاہرہ نہیں کیا، کبھی بات کی بھی تو بے نیازی کے ساتھ کی ہے ۔ پاپولر سیاسی قیادت کا یہ طرز عمل غیرنظریاتی اورغیر ذمے دارانہ ہے۔
کسی حد تک پیپلزپارٹی نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے واضح مؤقف رکھا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا موقف بات برائے بات تک محدود ہے، پی ٹی آئی کی قیادت تو کھل کر انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامی ہے حالانکہ اپنے رہن سہن اور پہناوے میں وہ سب سے زیادہ ماڈرن ہے ۔ مذہبی سیاسی قیادت نے تو نظریاتی کنفیوژن کو بڑھاوا ہی دیا ہے۔ان کے پاس انتہاپسندی کے خاتمے کا کوئی ٹھوس اور قابل عمل پروگرام نہیں ہے۔
اب پانی سر سے گزر چکا ہے، پاکستان کو بچانے اورعوام کے جان ومال اور کاروبار کے تحفظ کے لیے سرکاری مشینری، سیاسی جماعتوں کی قیادت، مذہبی جماعتوں کی قیادت، سول سوسائٹی، دانشور اور اہل علم کو اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو دوسروں کی چراگاہ نہ بنایا جائے۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ان کی زبان میں سبق دینا ضروری ہو چکا ہے۔ مفاہمت، نرمی اور مذاکرات کا وقت گزر گیا۔
جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ سیاسی قیادت، علماء کرام، سیاسی پیر ،گدی نشین، وکلا،شاعراور ادیب سب اپنے اپنے ''دھندوں'' میں غرق ہیں۔ انسانی حقوق کے نام پر تنظیمیں چلانے والے اکڑبکڑ دانشوراور قلم کار تو اس سانحہ کا الزام بھی پاکستان پر لگا سکتے ہیں، لگتا ہے ، ابھی وہ اس سانحہ کے پس پردہ حقائق کی چھان بین کر رہے ہیں، وقت آنے پر وہ بولیں گے ضرور۔
پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کو کبھی خطرہ سمجھا ہی نہیں گیا ہے، ہمارا تعلیمی نصاب ''داغ تو اچھے ہوتے ہیں'' کے سنہری اصول پر استوار ہے۔اب جو بچے ''داغ'' کو اچھا پڑھتے سنتے جوان ہوں گے، سرکاری افسر بنیں گے،وکیل اور جج بنیں گے، سیاستدان اور کاروباری بنیں گے، وہ اپنے اور ریاست کے دامن پر لگے انتہا پسندی کے داغ کو کبھی برا نہیں سمجھ سکیں گے بلکہ سب کو داغدار کریںگے کیونکہ ان کا ''علم دریاؤ'' داغوں کو اچھا بتاتا ہے، ان سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی''صفائی'' کی توقع کرنا اندھیرے میں کالی بلی پکڑنے والی بات ہے۔
میری کئی ایسے بیورو کریٹس سے یاد اﷲ ہے، جو سیاستدانوں کونااہل، کرپٹ اورکاروباری طبقے کو ٹیکس چورکہتے ہیں ، عام شہری جہالت کے درجے پر فائز ہے لیکن اسے اپنے دامن پر لگے کرپشن ، نااہلی، کام چوری کے داغ نظر نہیں آتے، اگر کوئی پوچھ لے تو '' داغ تو اچھے ہوتے ہیں'' کا جواب دے ماریں گے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہمیں سبق ہی یہ پڑھایا گیا ہے کہ افغانستان اور ایران محض ہمسائے نہیں ہمارے سگے بھائی ہیں، شمال مغرب سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا ادھر سیکیورٹی فورسز تعینات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے متصل خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوںکو وہاں کے سرداروں، نوابوں، ملکان و مشرانو اور طاقتور مذہبی شخصیات کے رحم کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
ایسے مائنڈ سیٹ کے ساتھ پاکستان کے ادارے اور حکومت انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتے، یہ جنگ جیتنا تو بڑی دور کی بات ہے۔جب پوری ریاستی مشینری، آئین و قوانین ،سیاست اور معاشرت انتہاپسندی کے وائرس کا شکار ہو، انفیکٹیڈ مریض علاج پر بھی تیار نہ ہو تو ایسے مریض کا علاج کون کرسکتا ہے؟
ہم ایسے ہی مریض ہیں جو دہائیوں پہلے انتہاپسندی کے وائرس کا شکار ہوئے ، تب کسی نے اس وائرس کی ہلاکت خیزی کا ادراک نہیں کیاکیونکہ مریض صحت مند لگ رہا تھا، لیکن انفیکشن بڑھتی چلی گئی اور آج آپریشن کے سوا مریض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ عوام کو اس بارے میں کبھی حقائق نہیں بتائے گئے، آج ایرانی علاقے میں پاکستانی مزدور قتل ہوئے ہیں تو سب حیرانی اور پریشانی کے عالم میں منہ اٹھائے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں، ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں'' ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے''؟
افغانستان کا حکمران طبقہ پچھتر برس سے پاکستانی عوام کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے، پاک ایران سرحد بھی پاکستانی مفادات کے لیے کبھی سود مند نہیں رہی ۔پاکستان اور ایران دونوں انتہاپسندی اور دہشت گردی بھگت رہے ہیں۔ایران نے کبھی پاکستان کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقوں میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کیا نہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سرحدی میکنزم بنایا، پاکستان نے بھی ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں کو آئین و قانون کا پابند کیا نہ اسمگلنگ کی روک تھام پر توجہ دی، یہی صورتحال پاک افغان سرحد کی ہے۔
اگر سرحدوں کو سرحدیں سمجھ کر حفاظتی انتظامات کر لیے جاتے، تجارت و سیاحت کو قانون وضوابط کا پابند بنایا جاتا، آمد و رفت کے لیے قوانین بنائے جاتے، ویزا پابندی عائد کی جاتیں تو آج پاکستان پرامن وخوشحال ہوتا ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قانون تجارت عروج پر ہوتی ۔ افغانستان میں بھی امن ہوتا اور ایران میں بھی ۔لیکن آج بارہ تیرہ لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط یہ سارا خطہ دہشت گردی، بدامنی ، انتہاپسندی اور پسماندگی گا شکار ہے۔
سرمایہ کار یہاں سے فرار ہورہا ہے۔ شمال مغربی سرحدوں پر اربوںڈالرز مالیت کا مال آر پار جارہا ہے۔لیکن اس میں نوے فیصد تجارت غیرقانونی ہے جس کا پاکستان کو ئی فائدہ نہیں ہورہا البتہ بلیک منی کاحجم بڑھ گیاہے۔ پاکستان کی کسی حکومت نے اس کالے کاروبار کا مالی تخمینہ پارلیمنٹ میں کبھی پیش نہیں کیا اور نہ عوام کو براہ راست بتایا ہے کہ سرحدی کسٹمز ڈیوٹیز، ٹیرف اور راہداری ٹیکسز کی مد میں کتنا ریونیوجمع ہوا ہے۔
جو لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی جنرل پرویز مشرف لے کر آیا، وہ حقائق چھپاتے ہیں یا ان سے لاعلم ہیں ۔ قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کی پراسرار موت سے لے کر لیاقت علی کے قتل تک ، اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا ہوتا رہا، اہل علم یا صحافیوں کے لیے کبھی تحقیق کا موضوع نہیں رہا ہے۔ ستر کی دہائی کے صوبہ سرحد کے ترقی پسند نوجوان وزیراعلیٰ حیات محمد شیرپاؤ بم دھماکے میں شہید کیے گئے، کیا یہ دہشت گردی نہیں تھی ؟ اس کی منصوبہ بندی کہاں ہوئی ؟ کبھی حقائق سامنے نہیں آئے ۔
مرحوم اصغر خان کے صاحبزادے کا قتل کرانے والے کون تھے ؟ بیچارے اصغرخان سب کچھ جان کر بھی کچھ نہ کر سکے اور خاموشی سے قبر میں چلے گئے۔ دہشت گردی کی خوراک انتہا پسندی ہے، ستر برس پہلے ہی یہ وائرس پاکستان کے جسم میں انجیکٹ کردیا گیا تھا، مرحوم پرویز مشرف تو اس وقت آئے جب وائرس اور مریض بے قابو ہوچکے تھے۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور عام شہری خود کش حملوں، بم دھماکوں میں شہید ہورہے تھے، عبادت گاہیں اور درگاہیں تک دہشت گردوں سے محفوظ نہیں تھیں۔ بے نظیر بھٹو بھرے مجمعے میں شہید کردی گئیں، لہٰذا یہ کہنا کہ پاکستان میں دہشت گردی مرحوم پرویز مشرف لے کر آیا، پرلے درجے کی ''لنگورانہ دانشوری'' ہے۔
دہشت گرد کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں تربیت حاصل کرتے ہیں ، ان کی فنانشل لائف لائن کدھر سے گزرتی ہے؟ فنانسر اور سہولت کار کون ہیں اور وہ کیوں ایسا کررہے ہیں؟ پاکستان کے اندر وہ کون سے وائٹ کالر طبقے ہیں جن کے مالی مفادات دہشت گردوں کے سرپرستوں،نگہبانوں اورہینڈلرز کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں؟ان حوالوں سے کئی شک دور ہوچکے ہیں، جو شکوک تاحال موجود ہیں، وہ بھی جلد دور ہوجائیں گے۔ پاکستان کے وسائل ہڑپ کرکے امیر ہونے والا ایک بااثر گروہ ، اپنی جواب دہی سے بچنے کے لیے ریاست کے وجود تک کو داؤ پر لگانے پر تل گیا ہے ۔
بلوچستان میں ریاست کے خلاف لڑنے والے مسلح گروہوں کے پاس کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے ، اگر وہ سیاسی نظریہ رکھتے تو کبھی ہتھیار نہ اٹھاتے۔ فریڈم فائٹرز کبھی رنگ، نسل اور زبان کے تعصب میں بے گناہوں کا قتل نہیں کرتے۔قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی ساری جدوجہد آزادی مسلمہ جمہوری اصولوں پر استوار تھی۔ گاندھی، نہرو اور مولانا آزاد کی سیاست و نظریے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی جدوجہد آزادی میں تشدد نہیں تھا۔
پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی قیادت نے انتہاپسندی پر کبھی سنجیدہ رویے کا مظاہرہ نہیں کیا، کبھی بات کی بھی تو بے نیازی کے ساتھ کی ہے ۔ پاپولر سیاسی قیادت کا یہ طرز عمل غیرنظریاتی اورغیر ذمے دارانہ ہے۔
کسی حد تک پیپلزپارٹی نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے واضح مؤقف رکھا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا موقف بات برائے بات تک محدود ہے، پی ٹی آئی کی قیادت تو کھل کر انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامی ہے حالانکہ اپنے رہن سہن اور پہناوے میں وہ سب سے زیادہ ماڈرن ہے ۔ مذہبی سیاسی قیادت نے تو نظریاتی کنفیوژن کو بڑھاوا ہی دیا ہے۔ان کے پاس انتہاپسندی کے خاتمے کا کوئی ٹھوس اور قابل عمل پروگرام نہیں ہے۔
اب پانی سر سے گزر چکا ہے، پاکستان کو بچانے اورعوام کے جان ومال اور کاروبار کے تحفظ کے لیے سرکاری مشینری، سیاسی جماعتوں کی قیادت، مذہبی جماعتوں کی قیادت، سول سوسائٹی، دانشور اور اہل علم کو اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو دوسروں کی چراگاہ نہ بنایا جائے۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ان کی زبان میں سبق دینا ضروری ہو چکا ہے۔ مفاہمت، نرمی اور مذاکرات کا وقت گزر گیا۔