عام انتخابات اور پرسکون ماحول

عام انتخابات کے اتنے قریب آجانے کے باوجود انتخابی گہماگہمی کا فقدان ہے


ضیا الرحمٰن ضیا January 30, 2024
عام انتخابات کے اتنے قریب آجانے کے باوجود انتخابی گہماگہمی کا فقدان ہے۔ (فوٹو: فائل)

عام انتخابات 2024 میں اب ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن انتخابات کے حوالے سے انتہائی بے یقینی کی صورتحال ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں اور کیسے کریں؟ عام انتخابات ملتوی ہونے کے امکانات بھی وقت گزرنے کے ساتھ تقریباً ختم ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ عام انتخابات سے قبل جس طرح کی سیاسی گہما گہمی عام طور پر ہوتی ہے وہ اس مرتبہ نظر نہیں آرہی۔


اس بار سیاسی جوڑ تور کا سلسلہ بھی عروج پر ہے، کیونکہ بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کو توڑ کر کئی چھوٹی جماعتیں بنا دی گئی ہیں۔ اب وہ چھوٹی جماعتیں اس قابل تو نہیں ہیں کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنا سکیں، مگر ان کی اہمیت ضرور ہے۔ کسی اکثریتی جماعت کے ساتھ مل کر اسے حکومت بنانے میں مدد فراہم کرنے میں ان جماعتوں کا اہم کردار ہوگا۔


یہ جماعتیں اہمیت اختیار کرگئی ہیں اور عام انتخابات میں اپنی چند نشستوں کے ساتھ یہ بڑی جماعتوں کی منظور نظر ہوں گی اور وہ جماعتیں انہیں اپنے ساتھ ملانے کےلیے بھرپور زور لگائیں گی اور ان کی شرائط پر ان کے ساتھ اتحاد ہوگا۔ اسی طرح تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہ ملنے کا معاملہ بھی نہایت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔


تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جو ایک مرتبہ ملک پر حکومت بھی کرچکی ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اب بھی تحریک انصاف کی حامی اور عمران خان کی دیوانی ہے۔ سچ کہیں تو تحریک انصاف نام ہی عمران خان کا ہے، ان کے بغیر تحریک انصاف کا کوئی وجود نہیں۔ ان کے کارکنان ان کے علاوہ کسی اور رہنما کو اس طرح نہیں چاہتے جس طرح عمران خان کو چاہتے ہیں، حتیٰ کہ دیگر رہنماؤں کو بھی وہ عمران خان کی وجہ سے ہی برداشت کرتے ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کی مقبولیت نوجوانوں میں موجود ہے۔


تحریک انصاف سے لاکھ اختلاف سہی لیکن عوام میں یا سوشل میڈیا پر ہر طرف ہمیں عمران خان کے دیوانے ضرور ملتے ہیں، جو عمران خان کی دیاتنداری اور ملک سے وفاداری کی نہایت معصومانہ دلیلیں دے رہے ہوتے ہیں۔ جن سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں حقیقت حال کا علم ہی نہیں، صرف عمران خان کی محبت میں یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں۔ لیکن جو بھی ہو عمران خان کی وجہ سے یہ لوگ بڑی تعداد میں تحریک انصاف سے وابستہ ہیں۔


اتنی بڑی سیاسی جماعت سے جب اس کا انتخابی نشان ہی چھین لیا گیا تو ملک میں انتہائی عدم توازن کی فضا پیدا ہوگئی ہے اور الیکشن کا سارا ماحول بھی بدل گیا ہے۔ عمران خان خود جیل میں ہیں، جس کی وجہ سے دیگر جماعتوں کو کھلا میدان مل چکا ہے۔ اگر عمران خان جیل میں نہ ہوتے اور صبح و شام جلسے کررہے ہوتے تو دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی بھی نیندیں اڑ چکی ہوتیں۔ مگر عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے باقی سب پرسکون ہیں اور انتخابی مہم میں بھی وہ گرم جوشی نہیں جو ہونی چاہیے۔ نہ کوئی جلسہ، نہ جلوس، نہ انتخابی ریلیاں، نہ بینر، نہ کارنر مینٹنگیں۔


تحریک انصاف کے اپنے کارکنوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہمارا اپنا امیدوار کون سا ہے۔ ایک ایک حلقے سے کئی کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں اور سبھی خود کو تحریک انصاف کا ٹکٹ ہولڈر بتا رہے ہیں۔ بلے کا نشان تو کسی کے پاس ہے نہیں، جس کی وجہ سے مزید الجھن پیدا ہورہی ہے۔


یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے اتنے قریب آجانے کے باوجود انتخابی گہماگہمی نہیں ہے۔ عام انتخابات سے قبل کھمبوں اور بجلی کے پولز پر بے تحاشا بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں۔ ہر گلی محلے بلکہ اہم شاہراہوں پر بھی کوئی کھمبا یا بجلی کا پول ایسا نہیں ہوتا جس پر کسی امیدوار کا بینر نہ لگا ہو، کھمبے اوپر سے نیچے تک بینروں میں چھپے ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے یا غلط وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن یہ ہمارے ملک کی روایت ہے کہ بینرز آویزاں کرنا انتخابی مہم کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے، لیکن اس مرتبہ اِکا دُکا بینرز دکھائی دے رہے ہیں جو سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی یا انتخابات کے انعقاد کی غیر یقینی کو واضح کرتے ہیں۔


سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ خود اس بے یقینی کو ختم کریں اور کوشش کریں کہ کسی بھی طرح انتخابات کا انعقاد ہو اور کامیاب ہونے والی جماعت حکومت بنائے تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات کے التوا کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انتخابات جتنے ملتوی ہوتے جائیں گے ملک کے حالات اتنے ہی ابتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پہلے ہی نگران حکومت کی مدت کافی طویل ہوچکی ہے، اب اسے ختم ہونا چاہیے اور اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل ہونا چاہیے جو پورے اختیارات کے ساتھ ملک کو مسائل سے نکالنے کی کوشش کریں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں