مشترکہ دشمن کے خاتمے کا عزم

دونوں ممالک دہشت گردوں کو موقع نہیں دیں گے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوں

دونوں ممالک دہشت گردوں کو موقع نہیں دیں گے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوں۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ شامل ہوں گے، طے یہ پایا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق ایک دوسرے کے خدشات کو دور کیا جائے گا اور دونوں ممالک دہشت گردوں کو موقع نہیں دیں گے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوں۔

دوسری جانب بلوچستان کے علاقے مچھ میں جیل سمیت تین مقامات پر کالعدم تنظیم بی ایل اے نے حملہ کردیا، جوابی میں کارروائی میں پانچ دہشت گرد مارے گئے، دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار سمیت دو افراد شہیداور 13 زخمی ہوگئے۔

پاک ایران تعلقات کی بحالی کے لیے ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقاتیں خوش آیند امر ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ ایک ایسے موقع پر پاکستان کے دورے پر آئے ہیں جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے کافی کشیدہ تھے، درحقیقت پاکستان اور ایران میں 74 سالوں سے گہری دوستی چلی آرہی ہے۔

اس دوستی کا باقاعدہ معاہدہ 1950میں ہوا تھا جس کے بعد متعدد مواقعے پر یہ دونوں اسلامی ملک اپنی دوستی نبھاتے رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے مابین 950 کلومیٹر طویل سرحد ہونے کے باوجود کوئی سرحدی تنازعہ موجود نہیں ہے لیکن اسی سرحدی پٹی پر دونوں طرف موجود علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں دونوں ممالک کے لیے درد سر بنتی رہی ہیں۔

پاک ایران سرحد کے دونوں اطراف کے علاقے دہشت گردوں کی'' سیف ہیون'' ہے ۔پاکستانی بلوچستان میں مسلح تنظیموں نے 2018میں ایک اتحاد بنا کر اسے '' براس'' کا نام دیا ۔ یہ دہشت گرد پاکستانی بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائی کر کے ایرانی سرحدی علاقے میں چھپ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے لواحقین ان کو لاپتہ قرار دیکر اْلٹا حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ایک محل وقوع ہونے کے باعث دونوں صوبے طویل پہاڑی علاقے ہیں۔ یہ ایک ملک میں اپنی کارروائیاں کر کے دوسرے ملک کے پہاڑوں پر جائے پناہ حاصل کرتے ہیں۔

ایران نے گزشتہ دنوں پاک ایران سرحد سے متصل بلوچستان میں کارروائی کی تھی، اس کے جواب میں پاکستان نے 18جنوری کو علی الصباح '' مرگ بر سرمچار'' کے عنوان سے ایرانی علاقے میں قائم دہشت گردوں کے اڈوں کو نشانہ بنایا۔ بلوچستان میں بغاوت پر آمادہ گروہوں نے سوشل میڈیا پر اسے تسلیم بھی کیا ہے۔

پس یہ جوابی اقدام ناگزیر تھا، اس سے یہ واضح پیغام دینا مقصود تھا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر کسی دوسرے ملک کی در اندازی برداشت نہیں کرے گا، چنانچہ پاکستانی قوم، قومی اور ملی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہوگئی، پاکستان کی مسلح افواج کا یہ اقدام برحق تھا، کیونکہ اس کا جواز خود ایران نے پہل کر کے فراہم کیا اور مزید یہ کہ ایران نے خود تسلیم کیا کہ جو لوگ پاکستانی میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے، وہ ایرانی نہیں تھے، یہ اعتراف بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی پاک ایران سرحد کے اس پار بھی موجود ہیں۔

پاکستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ ساتھ غیرآباد علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے دونوں ملکوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ یہ مسلح گروہکئی دہائیوں سے پاکستان اور ایران میں امن و امان قائم نہیں ہونے دے رہے جس کے باعث دونوں ملکوں کے لیے عالمی سطح پر مسائل پیدا ہوئے ہیں جب کہ سرحدی علاقے مسلسل جہالت اور مستقل بے روزگاری کا شکار ہیں ۔

یہ تنظیمیں اسمگلنگ سے دولت اکٹھی کر کے دہشت گردانہ ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہیں۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ اشیائے خور و نوش ، پٹرولیم مصنوعات، سیمنٹ ، سرامک ٹائلز اور دیگر اشیاء غیرقانونی طور پر پاکستان میں آرہی ہیں، اسی طرح پاکستان سے ایران جارہی ہیں۔اس غیر قانونی کاروبار سے پاکستانی معیشت عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف علیحدگی پسند تنظیمیں اسمگلنگ کی اس دولت سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔


دونوں ممالک کے درمیان جاری موجودہ کشیدگی کی وجوہات میں بارڈر مینجمنٹ، فرقہ وارانہ تعصب، افغان سرحد کا طالبان کے کنٹرول میں ہونا، امریکی دباؤ کی وجہ سے گیس پائپ لائن کے منصوبے میں غیر ضروری تاخیر، انٹیلی جنس شیئرنگ میں دلچسپی کا فقدان اور فیصلہ سازی میں یکسوئی نہ ہونا شامل ہیں۔ تاہم یہ معاملات نئے نہیں ہیں، اگر دونوں ملک توجہ کرتے تو آج دہشت گرد اتنے طاقتور نہ ہوتے تھے۔ دوسری جانب گوادر اور چاہ بہار کا آپسی مقابلہ کرنا ایک غیر ضروری کھیل ہے۔

چاہ بہار ابھی تک محض ایک خواب اور وعدہ ہے اور گوادر ایک جیتی جاگتی حقیقت۔ ایرانی سرکاری اہلکار بارہا پاکستان کو یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ چاہ بہار ہر گز گوادر کا دشمن نہیں بنے گا۔ ایران نے 2014 سے گوادر بندرگاہ پر چار ارب ڈالرز کی ایرانی سرمایہ کاری سے ایک پلانٹ بنانے کی تجویز دے رکھی ہے جس کی یومیہ کیپیسٹی چار لاکھ بیرل تیل ہوگی۔

ایران خود گوادر کے فروغ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے وقت ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑا شفٹ لے اور ایران کو دوستانہ نظروں سے دیکھے۔ چار پڑوسیوں میں کم از کم دو سے تعلقات کی نوعیت دوستانہ ہونی چاہیے، ہمیں ایرانی اشاروں کو سمجھنا چاہیے۔

اس وقت بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے کئی ٹرینوں کو ملتوی کردیا گیا ہے۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو منسوخ کر دیا گیا، کوئٹہ سے کراچی جانے والی بولان میل کو بھی منسوخ کیے جانے کا امکان ہے، بولان میں امن و امان کی صورتحال کے میں خلل کے باعث ٹرین منسوخ کی گئی، سبی تا ہرنائی ٹرین کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔

نگران وزیر اعلیٰ علی مردان ڈومکی نے بھی مچھ اور گردونواح میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ داخلہ بلوچستان کو بحالی امن کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی ہے۔

ایران پر تجارتی پابندیوں کے باوجود پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر ایران کا ڈیزل اور پٹرول بھی آرہا ہے اور یہ پٹرول ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے، اسی طرح ایران کی دوسری مصنوعات بھی کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر پاکستان میں آرہی ہیں اور حکومتِ پاکستان صرفِ نظر سے کام لیتی ہے، ہوسکتا ہے اس میں کچھ با اثر لوگوں کے مفادات بھی شامل ہوں، لیکن بہرحال غیرقانونی تجارت بند ہونی چاہیے۔

اس وقت دونوں ملکوں کو اس قوت کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو دونوں ملکوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ نہایت سنگین اور خوفناک سازش ہے جس میں ہر وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گہرے، پر اعتماد اور برادرانہ تعلقات کی دشمن قوتیں دونوں ملکوں کے روابط میں خلیج حائل کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔

پاکستان اور ایران کی حکومتوں کو دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کرنے والے گروپ کسی کے ہمدرد یا دوست نہیں ہیں' پاکستان 'ایران اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں' انھیں نقل و حرکت کے لیے وسیع علاقہ دستیاب ہے۔ یہ علاقے دہشت گرد گروپوں کے لیے انتہائی محفوظ ہیں 'اگر ان ملکوں کی حکومتیں دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کر لیں اور اپنے اپنے علاقوں میں ایک میکنزم کے تحت بیک وقت کارروائی شروع کریں تو دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کرنے میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں دہشت گرد گروپ بڑی کامیابی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں' ان کے خلاف آپریشنز کامیاب نہیں ہوئے' پاکستان اگر اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو یہ لوگ فرار ہو کر افغانستان اور ایران چلے جاتے ہیں' وہاں ا ن کے لیے محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں' اگر افغانستان اور ایران بھی اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کرے اور اسی دوران پاکستان بھی اپنے علاقے میں آپریشن کرے تو دہشت گردوں کے لیے فرار ہونے کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔

پاک ایران مذاکرات ایک نئے دور کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کی خوشحالی کا دارومدار دہشت گردوں کے خاتمے پر ہے۔اس کے لیے قابل عمل شراکت داری ہونا انتہائی ضروری ہے۔
Load Next Story