بلاول بھٹو کی زبان اور بیان
غیرجانبدارہی نہیں آپ کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں مانتے ہیں کہ کارکردگی میں آپ کاان سے دور دورتک کوئی مقابلہ نہیں
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو صاحب نے اپنی انتخابی مہم میں عمران خان کو فراموش کرکے نہ صرف مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے، بلکہ وہ اپنی طنز اور تضحیک کے سارے تیر میاں نوازشریف پر برسا رہے ہیں۔
وہ میاں نوازشریف کے بارے میں ایسی زبان استعمال کررہے ہیں جس پر دونوں پارٹیوں کے دانا اور زیرک رہنماؤں کو یقیناً حیرانی بھی ہوگی اور دکھ بھی ہوتا ہوگا کہ کیا سیاست میں بڑوں کا کوئی لحاظ اور احترام نہیںہوتا، کیا سیاسی میدان میں وضعداری کی حدود مٹادی جاتی ہیں؟ کیا انتخابی تقریروں میں جو منہ میںآئے وہ بول دیا جاتا ہے؟
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی تاریخ باہمی تصادم کا شکار رہی ہے۔ مگر کئی سالوں تک دست وگریباں رہنے کے بعد دونوں پارٹیوں کی قیادت نے بالآخرپیکار کی سیاست کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔
دونوں اطراف نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا اور آیندہ غیر سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے اور ایک مفاہمانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کا عہد کیا۔ ''میثاقِ جمہوریت '' یا charter of Democracy سیاستدانوں کے کئی دہائیوں کے تجربے اور تدبر کا ثمر تھا، جس کا ملک کے اندر اور باہر ہر جمہوریت پسند شخص نے خیر مقدم کیا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس چارٹر پر دستخط کرنے کے بعد آج تک میاں نوازشریف نے اپنی تقریروں میں پیپلز پارٹی یا بھٹو فیملی پر کبھی تنقید نہیں کی۔ نہ ہی کبھی ان کے بارے میں سخت زبان استعمال کی ہے۔
کچھ لوگ دونوں پارٹیوں کی جانب سے معاہدہ توڑنے کی مثالیں بھی دیتے ہیں لیکن اس میں ڈنڈی مار جاتے ہیں اور معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر دونوں قیادتوں کو برابر کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کس جانب سے ہوئی! میاں نوازشریف کے مخالفین بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی COD کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو جنرل مشرّف کے ساتھ خفیہ معاہدہ کررہی تھیں جس کے تحت ان کے خلاف کیس ختم کردیے گئے۔
اس کے باوجود میاں نوازشریف نے بینظیر بھٹوصاحبہ پر کوئی تنقید نہیں کی۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ کی واپسی کے بعد مشرّف کے لیے میاں صاحب کو روکنا ممکن نہ رہا اور وہ بھی کئی سالوں کی جلا وطنی کاٹنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ دسمبر 2007کے واقعات لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں انتخابی جلسوں میں نوازشریف صاحب، محترمہ بے نظیر صاحبہ کے لیے ''میری بہن'' کا ٹائٹل استعمال کیا کرتے تھے۔
محترمہ بھی میاں صاحب کا ذکر عزت واحترام سے کرتی تھیں۔ 27 دسمبر کی بدقسمت شام کو جب محترمہ لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کرکے نکلیں تو انھیں اطلاع ملی کہ نواز شریف کے جلوس پر فائرنگ ہوگئی ہے، ناہید خان بتاتی ہیں کہ بی بی بہت پریشان ہوئیں اور انھوں نے مجھے کہا کہ ''میاں صاحب سے فوراً میری بات کراؤ'' میں ابھی فون ملا رہی تھی کہ محترمہ گاڑی میں کھڑی ہوئیں تاکہ لوگوں کے نعروں کا جواب دے سکیں۔ بس چند سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ وہ خونی لمحہ آگیا جب وہ جمہوریت اور ملک دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔
دوسری جانب صوررتِ حال کیا تھی؟ میاں نوازشریف صاحب کے ہمسفر بتاتے ہیں کہ جب بے نظیر صاحبہ کے زخمی ہونے کی خبر میاں صاحب تک پہنچی تو وہ تڑپ اٹھے۔ اور انھوں نے فوری طور پر اسپتال پہنچنے پر اصرار کیا۔ کچھ مشیروں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آپ کی حریف جماعت ہے، ان کے ورکر بپھرے ہوں گے، آپ کا اس وقت وہاں جانا مناسب نہیں، کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی ہوسکتا ہے۔
مگر میاں صاحب نے کسی کی بات نہ مانی اور انھوں نے وہی کیا جو ایک ہمدرد بھائی کو کرنا چاہیے تھا، انھوں نے اپنا جلسہ منسوخ کرکے گاڑی کا رخ اسپتال کی جانب موڑدیا۔ لوگوں کو ابھی تک وہ مناظر یاد ہیں جب میاں نوازشریف پیپلز پارٹی کے جیالوں کو گلے لگا کر حوصلہ دیتے رہے۔
اسپتال میں میڈیا کے سامنے صدمے اور غم سے مغلوب رندھی ہوئی آواز میں نوازشریف نے اعلان کیاکہ اپنی بہن محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خون کا بدلہ میں لوں گا۔ وہ دن اور آج کا دن، نوازشریف صاحب نے محترمہ کا ذکر ہمیشہ عزت واحترام کے ساتھ کیا ہے اور ان کے لیے ہمیشہ ہمدردی اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ بلاول صاحب! کیا ایک ایسے لیڈر کے لیے جو آپ کے والد کی عمر سے بڑا ہو۔
جسے آپ کی والدہ بھائی کہتی ہو، جو آپ کی والدہ محترمہ کو بہن سمجھتا ہو اور اپنی بہن کے بیٹے کے طور پر آپ کو ہمیشہ شفقت اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہو، آپ جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ آپ کو زیب دیتی ہے؟ کیا آپ کے مشیروں میں سے کسی میں اتنی عقل، سمجھ بوجھ اور جرأت نہیں ہے کہ وہ آپ کو سمجھائے کہ آپ میاں نوازشریف کے لیے جو زبان استعمال کررہے ہیں 'وہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے کے شایان شان نہیں۔
خورشید شاہ صاحب، قمر زمان کائرہ اور نوید قمر جیسے سینئر لیڈر آپ کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ آپ میاں نوازشریف کے خلاف جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ ہماری مشرقی روایات اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔
آخر آپ کو میاں نوازشریف کے خلاف کس بات کا غصہ ہے؟ کچھ باخبر حضرات سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ 2018میں جس طرح کی سرپرستی عمران خان کی ہوئی، بلاول اُسی طرح کی سرپرستی اب اپنے لیے چاہتے تھے مگر دوسری جانب سے ہاں نہ ہوئی۔ ملک کو پاؤں پر کھڑا کرنے اور معیشت کی بحالی کے لیے ملک کی زمامِ کار ایسے تجربہ کار راہنما کے ہاتھ میں دینا ضروری ہے جس نے اپنے تینوں ادوار میں معیشت کو مضبوط کیا، مہنگائی کو کنٹرول میں رکھا اور ڈالر اوور تیل کو بے لگام نہیں ہونے دیا'۔ اب اس بات کا غصہ میاں نوازشریف پر نکالنے سے پنجابی کا وہ محاورہ یاد آجاتا ہے کہ ڈگا کھوتے توں، تے غصہ کمیارتے' (گرنا گدھے سے ہو اور غصہ خوامخواہ کمہار پر نکالنا)۔
میاں نوازشریف کے شدید مخالف بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ وہ مخالفین کے بارے میں ہمیشہ شُستہ زبان استعمال کرتے ہیں اور کبھی تہذیب اور شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ ان کے مخالفین آج سے پینتیس سال پہلے بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کی تصویریں پھینکنے کی بات کرتے ہیں، اب تو تمام حقائق سامنے آچکے ہیں' اب حسین حقانی' آصف زرداری صاحب کاچہیتا ہے جب کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں ذومعنی گفتگو کرنے والا شیخ رشید عمران خان کو پیارا ہوچکا ہے۔
میرے ذاتی علم میں ہے کہ کسی بدترین مخالف کے بارے میں بھی کسی ساتھی نے کوئی پست سطح کی بات کی تو نوازشریف صاحب نے منع کردیا اور تہذیب اور اسلامی اقدار کے منافی کسی بات کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
جنرل مشرّف نے بلاوجہ ان پر ظلم اور زیادتیوں کے پہاڑ توڑدیے مگر وہ جب بھی اس کا ذکر کرتے ہیں مشرّف صاحب کہتے ہیں۔ اب بھی اُن کے ساتھیوں نے بلاول کی نامناسب باتوں کا جواب دینے کی بات کی تو نوازشریف صاحب نے منع کردیا اور کہا 'کوئی بات نہیں وہ میری بہن بے نظیر کا بیٹا ہونے کے ناطے مجھے عزیز ہے، وقت کے ساتھ سمجھدار ہوجائے گاـ'
سب جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں زرداری صاحب نے جس وزارت پر ہاتھ رکھ دیا وہ لے لی۔ معیشت کی بحالی سے جڑی ہوئی انڈسٹری اور تجارت جیسی اہم ترین وزارتیں پیپلز پارٹی نے رکھ لیں اور مشکل ترین اور گالیاں کھانے والی وزارتیں مسلم لیگ ن کے سپردکی گئیں۔ بلاول صاحب! معیشت کی بحالی کے لیے آپ کی کیا کارکردگی اور contribution ہے۔
قوم ابھی تک اس سے لاعلم ہے! آخری دن تک آپ شہباز شریف کی تعریف وتحسین کرتے رہے، آپ کے وزیر ٹی وی پر آکر معاشی بحران کی ذمے داری قبول کرتے رہے۔ مگر اب آپ کسی جھنجھلاہٹ یا فرسٹریشن کے تحت سارا الزام اپنی حلیف پارٹی پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کی اس کوشش کو باشعور عوام بچگانہ اور مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔
اگر بلاول صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عمران خان انتہائی ناقص کارگردگی کے باوجود صرف مخالفین کو گالیاں دے کر مقبول ہوا اسی طرح شاید میرا بھی تیر تُکّا چل جائے، تو یہ ان کی بھول ہے۔الزام تراشی بری کارکردگی کو نہیں چھپاسکتی۔
آپ کی پارٹی کئی دہائیوں سے سندھ پر حکمران ہے مگر وہاں کے شہری اور صحافی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکمرانی میں شہر کھنڈر بن گئے ہیں، پیسوں کے عوض افسروں کی پوسٹنگ کرانا معمول کی بات ہے، تعلیم سمیت ہر ادارہ برباد ہو چکا ہے، کوئی ایماندار اور باضمیر افسر قابلِ قبول نہیں، نتیجتاً ہر روشن ضمیر اور رزقِ حلال کھانے والے سول سرونٹ کے لیے سندھ کی زمین تنگ کردی جاتی ہے، آپ عمران خان کی طرح صرف باتیں کرتے ہیں جب کہ آپ کے مطعون لیڈر کام کرتے ہیں۔
باتیں کرنے والے مناظرے اور کام کرنے والے موازنے کا چیلنج کرتے ہیں، غیر جانبدار ہی نہیں آپ کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں مانتے ہیں کہ کارکردگی میں آپ کا ان سے دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں۔ اگر آپ پنجاب کے کسی شہر میں کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ میں آپ کے شہر کو کراچی یا حیدرآباد بنادوں گا تو سامعین کھڑے ہو کر شدید احتجاج کریں گے۔
چند سال پہلے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے سابق گورنر نے اولڈ راونیز کے ڈنر میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''شہبازشریف، کراچی کو پیرس نہیں، کراچی کو لاہور بنادے تو ہم سب اس کے مشکور ہوںگے''۔
وہ میاں نوازشریف کے بارے میں ایسی زبان استعمال کررہے ہیں جس پر دونوں پارٹیوں کے دانا اور زیرک رہنماؤں کو یقیناً حیرانی بھی ہوگی اور دکھ بھی ہوتا ہوگا کہ کیا سیاست میں بڑوں کا کوئی لحاظ اور احترام نہیںہوتا، کیا سیاسی میدان میں وضعداری کی حدود مٹادی جاتی ہیں؟ کیا انتخابی تقریروں میں جو منہ میںآئے وہ بول دیا جاتا ہے؟
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی تاریخ باہمی تصادم کا شکار رہی ہے۔ مگر کئی سالوں تک دست وگریباں رہنے کے بعد دونوں پارٹیوں کی قیادت نے بالآخرپیکار کی سیاست کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔
دونوں اطراف نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا اور آیندہ غیر سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے اور ایک مفاہمانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کا عہد کیا۔ ''میثاقِ جمہوریت '' یا charter of Democracy سیاستدانوں کے کئی دہائیوں کے تجربے اور تدبر کا ثمر تھا، جس کا ملک کے اندر اور باہر ہر جمہوریت پسند شخص نے خیر مقدم کیا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس چارٹر پر دستخط کرنے کے بعد آج تک میاں نوازشریف نے اپنی تقریروں میں پیپلز پارٹی یا بھٹو فیملی پر کبھی تنقید نہیں کی۔ نہ ہی کبھی ان کے بارے میں سخت زبان استعمال کی ہے۔
کچھ لوگ دونوں پارٹیوں کی جانب سے معاہدہ توڑنے کی مثالیں بھی دیتے ہیں لیکن اس میں ڈنڈی مار جاتے ہیں اور معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر دونوں قیادتوں کو برابر کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کس جانب سے ہوئی! میاں نوازشریف کے مخالفین بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی COD کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو جنرل مشرّف کے ساتھ خفیہ معاہدہ کررہی تھیں جس کے تحت ان کے خلاف کیس ختم کردیے گئے۔
اس کے باوجود میاں نوازشریف نے بینظیر بھٹوصاحبہ پر کوئی تنقید نہیں کی۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ کی واپسی کے بعد مشرّف کے لیے میاں صاحب کو روکنا ممکن نہ رہا اور وہ بھی کئی سالوں کی جلا وطنی کاٹنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ دسمبر 2007کے واقعات لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں انتخابی جلسوں میں نوازشریف صاحب، محترمہ بے نظیر صاحبہ کے لیے ''میری بہن'' کا ٹائٹل استعمال کیا کرتے تھے۔
محترمہ بھی میاں صاحب کا ذکر عزت واحترام سے کرتی تھیں۔ 27 دسمبر کی بدقسمت شام کو جب محترمہ لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کرکے نکلیں تو انھیں اطلاع ملی کہ نواز شریف کے جلوس پر فائرنگ ہوگئی ہے، ناہید خان بتاتی ہیں کہ بی بی بہت پریشان ہوئیں اور انھوں نے مجھے کہا کہ ''میاں صاحب سے فوراً میری بات کراؤ'' میں ابھی فون ملا رہی تھی کہ محترمہ گاڑی میں کھڑی ہوئیں تاکہ لوگوں کے نعروں کا جواب دے سکیں۔ بس چند سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ وہ خونی لمحہ آگیا جب وہ جمہوریت اور ملک دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔
دوسری جانب صوررتِ حال کیا تھی؟ میاں نوازشریف صاحب کے ہمسفر بتاتے ہیں کہ جب بے نظیر صاحبہ کے زخمی ہونے کی خبر میاں صاحب تک پہنچی تو وہ تڑپ اٹھے۔ اور انھوں نے فوری طور پر اسپتال پہنچنے پر اصرار کیا۔ کچھ مشیروں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آپ کی حریف جماعت ہے، ان کے ورکر بپھرے ہوں گے، آپ کا اس وقت وہاں جانا مناسب نہیں، کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی ہوسکتا ہے۔
مگر میاں صاحب نے کسی کی بات نہ مانی اور انھوں نے وہی کیا جو ایک ہمدرد بھائی کو کرنا چاہیے تھا، انھوں نے اپنا جلسہ منسوخ کرکے گاڑی کا رخ اسپتال کی جانب موڑدیا۔ لوگوں کو ابھی تک وہ مناظر یاد ہیں جب میاں نوازشریف پیپلز پارٹی کے جیالوں کو گلے لگا کر حوصلہ دیتے رہے۔
اسپتال میں میڈیا کے سامنے صدمے اور غم سے مغلوب رندھی ہوئی آواز میں نوازشریف نے اعلان کیاکہ اپنی بہن محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خون کا بدلہ میں لوں گا۔ وہ دن اور آج کا دن، نوازشریف صاحب نے محترمہ کا ذکر ہمیشہ عزت واحترام کے ساتھ کیا ہے اور ان کے لیے ہمیشہ ہمدردی اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ بلاول صاحب! کیا ایک ایسے لیڈر کے لیے جو آپ کے والد کی عمر سے بڑا ہو۔
جسے آپ کی والدہ بھائی کہتی ہو، جو آپ کی والدہ محترمہ کو بہن سمجھتا ہو اور اپنی بہن کے بیٹے کے طور پر آپ کو ہمیشہ شفقت اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہو، آپ جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ آپ کو زیب دیتی ہے؟ کیا آپ کے مشیروں میں سے کسی میں اتنی عقل، سمجھ بوجھ اور جرأت نہیں ہے کہ وہ آپ کو سمجھائے کہ آپ میاں نوازشریف کے لیے جو زبان استعمال کررہے ہیں 'وہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے کے شایان شان نہیں۔
خورشید شاہ صاحب، قمر زمان کائرہ اور نوید قمر جیسے سینئر لیڈر آپ کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ آپ میاں نوازشریف کے خلاف جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ ہماری مشرقی روایات اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔
آخر آپ کو میاں نوازشریف کے خلاف کس بات کا غصہ ہے؟ کچھ باخبر حضرات سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ 2018میں جس طرح کی سرپرستی عمران خان کی ہوئی، بلاول اُسی طرح کی سرپرستی اب اپنے لیے چاہتے تھے مگر دوسری جانب سے ہاں نہ ہوئی۔ ملک کو پاؤں پر کھڑا کرنے اور معیشت کی بحالی کے لیے ملک کی زمامِ کار ایسے تجربہ کار راہنما کے ہاتھ میں دینا ضروری ہے جس نے اپنے تینوں ادوار میں معیشت کو مضبوط کیا، مہنگائی کو کنٹرول میں رکھا اور ڈالر اوور تیل کو بے لگام نہیں ہونے دیا'۔ اب اس بات کا غصہ میاں نوازشریف پر نکالنے سے پنجابی کا وہ محاورہ یاد آجاتا ہے کہ ڈگا کھوتے توں، تے غصہ کمیارتے' (گرنا گدھے سے ہو اور غصہ خوامخواہ کمہار پر نکالنا)۔
میاں نوازشریف کے شدید مخالف بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ وہ مخالفین کے بارے میں ہمیشہ شُستہ زبان استعمال کرتے ہیں اور کبھی تہذیب اور شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ ان کے مخالفین آج سے پینتیس سال پہلے بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کی تصویریں پھینکنے کی بات کرتے ہیں، اب تو تمام حقائق سامنے آچکے ہیں' اب حسین حقانی' آصف زرداری صاحب کاچہیتا ہے جب کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں ذومعنی گفتگو کرنے والا شیخ رشید عمران خان کو پیارا ہوچکا ہے۔
میرے ذاتی علم میں ہے کہ کسی بدترین مخالف کے بارے میں بھی کسی ساتھی نے کوئی پست سطح کی بات کی تو نوازشریف صاحب نے منع کردیا اور تہذیب اور اسلامی اقدار کے منافی کسی بات کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
جنرل مشرّف نے بلاوجہ ان پر ظلم اور زیادتیوں کے پہاڑ توڑدیے مگر وہ جب بھی اس کا ذکر کرتے ہیں مشرّف صاحب کہتے ہیں۔ اب بھی اُن کے ساتھیوں نے بلاول کی نامناسب باتوں کا جواب دینے کی بات کی تو نوازشریف صاحب نے منع کردیا اور کہا 'کوئی بات نہیں وہ میری بہن بے نظیر کا بیٹا ہونے کے ناطے مجھے عزیز ہے، وقت کے ساتھ سمجھدار ہوجائے گاـ'
سب جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں زرداری صاحب نے جس وزارت پر ہاتھ رکھ دیا وہ لے لی۔ معیشت کی بحالی سے جڑی ہوئی انڈسٹری اور تجارت جیسی اہم ترین وزارتیں پیپلز پارٹی نے رکھ لیں اور مشکل ترین اور گالیاں کھانے والی وزارتیں مسلم لیگ ن کے سپردکی گئیں۔ بلاول صاحب! معیشت کی بحالی کے لیے آپ کی کیا کارکردگی اور contribution ہے۔
قوم ابھی تک اس سے لاعلم ہے! آخری دن تک آپ شہباز شریف کی تعریف وتحسین کرتے رہے، آپ کے وزیر ٹی وی پر آکر معاشی بحران کی ذمے داری قبول کرتے رہے۔ مگر اب آپ کسی جھنجھلاہٹ یا فرسٹریشن کے تحت سارا الزام اپنی حلیف پارٹی پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کی اس کوشش کو باشعور عوام بچگانہ اور مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔
اگر بلاول صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عمران خان انتہائی ناقص کارگردگی کے باوجود صرف مخالفین کو گالیاں دے کر مقبول ہوا اسی طرح شاید میرا بھی تیر تُکّا چل جائے، تو یہ ان کی بھول ہے۔الزام تراشی بری کارکردگی کو نہیں چھپاسکتی۔
آپ کی پارٹی کئی دہائیوں سے سندھ پر حکمران ہے مگر وہاں کے شہری اور صحافی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکمرانی میں شہر کھنڈر بن گئے ہیں، پیسوں کے عوض افسروں کی پوسٹنگ کرانا معمول کی بات ہے، تعلیم سمیت ہر ادارہ برباد ہو چکا ہے، کوئی ایماندار اور باضمیر افسر قابلِ قبول نہیں، نتیجتاً ہر روشن ضمیر اور رزقِ حلال کھانے والے سول سرونٹ کے لیے سندھ کی زمین تنگ کردی جاتی ہے، آپ عمران خان کی طرح صرف باتیں کرتے ہیں جب کہ آپ کے مطعون لیڈر کام کرتے ہیں۔
باتیں کرنے والے مناظرے اور کام کرنے والے موازنے کا چیلنج کرتے ہیں، غیر جانبدار ہی نہیں آپ کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں مانتے ہیں کہ کارکردگی میں آپ کا ان سے دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں۔ اگر آپ پنجاب کے کسی شہر میں کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ میں آپ کے شہر کو کراچی یا حیدرآباد بنادوں گا تو سامعین کھڑے ہو کر شدید احتجاج کریں گے۔
چند سال پہلے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے سابق گورنر نے اولڈ راونیز کے ڈنر میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''شہبازشریف، کراچی کو پیرس نہیں، کراچی کو لاہور بنادے تو ہم سب اس کے مشکور ہوںگے''۔