منہاج اور معراج دو بے مثال بھائی آخری حصہ
صحافیوں اورسیاسی کارکنوں نے آمرانہ ادوار میں کیاعذاب نہیں جھیلے لیکن ان کے اندرکبھی نفرت اورانتہا پسندی پیدانہیں ہوئی
ملک میں آٹھ دن بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی درجہ حرارت تیز ہو رہا ہے لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں برداشت، تحمل اور رواداری کی جگہ بد زبانی، تذلیل اور تضحیک آمیز رویے زیادہ فروغ پارہے ہیں۔
سیاسی کارکنوں اور صحافیوں میں بھی سیاسی انتہا پسندی کے ایسے مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں، جن کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں نے آمرانہ ادوار میں کیا عذاب نہیں جھیلے لیکن ان کے اندر کبھی نفرت اور انتہا پسندی پیدا نہیں ہوئی۔
برنا صاحب نے مرحوم نثار عثمانی اور ان گنت صحافیوں نے فوجی آمروں کے غیظ و غضب کو بھگتا، جیلیں کاٹیں۔ یہ 1978 تھا جب ضیا شاہی جلال کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ صحافیوں پر عتاب کے گِدھ نرغہ کیے ہوئے تھے۔
برنا صاحب نے آزادیٔ صحافت اورگرفتار صحافیوں کی آزادی کے لیے خیرپور جیل میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کی، یہ بھوک ہڑتال انھوں نے 30دن بعد اس وقت ختم کی جب فوجی حکومت نے ان کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے۔ اسی بھوک ہڑتال کے دوران برنا صاحب پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوئے جو 33 برس بعد ان کی جان لے کر ٹلی۔
آزادیٔ صحافت کے لیے، صحافیوں اور پاکستان کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے ان کی آواز ہمیشہ بلند ہوتی رہی، ان کی جدوجہد ہمیشہ جاری رہی۔ برنا صاحب نے آسائشوں سے محروم زندگی گزاری اورکبھی اس کی شکایت نہیں کی۔
ہم سب کی طرح انھوں نے بھی جوانی میں عشق کیا تھا۔ ماریا پترانوا ان کی شریک زندگی تھیں۔ آخری عمر انھوں نے طویل اور اذیت ناک بیماری کو جھیلتے ہوئے گزاری جس میں برنا صاحب ہرگھڑی ان کے ساتھ رہے۔ ماریا ان سے بہت پہلے دنیا سے رخصت ہوئیں۔ برنا صاحب نے آزادی صحافت کی جدوجہد سے اور اپنی محبوب ہستی سے جو پیمانِ وفا باندھا تھا وہ آخر تک استوار رہا۔ اب کچھ ذکر منہاج کے چھوٹے بھائی معراج محمد خان کا ہوجائے۔
مرحوم وہاب صدیقی نے معراج محمد خان سے ایک گفتگوکی تھی، جس میں انھوں نے ان سے یہ سوال کیا تھا کہ جب آپ کوئٹہ سے آئے تھے شروع میں تو برنا بھائی کے ساتھ رہے تو پھر وہاں سے لیاری کیوں چلے گئے۔
اس کے جواب میں معراج صاحب نے کہا تھا کہ برنا بھائی سے کسی بات پر اختلاف ہوگیا، انھوں نے مجھے بہت زور سے ڈانٹ دیا کہ نکل جاؤ میرے گھر سے، ان کا ہمیشہ حاکمانہ انداز رہتا تھا۔ انھوں نے کہا نکل جاؤ۔ ہم نکل گئے وہاں سے اور لیاری میں جا کر رہنا شروع کر دیا۔ حسن ناصر وہاں آ تے جاتے تھے۔ انھوں نے برنا صاحب کو کچھ سمجھایا ، پھر ہماری دوبارہ دوستی کروائی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کے سیاسی کلچر میں کتنی رواداری اور وضع داری ہوا کرتی تھی۔
نظریاتی اختلاف بھی اور بڑے بھائی کا احترام بھی اور جب کوئی حسن ناصر جیسا انقلابی آکر سمجھائے تو سارے گلے شکوے آناً فاناً دور ہو جایا کرتے تھے۔ یہ غالباً نصف صدی سے کہیں پہلے کا ذکر ہے۔
ذرا سوچیں کیا آج ہمارے سیاسی کلچر میں اعتدال اور رواداری نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے۔ کیا سیاسی اختلاف سے سماجی تعلقات اور باہمی رشتے تک ختم نہیں ہوجاتے؟ بہرحال یہ وہ دور تھا جب کراچی انقلاب کے نعروں سے گونجتا ہوا شہر تھا۔
طلبہ اور مزدور تنظیمیں اس بات پر مصر تھیں کہ وہ ملک کو آمریت کے شکنجے سے آزاد کرا کے دم لیں گی اور دیو استبداد '' آدم بو... آدم بو...'' چنگھاڑ تا ہوا کوچہ و بازار میں پھرتا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب معراج محمد خان، حسین نقی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی اور دوسرے طالب علم رہنما سماج بدلنے کی اور انقلاب لانے کی باتیں کرتے تھے۔
کراچی وہ شہر تھا جس سے لوگوں کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، یہ وہ دن تھے جب شہر مذہبی، مسلکی، لسانی، نسلی اور فقہی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہوا تھا۔ اس شہر میں مظلوموں کی اکثریت تھی اور ظالم مٹھی بھر تھے۔ آمریت ابھی مضبوط نہیں ہوئی تھی اور اس شہرکے طلبہ ہتھیلی پر اپنی زندگی کے چراغ رکھ کر نکلے تھے۔
اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کراچی میں طلبہ تنظیموں کا بہ طور خاص ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کا زور تھا۔ مارشل لاء کا دیو استبداد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو جیل میں ڈال رہا تھا، کچھ کراچی بدر کیے جارہے تھے، کچھ انڈر گراؤنڈ تھے۔
یہ لوگ گنتی میں کم تھے لیکن فوجی حکومتیں ان سے دہشت زدہ رہتی تھیں۔ بائیں بازو کے لوگوں کی جدوجہد روشن خیالی، جمہوریت، انصاف اور مساوات پر مبنی ایک ایسا سماج چاہتی تھی جہاں مرد اور عورت طلبہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کا حق ملے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آخر تک اپنے پیمان وفا سے سچے رہے، اس دور کے پاکستان میں بہت سے ایسے سیاسی کارکن تھے جنھوں نے جمہوریت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی، ان آوازوں میں ایک بڑی طاقتور آواز اور جدوجہد معراج محمد خان کی تھی۔
وہ جبر کے خلاف للکارکی علامت تھے۔ 1970میں مارشل لا کے خلاف آواز بلند کرنے پر انھیں فوجی عدالت سے 6 سال سزا ہوئی، بھٹو کے دور میں وہ وزیر بھی رہے۔ ان کے پروٹوکول میں وہ شخص بھی شامل تھا جس نے ان کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی۔ اس پولیس افسر کو دیکھ کر معراج محمد خان مسکرائے اور کہا کہ '' میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہے کہ پولیس یا تو میرے آگے یا پیچھے ہوگی۔''
انھوں نے اپنی زندگی کی ابتدا سیاست سے کی۔ ان کے بہت سے ساتھی طالب علم سی ایس ایس کر کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بننے کے خواب دیکھتے تھے۔ ایسے زمانے میں خان صاحب اور بعض دوسرے آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے نکلے۔ اس جرم کی سزا میں ان پر جیل کے دروازے کھلے اور روزی روزگار کے دروازے بند ہوئے، وہ اور ان کے دوسرے ساتھی اتنے ''خطرناک '' سمجھے گئے کہ انھیں شہر بدرکر دیا گیا۔
کسی بھی جمہوری سماج کے استحکام میں طلبہ تنظیمیں، ٹریڈ یونین کے اراکین اور ادیب و شاعر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے ایوب خان کے دور سے جیل کی صعوبتیں سہیں لیکن کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔
معراج محمد خان نے اپنے آخری جلسے میں کہا تھا کہ جب کوئی قوم اپنے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے، جب اقلیتوں کی مذہبی آزاد یاں نشانے پر ہوتی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ شہریوں کی جان و مال خطرے میں پڑ جائے تو پھر انتہا پسند سر اٹھاتے ہیں اور ملک میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کے ہتھیاروں سے وہ ملک اور قوم کوکمزور کردیتے ہیں۔
اس روز انھوں نے کہا تھا کہ اگر ملک میں ترقی پسند سیاست کو فروغ ہوتا اور لوگوں کے درمیان نفرت اور تفرقہ پھیلانے کے بجائے انھیں ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھا جاتا تو نہ انتہا پسند ہمارے یہاں غالب آسکتے تھے اور نہ شیعہ، سنی اور دوسرے فرقوں کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ سکتی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجائیں اور نہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر لوگ قتل کیے جاسکتے تھے۔
منہاج برنا، معراج محمد خان اور ان کے دیگر ساتھی عمر بھر آمریت اور عقل دشمنی کے خلاف لڑائی لڑتے رہے۔ اب ان کے بعد آنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ترقی پسند سوچ کو اپنا بنیادی نکتہ مان کر اکٹھے ہوں اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں، اس وقت خرد دشمنی کی سیاہ گھٹا ہمارے سر پر تلی کھڑی ہے۔
اب ہمارے درمیان نہ منہاج برنا ہیں اور نہ ان کے چھوٹے بھائی معراج محمد خان۔ دونوں دنیا سے جاچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ چاہیے کہ آج کتنے صحافی منہاج برنا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور کتنے سیاسی کارکن معراج محمد خان کی سیاسی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں؟
سیاسی کارکنوں اور صحافیوں میں بھی سیاسی انتہا پسندی کے ایسے مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں، جن کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں نے آمرانہ ادوار میں کیا عذاب نہیں جھیلے لیکن ان کے اندر کبھی نفرت اور انتہا پسندی پیدا نہیں ہوئی۔
برنا صاحب نے مرحوم نثار عثمانی اور ان گنت صحافیوں نے فوجی آمروں کے غیظ و غضب کو بھگتا، جیلیں کاٹیں۔ یہ 1978 تھا جب ضیا شاہی جلال کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ صحافیوں پر عتاب کے گِدھ نرغہ کیے ہوئے تھے۔
برنا صاحب نے آزادیٔ صحافت اورگرفتار صحافیوں کی آزادی کے لیے خیرپور جیل میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کی، یہ بھوک ہڑتال انھوں نے 30دن بعد اس وقت ختم کی جب فوجی حکومت نے ان کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے۔ اسی بھوک ہڑتال کے دوران برنا صاحب پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوئے جو 33 برس بعد ان کی جان لے کر ٹلی۔
آزادیٔ صحافت کے لیے، صحافیوں اور پاکستان کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے ان کی آواز ہمیشہ بلند ہوتی رہی، ان کی جدوجہد ہمیشہ جاری رہی۔ برنا صاحب نے آسائشوں سے محروم زندگی گزاری اورکبھی اس کی شکایت نہیں کی۔
ہم سب کی طرح انھوں نے بھی جوانی میں عشق کیا تھا۔ ماریا پترانوا ان کی شریک زندگی تھیں۔ آخری عمر انھوں نے طویل اور اذیت ناک بیماری کو جھیلتے ہوئے گزاری جس میں برنا صاحب ہرگھڑی ان کے ساتھ رہے۔ ماریا ان سے بہت پہلے دنیا سے رخصت ہوئیں۔ برنا صاحب نے آزادی صحافت کی جدوجہد سے اور اپنی محبوب ہستی سے جو پیمانِ وفا باندھا تھا وہ آخر تک استوار رہا۔ اب کچھ ذکر منہاج کے چھوٹے بھائی معراج محمد خان کا ہوجائے۔
مرحوم وہاب صدیقی نے معراج محمد خان سے ایک گفتگوکی تھی، جس میں انھوں نے ان سے یہ سوال کیا تھا کہ جب آپ کوئٹہ سے آئے تھے شروع میں تو برنا بھائی کے ساتھ رہے تو پھر وہاں سے لیاری کیوں چلے گئے۔
اس کے جواب میں معراج صاحب نے کہا تھا کہ برنا بھائی سے کسی بات پر اختلاف ہوگیا، انھوں نے مجھے بہت زور سے ڈانٹ دیا کہ نکل جاؤ میرے گھر سے، ان کا ہمیشہ حاکمانہ انداز رہتا تھا۔ انھوں نے کہا نکل جاؤ۔ ہم نکل گئے وہاں سے اور لیاری میں جا کر رہنا شروع کر دیا۔ حسن ناصر وہاں آ تے جاتے تھے۔ انھوں نے برنا صاحب کو کچھ سمجھایا ، پھر ہماری دوبارہ دوستی کروائی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کے سیاسی کلچر میں کتنی رواداری اور وضع داری ہوا کرتی تھی۔
نظریاتی اختلاف بھی اور بڑے بھائی کا احترام بھی اور جب کوئی حسن ناصر جیسا انقلابی آکر سمجھائے تو سارے گلے شکوے آناً فاناً دور ہو جایا کرتے تھے۔ یہ غالباً نصف صدی سے کہیں پہلے کا ذکر ہے۔
ذرا سوچیں کیا آج ہمارے سیاسی کلچر میں اعتدال اور رواداری نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے۔ کیا سیاسی اختلاف سے سماجی تعلقات اور باہمی رشتے تک ختم نہیں ہوجاتے؟ بہرحال یہ وہ دور تھا جب کراچی انقلاب کے نعروں سے گونجتا ہوا شہر تھا۔
طلبہ اور مزدور تنظیمیں اس بات پر مصر تھیں کہ وہ ملک کو آمریت کے شکنجے سے آزاد کرا کے دم لیں گی اور دیو استبداد '' آدم بو... آدم بو...'' چنگھاڑ تا ہوا کوچہ و بازار میں پھرتا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب معراج محمد خان، حسین نقی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی اور دوسرے طالب علم رہنما سماج بدلنے کی اور انقلاب لانے کی باتیں کرتے تھے۔
کراچی وہ شہر تھا جس سے لوگوں کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، یہ وہ دن تھے جب شہر مذہبی، مسلکی، لسانی، نسلی اور فقہی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہوا تھا۔ اس شہر میں مظلوموں کی اکثریت تھی اور ظالم مٹھی بھر تھے۔ آمریت ابھی مضبوط نہیں ہوئی تھی اور اس شہرکے طلبہ ہتھیلی پر اپنی زندگی کے چراغ رکھ کر نکلے تھے۔
اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کراچی میں طلبہ تنظیموں کا بہ طور خاص ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کا زور تھا۔ مارشل لاء کا دیو استبداد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو جیل میں ڈال رہا تھا، کچھ کراچی بدر کیے جارہے تھے، کچھ انڈر گراؤنڈ تھے۔
یہ لوگ گنتی میں کم تھے لیکن فوجی حکومتیں ان سے دہشت زدہ رہتی تھیں۔ بائیں بازو کے لوگوں کی جدوجہد روشن خیالی، جمہوریت، انصاف اور مساوات پر مبنی ایک ایسا سماج چاہتی تھی جہاں مرد اور عورت طلبہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کا حق ملے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آخر تک اپنے پیمان وفا سے سچے رہے، اس دور کے پاکستان میں بہت سے ایسے سیاسی کارکن تھے جنھوں نے جمہوریت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی، ان آوازوں میں ایک بڑی طاقتور آواز اور جدوجہد معراج محمد خان کی تھی۔
وہ جبر کے خلاف للکارکی علامت تھے۔ 1970میں مارشل لا کے خلاف آواز بلند کرنے پر انھیں فوجی عدالت سے 6 سال سزا ہوئی، بھٹو کے دور میں وہ وزیر بھی رہے۔ ان کے پروٹوکول میں وہ شخص بھی شامل تھا جس نے ان کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی۔ اس پولیس افسر کو دیکھ کر معراج محمد خان مسکرائے اور کہا کہ '' میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہے کہ پولیس یا تو میرے آگے یا پیچھے ہوگی۔''
انھوں نے اپنی زندگی کی ابتدا سیاست سے کی۔ ان کے بہت سے ساتھی طالب علم سی ایس ایس کر کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بننے کے خواب دیکھتے تھے۔ ایسے زمانے میں خان صاحب اور بعض دوسرے آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے نکلے۔ اس جرم کی سزا میں ان پر جیل کے دروازے کھلے اور روزی روزگار کے دروازے بند ہوئے، وہ اور ان کے دوسرے ساتھی اتنے ''خطرناک '' سمجھے گئے کہ انھیں شہر بدرکر دیا گیا۔
کسی بھی جمہوری سماج کے استحکام میں طلبہ تنظیمیں، ٹریڈ یونین کے اراکین اور ادیب و شاعر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے ایوب خان کے دور سے جیل کی صعوبتیں سہیں لیکن کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔
معراج محمد خان نے اپنے آخری جلسے میں کہا تھا کہ جب کوئی قوم اپنے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے، جب اقلیتوں کی مذہبی آزاد یاں نشانے پر ہوتی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ شہریوں کی جان و مال خطرے میں پڑ جائے تو پھر انتہا پسند سر اٹھاتے ہیں اور ملک میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کے ہتھیاروں سے وہ ملک اور قوم کوکمزور کردیتے ہیں۔
اس روز انھوں نے کہا تھا کہ اگر ملک میں ترقی پسند سیاست کو فروغ ہوتا اور لوگوں کے درمیان نفرت اور تفرقہ پھیلانے کے بجائے انھیں ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھا جاتا تو نہ انتہا پسند ہمارے یہاں غالب آسکتے تھے اور نہ شیعہ، سنی اور دوسرے فرقوں کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ سکتی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجائیں اور نہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر لوگ قتل کیے جاسکتے تھے۔
منہاج برنا، معراج محمد خان اور ان کے دیگر ساتھی عمر بھر آمریت اور عقل دشمنی کے خلاف لڑائی لڑتے رہے۔ اب ان کے بعد آنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ترقی پسند سوچ کو اپنا بنیادی نکتہ مان کر اکٹھے ہوں اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں، اس وقت خرد دشمنی کی سیاہ گھٹا ہمارے سر پر تلی کھڑی ہے۔
اب ہمارے درمیان نہ منہاج برنا ہیں اور نہ ان کے چھوٹے بھائی معراج محمد خان۔ دونوں دنیا سے جاچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ چاہیے کہ آج کتنے صحافی منہاج برنا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور کتنے سیاسی کارکن معراج محمد خان کی سیاسی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں؟