عدالتی فیصلوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ چور کون تھا مریم اورنگزیب
عثمان بزدار جیسوں کو لاکر کرپشن کا بازار گرم کیا گیا، دوسروں کو چور کہتے رہے حالانکہ چور خود تھے، پریس کانفرنس
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ چور کون تھا۔
پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرکزی ترجمان مسلم لیگ ن اور سابق وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ روز فیصلے آ رہے ہیں ، آر ٹی ایس بٹھا کر چور ملک پر مسلط کیے گئے تھے ، اس وقت بھی ہم اس کا اظہار کرتے رہے ، لیکن ساری اپوزیشن پر کیسز بنا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا ، چور چور کا شور مچا کر بیانیہ بنایا گیا، اب جو فیصلے آ رہے ہیں ان سے ثابت ہو گیا ہے کہ ایک چور کون تھا ۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ 2013 سے 2017 تک کی بھی آئی تھی، تب یہ 140 سے 117 پر انڈیکس پہنچ گیا تھا ۔ تب لوڈشیڈنگ ختم کی گئی، ایل این جی آئی، موٹر ویز بنیں، اسپتال، اسکول بنے۔ ان سب کے باوجود گورننس اچھی رہی کیونکہ وزیراعظم سچا اور امین تھا ۔ یہی بیوروکریٹ، یہی نظام تھا، مقامی اور بین الاقوامی سطح پر خریداری کے معاہدے ہوئے لیکن ایک ایک پیسہ امانت سمجھ کر خرچ کیا گیا ۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس کے بعد 2018 سے 2022 کی ایک رپورٹ آئی، وہی نظام تھا لیکن کرپشن انڈیکس پھر 140 تک گر جاتا ہے ۔ اس دور میں کوئی منصوبہ نہیں بنا مگر گوگی پنکی کوریڈور ضرور بنا۔ عثمان بزدار جیسوں کو اقتدار میں بٹھایا گیا جس نے کرپشن کا بازار گرم کر دیا ۔ 25 ہزار ارب کا قرض لیا گیا لیکن سب کہاں گیا ؟۔ اتنا قرضہ لیا لیکن دوسروں کو چور کہتے رہے حالانکہ چور خود تھے ۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ اس رقم سے غریب کو سستی روٹی مل سکتی تھی، نوجوانوں کو روزگار مل سکتا تھا لیکن وہ سب کھا گئے ۔ انہوں نے ڈیلی میل کے صحافی کو بلا کر اسٹوری کروائی لیکن کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ نواز شریف پر پاناما کا کیس بنایا لیکن سزا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر دی ۔ انہوں نے اپنی پوری سیاست اور بیانیہ دوسروں کو چور چور کہنے پر بنایا۔ شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت میں دوبارہ ترقیاتی منصوبے لگنا شروع ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد متاثرین کے لیے منصوبے لگے تو اوپر بیٹھا شخص امانت سمجھ کر پیسہ خرچ کر رہا تھا تو کرپشن انڈیکس دوبارہ بہتر ہو کر 140 سے 133 تک پہنچ گیا ۔ جب جب ملک میں نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت آتی ہے تو ملک میں کرپشن اور چوری کم ہو جاتی ہے ۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اوپر بیٹھا شخص خود چوری نہ کرے تو سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے ۔ لیکن سب اوپر سے نیچے تک منظم چوری کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ان سے چوری کا سوال پوچھا جائے تو یہ شہدا کی یادگاروں پر حملہ آور ہوتے ہیں، عدلیہ کو نشانہ بناتے ہیں، اوئے توئے کرتے ہیں ، کیونکہ چور ہمیشہ شور مچاتا ہے ۔ کیا انہیں 25 ہزار ارب معاف کر دیا جائے ؟۔ انہوں نے سائفر کو سیاسی بیانیہ بنا لیا کیونکہ انہیں پتا تھا کہ چوری پکڑی جانی ہے ۔ انہوں نے کووڈ فنڈ تک کھا لیا ۔ انہوں نے باقاعدہ سازش اور منصوبہ بندی کر کے ملک کو لوٹا ۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اربوں کھربوں کے منصوبے لگے لیکن کوئی کرپشن نہیں ہوئے۔ اسے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دینے والے ججز والے دیکھیں کہ سسلیئن مافیا کون ہے ۔ یہ ملک برباد کر کے ہمارے حوالے کر دیتے ہیں کہ اسے ٹھیک کرو ۔ حالانکہ ہم تو سب کچھ ٹھیک کر کے جاتے ہیں ۔ انہوں نے ملک کو تماشا بنا دیا ہے کہ دہشت گردی واپس، لوڈشیڈنگ واپس ، لیکن ہم یہ سب کچھ دوبارہ سے ٹھیک کرینگے اور نواز شریف کی قیادت میں کرینگے ۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 8 فروری کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر سب کچھ ٹھیک کرنا ہے تو نواز شریف کو واپس لانا ہو گا ۔ سب کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا ۔ نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے کیسز کا کوئی موازنہ نہیں ہے ۔ توشہ خانہ کا ایک پراسیس ہے کہ آپ تحائف جمع کروا کر اس کی قیمت لگنے کے بعد اس کی مقررہ قیمت جمع کروائیں ، لیکن انہوں نے تحائف جمع نہیں کروائے اور گھر لے گئے ۔ انہوں نے سائفر کا ڈراما کیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ 9 مئی کو اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے عوام کو استعمال کر کے زمان پارک میں پٹرول بم کی فیکٹری لگائی گئی ۔ تمام مجرموں کا مکمل احتساب ہو گا اور لازمی ہو گا ۔ نواز شریف کو کلین فیلڈ ان کی کارکردگی کی بنا پر مل رہی ہے۔ اگر وہ انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے تو آج ان کے پاس انتخابی نشان بھی موجود ہوتا ۔ اب بھی تمام جماعتیں انتخابی میدان میں موجود ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نوٹنکی اور تماشے نہیں کرتے، ہم نے عدالتی فیصلے پر کوئی مٹھائی تقسیم نہیں کی ۔ ہمارے خلاف بھی توشہ خانہ کا کیس بنایا گیا لیکن ان کے پاس کچھ نہیں نکلا ۔ ان کیخلاف ڈیڑھ سال سے کیس چل رہا ہے لیکن انہوں نے کوئی رسیدیں نہیں دیں ۔ نوجوانوں کے لیے ہم نے منشور میں بہترین منصوبے دے دیے ہیں۔ ہم نے جج پر کبھی کوئی بات نہیں کر رکھی بلکہ فیصلے پر بات کر رکھی ہے۔