محکمہ کالج ایجوکیشن میں میگا کرپشن کے دستاویزی ثبوت سامنے آنے سے ہلچل
محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے بائیو میٹرک مشین اسکینڈل کی انکوائری ڈی جی کے سپرد/ دیگر معاملات میں پس وپیش کا مظاہرہ
محکمہ کالج ایجوکیشن میں مبینہ میگا کرپشن کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے نے حکومت سندھ کو خط لکھ دیا۔
محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ میں بائیو میٹرک،اساتذہ کی تربیت،اسپورٹس اورغیرنصابی سرگرمیوں کے فنڈز،فرنیچراینڈفکسچراورڈیجیٹل لائبریریزکی مدوں میں میگا کرپشن کی تین سال پر محیط زبانی داستانیں اب دستاویزکی شکل میں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں جس سے محکمے میں ایک ہلچل سے مچی ہوئی ہے۔
میگا کرپشن کے مبینہ ثبوتوں کے ساتھ اس داستان کے سامنے آنے کے بعد محکمہ کالج ایجوکیشن پرایس اینڈجی ڈی اے اورمحکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
اب یہ معاملہ محکمہ کالج ایجوکیشن کی حدودسے نکل کرنیب،ایف آئی اے اوراینٹی کرپشن تک جاپہنچا ہے اورایف آئی اے نے اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے حکومت سندھ کوبھی خط تحریر کردیا ہے جس میں حکومت سندھ سے اس معاملے کی تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔
ادھرمتواترتحقیقات سے بچنے کے لیے محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ نے ان مختلف مدوں میں سے صرف ایک"بائیومیٹرک مشینوں" کی خریداری میں مبینہ بے ضابطگیوں اورقواعد کی خلاف ورزیوں پرمصنوعی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
بظاہریہ معاملہ ثبوتوں کی بھاری فائلوں کے ساتھ سندھ پروفیسراینڈلیکچررایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما پروفیسرشاہ جہاں پہنورکی جانب سے آشکار کیا گیاہے جبکہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج کے ایک سابق پرنسپل نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اوربعد از ریٹائرمنٹ کئی بارمحکمہ سے اس بارے میں شکایات کی تھیں جس میں ڈائریکٹوریٹ جنرل کالجز سندھ اورسیکریٹریٹ میں تعینات بعض افسران اورملازمین کانام لے کران پر الزام عائد کیا گیا ہے جس میں سے فی الحال ایک افسرکوشامل تفتیش کیا گیا ہے۔
"ایکسپریس"کواس سلسلے میں حاصل ہونیوالی دستاویزات اورثبوت بتاتے ہیں کہ سیکریٹری کالج ایجوکیشن سندھ صدف شیخ کے 13 دسمبر 2023 کے ایک نوٹیفکیشن کے تحت ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ صالح عباس اورا یڈیشنل سیکریٹری محمد جمن تھیبوپر مشتمل دورکنی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی ہے جو بظاہرسندھ کے سرکاری کالجوں میں بائیومیٹرک مشین کی خریداری میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کررہی ہے۔
کمیٹی اس سلسلے میں گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج ڈہرکی ڈسٹرکٹ گھوٹکی کے سابق اورموجود پرنسپلز کی جانب سے اس سلسلے میں لگائے گئے الزامات کی جانچ کرے گی اوراس بات کاجائزہ لے گی کہ سرکاری کالجوں میں بائیومیٹرک مشین کی خریداری میں سپرارولز کی کس طرح خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ اوراس سے جڑی کہانیاں گزشتہ تین سال یا دومالی سال کے سالانہ بجٹ پر محیط ہیں اورکروڑوں روپے کایہ بجٹ ڈائریکٹوریٹ جنرل کالجز سندھ کومختلف مدوں میں جاری ہوتا رہا۔
ان داستانوں میں بائیومیٹرک کی کہانی ضلع گھوٹکی کے ایک پرنسپل پروفیسرعبداللہ حفیظ بھٹوسے شروع ہوتی ہے جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ محکمہ کالج ایجوکیشن کے سال 2020کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اورسیکشن افسرراشد کھوسو نے مارچ 2022میں ٹیلی فون کے ذریعے یہ ہدایت جاری کی کہ بائیومیٹرک مشین کی خریداری کے لیے کراچی میں موجودایک نجی بینک کے متعلقہ اکاؤنٹ نمبرپر 70ہزارروپے جمع کرادیں۔
مذکورہ سابق پرنسپل نے دعویٰ کیاکہ چونکہ میں یہ رقم کسی بھی صورت کالج اکاؤنٹ سے ریلیز نہیں کرسکتا تھا لہٰذا ہدایت کے مطابق مجبوراًاپنی ذاتی تنخواہ سے رقم جمع کرائی جس کے بعد اپریل میں بائیومیٹرک مشین لگائی گئی۔
پروفیسرعبداللہ بھٹونے محکمہ کودی گئی اپنی شکایت میں کہاکہ راشد کھوسوسے کئی باراس بارے میں استفسارکیاکہ آخریہ رقم کس اکاؤنٹ سے ریلیز کروں تاہم انھوں نے اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ سال 2022اور2023کے اوائل تک یہ سلسلہ کراچی سمیت سندھ کے تمام سرکاری کالجوں میں پھیل گیا جبکہ بیشترکالجوں میں عدالتی حکم پر پہلے ہی بائیومیٹرک مشین نصب کی جاچکی تھی، اس کے باوجود مبینہ طورپر پرنسپلزپر یہ دباؤتھاکہ وہ پرانی مشینوں کوبھول جائیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ کالج پرنسپلزکواس سلسلے میں کوئی فنڈز فراہم نہیں کیا گیا، ان سے کہاگیاکہ ایک مخصوص وینڈر "پاورسالوشن پرائیویٹ لمیٹڈ"(نامی کمپنی جوبظاہرکراچی کے علاقے ماڈل کالونی سے آپریٹ ہورہی تھی)سے ہی مشین خریدیں۔
اس سلسلے میں کئی پرنسپلز اورپروفیسرشاہ جہاں پہنورکی جانب سے لگئے الزام یہ بتاتے ہیں کہ مارکیٹ میں یہ مشین اس وقت 25سے 27ہزارروپے مالیت کی تھی تاہم مذکورہ وینڈراسے 70ہزارروپے میں بغیرکسی وارنٹی کے فروخت کررہاتھا اورہرکالج پرنسپل پر یہ دباؤتھاکہ اس وینڈرکے علاوہ کسی دوسری جگہ سے مشین نہیں خریدی جاسکتی۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس مخصوص وینڈر کوسندھ کے کل 343سرکاری کالجوں میں ان مشینوں کی خریداری سے 2کروڑ45لاکھ روپے کافائدہ پہنچایا گیا جس کا تذکرہ متاثرہ پرنسپل نے اپنے خط میں بھی کیا ہے۔
اس سلسلے میں سیپرارولز اورprocurement manualsکی کھلی خلاف ورزی کی گئی اورباقاعدہ کوئی ٹینڈرجاری ہی نہیں کیا گیا۔
"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں جب مشین کے حوالے سے معلومات حاصل کیں توبات سامنے آئی کہ کالجوں کوفراہم کی جانے والی ماڈل کی مشین مارکیٹ میں موجودنہیں ہے۔
"ایکسپریس"نے کراچی کے مختلف اضلاع کے کالجوں میں موجود مشینوں کی تصاویرحاصل کی توہرکالج میں مذکورہ ماڈل کی ہی مشین موجود تھی محکمہ تعلیم کے ایک موجود افسراورسابق پرنسپل نے بتایاکہ انھوں نے جب مشین کالج میں لگائی تھی تواس وقت مارکیٹ میں اس مشین کی قیمت 30ہزاریااس سے کچھ زائد تھی۔
"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں اس وقت کے اسسٹنٹ اورحال کے ڈپٹی سیکریٹری راشدکھوسوسے جب اس سلسلے میں دریافت کیاتوان کا کہنا تھاکہ ان کے خلاف ماضی میں انکوائری ہوئی تھی جس میں انھیں ڈپارٹمنٹ نے کلیئر کردیاتھا، جب ان سے کہا گیاکہ وہ خط شیئرکریں توانھوں نے کئی روز کی تاخیر کے بعد جوخط شیئرکیااس میں مذکورہ انکوائری کا کہیں بھی ذکرموجودنہیں تھا بلکہ انہی کے متعلق ماضی کے کسی اورانکوائری میں بظاہرانھیں کلیئرکیاگیاتھا۔
استفسارپران کاکہناتھاکہ خط میں توذکرنہیں لیکن اس انکواری میں بائیومیٹرک کامعاملہ بھی شامل تھا، ایک سوال پران کا کہنا تھاکہ اب ان کے خلاف مزیدکوئی انکوائری نہیں ہورہی نہ ہی وہ کہیں اس سلسلے میں پیش ہوئے ہیں، جبکہ شکایت کنندہ پروفیسرشاہ جہاں پہنورنے دعویٰ کیاکہ جب انھیں انکوائری کمیٹی نے حال میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلایاتھاتواسی اثناء میں متعلقہ ڈپٹی سیکریٹری کوبھی بلایا گیا تھا۔
ادھرراشد کھوسوکامزیدکہناتھاکہ جب شاہ جہاں پہنورمیری پوسٹنگ سے متعلق عدالت میں کیس دائر کرچکے ہیں تواب کس لیے ہرجگہ میرے خلاف شکایات کررہے ہیں۔
دوسری جانب کراچی کے ایک کالج پرنسپل نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس" کوبتایا کہ ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ کی سربراہی میں جوکمیٹی کام کررہی ہے اس کے سامنے کئی حیران کن حقائق سامنے آئے ہیں، پہلے تویہ بات کہ ایک غیرمرئی قوت ضرورہے جس کے کہنے پرتقریباً تمام ہی کالجوں کے پرنسپلز نے ایک ہی وینڈرسے مارکیٹ سے مہنگی مشین خریدی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ یہ کہ اس میشن کاڈیٹاایک پرائیویٹ کمپنی کے "سرور"پرجارہا ہے جبکہ اب تک تلاش کے باوجود اس کمپنی سے کسی بھی قسم کے معاہدے کی دستاویزسامنے نہیں آسکی ہیں جس سے یہ بات معلوم ہوسکے کہ اس کمپنی کوکن شرائط پر ڈیٹا دیا جارہاہے، یہ کمپنی محکمہ سے کتنی رقم لے رہی ہے یا مفت میں کیوں اورکیسے محکمے کا یہ ڈیٹاایک پرائیویٹ کمپنی کے پاس جارہا ہے۔
اس معاملے پر "ایکسپریس"نے ڈی جی کالجزپروفیسرصالح عباس سے ان کے دفترمیں ملاقات کی اورانکوائری کے حوالے سے ان سے دریافت کیاجس پر انھوں نے محض ایک انکوائری کی تصدیق توکی لیکن کچھ بھی بتانے سے یہ کہہ کرمعذرت کرلی اوراس سلسلے میں لگے الزامات کی تصدیق یاتردید نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ وہ سیکریٹری ایجوکیشن کے حوالے کریں گے۔
علاوہ ازیں سال 2022اور2023میں محکمہ کالج ایجوکیشن سے جڑی مبینہ کرپشن کی دیگرالزامات پر مشتمل کہانیوں پرمحکمہ کی جانب سے فی الحال کسی قسم کی تحقیقات کاسلسلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
ان الزامات میں کہا گیا ہے کہ کالجوں میں ہم نصابی سرگرمیوں اوراسپورٹس اورتجربہ گاہوں کے لیے سائنسی آلات کی خریداری کی بابت 9کروڑروپے کابجٹ سندھ سرکارکی جانب سے جاری کیاگیا تاہم اس سلسلے میں رقوم مخصوص وینڈرزکے بنائے گئے بلزکی بنیادپر متعلقہ کالجوں کے پرنسپلزکوجاری کرناپڑی جبکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں جاری کی گئی رقوم کی کالجوں میں غیرنصابی اورکھیلوں سرگرمیوں کے انعقادسے تصدیق کی جائے کیونکہ اس سلسلے میں پرنسپلز کوکھیلوں اورغیرنصابی سرگرمیوں کے انعقاد سے متعلق کوئی presribed performaفنڈزکے ریلیز کے لیے جاری ہی نہیں ہوا۔
انہی الزامات کی بابت ایک یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ کالجوں میں ڈیجیٹل لائبریریزکے قیام کے لیے 67ملین روپے کافنڈother headsکے نام سے جاری ہوااس میں بھی سپرارولز کی خلاف ورزی کی گئی اورکالج کے ڈی ڈی اووزنے آخرکس طرح متعلقہ مشینوں یاآلات کی خریداری کوestimateکیا۔
اسی طرح کالجوں کوغیرمعیاری فرنیچرفراہم کیاگیاجوضرورت سے ناکافی بھی تھا اوراس کی پروکیورمنٹ میں انڈسٹری ڈپارٹنمنٹ کے نمائندے کوشامل ہی نہیں کیاگیاجوفرنیچرکی کوالٹی کے معیارکی جانچ کرتا ہے، مزید یہ کہ بظاہرپورے سندھ میں ٹیچرٹریننگ کرائی گئی جس کے لیے محکمہ فنانس سے 2کروڑروپے کابجٹ دومالی سال میں جاری ہواجبکہ اس کے علاوہ دوبرسوں میں پیٹرول کی مد میں 62لاکھ،ٹی اے ڈی اے کی مد میں 15لاکھ اورورکشاپ کرانے کی مد میں 20لاکھ روپے جاری ہوئے۔
تاہم تربیت کے نام پر کالج اساتذہ کومحض لیکچردیے گئے، تربیت دینے والوں کے پاس اساتذہ کی اہلیت competenciesجانچے کے لیے کسی قسم کاٹریننگ مینوول تک نہیں تھا اورٹریننگ کے نام پر سرکاری بجٹ خرچ کیاگیالیکن چونکہ ٹریننگ ایک مصنوعی مرحلہ تھالہذا اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔
ادھرکالجوں میں ٹرانسفر/پوسٹنگ کے حوالے سے کچھ الزامات سیکریٹری کالج ایجوکیشن کے پی اے امتیاز پٹھان پر بھی لگائے گئے ہیں جس کی انکوائری کے لیے باقاعدہ ایف آئی اے نے 14 دسمبر 2023 کو خط بھی جاری کیا۔
"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں کئی بار امتیاز پٹھان سے رابطے کی کوشش کی انھوں نے صرف ایک بارفون ریسیووکیااورالزامات کاسن کرکہاکہ وہ فی الحال مصروف ہیں call backکرکے اس معاملے پر بات کریں گے جس کے بعد دوباران کی جانب سے فون آیانہ فون کاجواب دیا، انھیں ایس ایم ایس اورووٹس ایپ پر بھی پیغام دیاگیاتاہم انھوں نے ان الزامات کی بابت کوئی جواب نہیں دیا۔
علاوہ ازیں نگراں دورحکومت میں تعینات موجودہ سیکریٹری ایجوکیشن صدف شیخ سے بھی اس سلسلے میں رابطے کرکے یہ سوال کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ دیگرالزامات پر انکوائری کیوں نہیں کرارہیں تاہم ان کی جانب سے بھی اس سلسلے میں موقف نہیں دیاگیا۔
محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ میں بائیو میٹرک،اساتذہ کی تربیت،اسپورٹس اورغیرنصابی سرگرمیوں کے فنڈز،فرنیچراینڈفکسچراورڈیجیٹل لائبریریزکی مدوں میں میگا کرپشن کی تین سال پر محیط زبانی داستانیں اب دستاویزکی شکل میں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں جس سے محکمے میں ایک ہلچل سے مچی ہوئی ہے۔
میگا کرپشن کے مبینہ ثبوتوں کے ساتھ اس داستان کے سامنے آنے کے بعد محکمہ کالج ایجوکیشن پرایس اینڈجی ڈی اے اورمحکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
اب یہ معاملہ محکمہ کالج ایجوکیشن کی حدودسے نکل کرنیب،ایف آئی اے اوراینٹی کرپشن تک جاپہنچا ہے اورایف آئی اے نے اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے حکومت سندھ کوبھی خط تحریر کردیا ہے جس میں حکومت سندھ سے اس معاملے کی تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔
ادھرمتواترتحقیقات سے بچنے کے لیے محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ نے ان مختلف مدوں میں سے صرف ایک"بائیومیٹرک مشینوں" کی خریداری میں مبینہ بے ضابطگیوں اورقواعد کی خلاف ورزیوں پرمصنوعی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
بظاہریہ معاملہ ثبوتوں کی بھاری فائلوں کے ساتھ سندھ پروفیسراینڈلیکچررایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما پروفیسرشاہ جہاں پہنورکی جانب سے آشکار کیا گیاہے جبکہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج کے ایک سابق پرنسپل نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اوربعد از ریٹائرمنٹ کئی بارمحکمہ سے اس بارے میں شکایات کی تھیں جس میں ڈائریکٹوریٹ جنرل کالجز سندھ اورسیکریٹریٹ میں تعینات بعض افسران اورملازمین کانام لے کران پر الزام عائد کیا گیا ہے جس میں سے فی الحال ایک افسرکوشامل تفتیش کیا گیا ہے۔
"ایکسپریس"کواس سلسلے میں حاصل ہونیوالی دستاویزات اورثبوت بتاتے ہیں کہ سیکریٹری کالج ایجوکیشن سندھ صدف شیخ کے 13 دسمبر 2023 کے ایک نوٹیفکیشن کے تحت ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ صالح عباس اورا یڈیشنل سیکریٹری محمد جمن تھیبوپر مشتمل دورکنی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی ہے جو بظاہرسندھ کے سرکاری کالجوں میں بائیومیٹرک مشین کی خریداری میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کررہی ہے۔
کمیٹی اس سلسلے میں گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج ڈہرکی ڈسٹرکٹ گھوٹکی کے سابق اورموجود پرنسپلز کی جانب سے اس سلسلے میں لگائے گئے الزامات کی جانچ کرے گی اوراس بات کاجائزہ لے گی کہ سرکاری کالجوں میں بائیومیٹرک مشین کی خریداری میں سپرارولز کی کس طرح خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ اوراس سے جڑی کہانیاں گزشتہ تین سال یا دومالی سال کے سالانہ بجٹ پر محیط ہیں اورکروڑوں روپے کایہ بجٹ ڈائریکٹوریٹ جنرل کالجز سندھ کومختلف مدوں میں جاری ہوتا رہا۔
ان داستانوں میں بائیومیٹرک کی کہانی ضلع گھوٹکی کے ایک پرنسپل پروفیسرعبداللہ حفیظ بھٹوسے شروع ہوتی ہے جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ محکمہ کالج ایجوکیشن کے سال 2020کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اورسیکشن افسرراشد کھوسو نے مارچ 2022میں ٹیلی فون کے ذریعے یہ ہدایت جاری کی کہ بائیومیٹرک مشین کی خریداری کے لیے کراچی میں موجودایک نجی بینک کے متعلقہ اکاؤنٹ نمبرپر 70ہزارروپے جمع کرادیں۔
مذکورہ سابق پرنسپل نے دعویٰ کیاکہ چونکہ میں یہ رقم کسی بھی صورت کالج اکاؤنٹ سے ریلیز نہیں کرسکتا تھا لہٰذا ہدایت کے مطابق مجبوراًاپنی ذاتی تنخواہ سے رقم جمع کرائی جس کے بعد اپریل میں بائیومیٹرک مشین لگائی گئی۔
پروفیسرعبداللہ بھٹونے محکمہ کودی گئی اپنی شکایت میں کہاکہ راشد کھوسوسے کئی باراس بارے میں استفسارکیاکہ آخریہ رقم کس اکاؤنٹ سے ریلیز کروں تاہم انھوں نے اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ سال 2022اور2023کے اوائل تک یہ سلسلہ کراچی سمیت سندھ کے تمام سرکاری کالجوں میں پھیل گیا جبکہ بیشترکالجوں میں عدالتی حکم پر پہلے ہی بائیومیٹرک مشین نصب کی جاچکی تھی، اس کے باوجود مبینہ طورپر پرنسپلزپر یہ دباؤتھاکہ وہ پرانی مشینوں کوبھول جائیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ کالج پرنسپلزکواس سلسلے میں کوئی فنڈز فراہم نہیں کیا گیا، ان سے کہاگیاکہ ایک مخصوص وینڈر "پاورسالوشن پرائیویٹ لمیٹڈ"(نامی کمپنی جوبظاہرکراچی کے علاقے ماڈل کالونی سے آپریٹ ہورہی تھی)سے ہی مشین خریدیں۔
اس سلسلے میں کئی پرنسپلز اورپروفیسرشاہ جہاں پہنورکی جانب سے لگئے الزام یہ بتاتے ہیں کہ مارکیٹ میں یہ مشین اس وقت 25سے 27ہزارروپے مالیت کی تھی تاہم مذکورہ وینڈراسے 70ہزارروپے میں بغیرکسی وارنٹی کے فروخت کررہاتھا اورہرکالج پرنسپل پر یہ دباؤتھاکہ اس وینڈرکے علاوہ کسی دوسری جگہ سے مشین نہیں خریدی جاسکتی۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس مخصوص وینڈر کوسندھ کے کل 343سرکاری کالجوں میں ان مشینوں کی خریداری سے 2کروڑ45لاکھ روپے کافائدہ پہنچایا گیا جس کا تذکرہ متاثرہ پرنسپل نے اپنے خط میں بھی کیا ہے۔
اس سلسلے میں سیپرارولز اورprocurement manualsکی کھلی خلاف ورزی کی گئی اورباقاعدہ کوئی ٹینڈرجاری ہی نہیں کیا گیا۔
"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں جب مشین کے حوالے سے معلومات حاصل کیں توبات سامنے آئی کہ کالجوں کوفراہم کی جانے والی ماڈل کی مشین مارکیٹ میں موجودنہیں ہے۔
"ایکسپریس"نے کراچی کے مختلف اضلاع کے کالجوں میں موجود مشینوں کی تصاویرحاصل کی توہرکالج میں مذکورہ ماڈل کی ہی مشین موجود تھی محکمہ تعلیم کے ایک موجود افسراورسابق پرنسپل نے بتایاکہ انھوں نے جب مشین کالج میں لگائی تھی تواس وقت مارکیٹ میں اس مشین کی قیمت 30ہزاریااس سے کچھ زائد تھی۔
"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں اس وقت کے اسسٹنٹ اورحال کے ڈپٹی سیکریٹری راشدکھوسوسے جب اس سلسلے میں دریافت کیاتوان کا کہنا تھاکہ ان کے خلاف ماضی میں انکوائری ہوئی تھی جس میں انھیں ڈپارٹمنٹ نے کلیئر کردیاتھا، جب ان سے کہا گیاکہ وہ خط شیئرکریں توانھوں نے کئی روز کی تاخیر کے بعد جوخط شیئرکیااس میں مذکورہ انکوائری کا کہیں بھی ذکرموجودنہیں تھا بلکہ انہی کے متعلق ماضی کے کسی اورانکوائری میں بظاہرانھیں کلیئرکیاگیاتھا۔
استفسارپران کاکہناتھاکہ خط میں توذکرنہیں لیکن اس انکواری میں بائیومیٹرک کامعاملہ بھی شامل تھا، ایک سوال پران کا کہنا تھاکہ اب ان کے خلاف مزیدکوئی انکوائری نہیں ہورہی نہ ہی وہ کہیں اس سلسلے میں پیش ہوئے ہیں، جبکہ شکایت کنندہ پروفیسرشاہ جہاں پہنورنے دعویٰ کیاکہ جب انھیں انکوائری کمیٹی نے حال میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلایاتھاتواسی اثناء میں متعلقہ ڈپٹی سیکریٹری کوبھی بلایا گیا تھا۔
ادھرراشد کھوسوکامزیدکہناتھاکہ جب شاہ جہاں پہنورمیری پوسٹنگ سے متعلق عدالت میں کیس دائر کرچکے ہیں تواب کس لیے ہرجگہ میرے خلاف شکایات کررہے ہیں۔
دوسری جانب کراچی کے ایک کالج پرنسپل نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس" کوبتایا کہ ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ کی سربراہی میں جوکمیٹی کام کررہی ہے اس کے سامنے کئی حیران کن حقائق سامنے آئے ہیں، پہلے تویہ بات کہ ایک غیرمرئی قوت ضرورہے جس کے کہنے پرتقریباً تمام ہی کالجوں کے پرنسپلز نے ایک ہی وینڈرسے مارکیٹ سے مہنگی مشین خریدی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ یہ کہ اس میشن کاڈیٹاایک پرائیویٹ کمپنی کے "سرور"پرجارہا ہے جبکہ اب تک تلاش کے باوجود اس کمپنی سے کسی بھی قسم کے معاہدے کی دستاویزسامنے نہیں آسکی ہیں جس سے یہ بات معلوم ہوسکے کہ اس کمپنی کوکن شرائط پر ڈیٹا دیا جارہاہے، یہ کمپنی محکمہ سے کتنی رقم لے رہی ہے یا مفت میں کیوں اورکیسے محکمے کا یہ ڈیٹاایک پرائیویٹ کمپنی کے پاس جارہا ہے۔
اس معاملے پر "ایکسپریس"نے ڈی جی کالجزپروفیسرصالح عباس سے ان کے دفترمیں ملاقات کی اورانکوائری کے حوالے سے ان سے دریافت کیاجس پر انھوں نے محض ایک انکوائری کی تصدیق توکی لیکن کچھ بھی بتانے سے یہ کہہ کرمعذرت کرلی اوراس سلسلے میں لگے الزامات کی تصدیق یاتردید نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ وہ سیکریٹری ایجوکیشن کے حوالے کریں گے۔
علاوہ ازیں سال 2022اور2023میں محکمہ کالج ایجوکیشن سے جڑی مبینہ کرپشن کی دیگرالزامات پر مشتمل کہانیوں پرمحکمہ کی جانب سے فی الحال کسی قسم کی تحقیقات کاسلسلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
ان الزامات میں کہا گیا ہے کہ کالجوں میں ہم نصابی سرگرمیوں اوراسپورٹس اورتجربہ گاہوں کے لیے سائنسی آلات کی خریداری کی بابت 9کروڑروپے کابجٹ سندھ سرکارکی جانب سے جاری کیاگیا تاہم اس سلسلے میں رقوم مخصوص وینڈرزکے بنائے گئے بلزکی بنیادپر متعلقہ کالجوں کے پرنسپلزکوجاری کرناپڑی جبکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں جاری کی گئی رقوم کی کالجوں میں غیرنصابی اورکھیلوں سرگرمیوں کے انعقادسے تصدیق کی جائے کیونکہ اس سلسلے میں پرنسپلز کوکھیلوں اورغیرنصابی سرگرمیوں کے انعقاد سے متعلق کوئی presribed performaفنڈزکے ریلیز کے لیے جاری ہی نہیں ہوا۔
انہی الزامات کی بابت ایک یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ کالجوں میں ڈیجیٹل لائبریریزکے قیام کے لیے 67ملین روپے کافنڈother headsکے نام سے جاری ہوااس میں بھی سپرارولز کی خلاف ورزی کی گئی اورکالج کے ڈی ڈی اووزنے آخرکس طرح متعلقہ مشینوں یاآلات کی خریداری کوestimateکیا۔
اسی طرح کالجوں کوغیرمعیاری فرنیچرفراہم کیاگیاجوضرورت سے ناکافی بھی تھا اوراس کی پروکیورمنٹ میں انڈسٹری ڈپارٹنمنٹ کے نمائندے کوشامل ہی نہیں کیاگیاجوفرنیچرکی کوالٹی کے معیارکی جانچ کرتا ہے، مزید یہ کہ بظاہرپورے سندھ میں ٹیچرٹریننگ کرائی گئی جس کے لیے محکمہ فنانس سے 2کروڑروپے کابجٹ دومالی سال میں جاری ہواجبکہ اس کے علاوہ دوبرسوں میں پیٹرول کی مد میں 62لاکھ،ٹی اے ڈی اے کی مد میں 15لاکھ اورورکشاپ کرانے کی مد میں 20لاکھ روپے جاری ہوئے۔
تاہم تربیت کے نام پر کالج اساتذہ کومحض لیکچردیے گئے، تربیت دینے والوں کے پاس اساتذہ کی اہلیت competenciesجانچے کے لیے کسی قسم کاٹریننگ مینوول تک نہیں تھا اورٹریننگ کے نام پر سرکاری بجٹ خرچ کیاگیالیکن چونکہ ٹریننگ ایک مصنوعی مرحلہ تھالہذا اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔
ادھرکالجوں میں ٹرانسفر/پوسٹنگ کے حوالے سے کچھ الزامات سیکریٹری کالج ایجوکیشن کے پی اے امتیاز پٹھان پر بھی لگائے گئے ہیں جس کی انکوائری کے لیے باقاعدہ ایف آئی اے نے 14 دسمبر 2023 کو خط بھی جاری کیا۔
"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں کئی بار امتیاز پٹھان سے رابطے کی کوشش کی انھوں نے صرف ایک بارفون ریسیووکیااورالزامات کاسن کرکہاکہ وہ فی الحال مصروف ہیں call backکرکے اس معاملے پر بات کریں گے جس کے بعد دوباران کی جانب سے فون آیانہ فون کاجواب دیا، انھیں ایس ایم ایس اورووٹس ایپ پر بھی پیغام دیاگیاتاہم انھوں نے ان الزامات کی بابت کوئی جواب نہیں دیا۔
علاوہ ازیں نگراں دورحکومت میں تعینات موجودہ سیکریٹری ایجوکیشن صدف شیخ سے بھی اس سلسلے میں رابطے کرکے یہ سوال کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ دیگرالزامات پر انکوائری کیوں نہیں کرارہیں تاہم ان کی جانب سے بھی اس سلسلے میں موقف نہیں دیاگیا۔