تدارکِ دہشت گردی پر توجہ ضروری

اس وقت پاکستان کو معیشت کے بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے

فوٹو: فائل

وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تشدد کا حق نہیں ہے اور ریاست کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ایسے دہشت گرد عناصر کا قلع قمع کرے۔

دوسری جانب بلوچستان کے شہر سبی میں ایک سیاسی جماعت کی انتخابی ریلی کے قریب دھماکے کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق بلوچستان میں مچھ اور کولپور کمپلیکسز پر خود کش بمباروں سمیت متعدد دہشت گردوں نے حملہ کیا جسے فورسز نے ناکام بنا دیا، تین خودکش بمباروں سمیت نو دہشت گرد مارے گئے۔

اس وقت پاکستان کو معیشت کے بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے اور دہشت گردوں کو کچلنے کے لیے جنگ لڑ رہا ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے کالعدم تنظیموں، علیحدگی پسندوں اور ملک کے اندر ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔

ہمارا ملک اب حالت جنگ میں ہے اور یہ جنگ کئی محاذوں پر لڑی جارہی ہے، صرف شہر ہی نہیں ہمارے ساحلی علاقے بھی خطرات سے دوچار ہیں اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اور افغانستان سے تعلقات کی نوعیت دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ کوئی بڑا کھیل کھیلنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب دہشت گردوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے ، لٰہذا دہشت گردوں کے حملہ کرنے کی صلاحیت کا دوبارہ جائزہ لے کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردوں کی نئی منصوبہ بندی اور ٹی ٹی پی کے کئی سہولت کار منظر عام پر آچکے ہیں، افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ ہے جہاں ٹی ٹی پی کی قیادت کھلے عام تقریبات میں شریک ہو رہی ہے، اسی طرح ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں پاکستان کو مطلوب افراد پناہ لیتے ہیں ۔

تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کے اندر سول وار کرانے کی کوشش شمال مغرب سے کی جاتی رہی ہے ۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پس پردہ حقائق بھی سامنے آرہے ہیں۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی مدد اور سہولت کاری کون کررہا ہے، کئی شواہد سامنے آچکے ہیں، سی پیک کو سبوتاژ کرانے کی خواہشمند قوتیں ہی بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے والوں کی مدد کررہی ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی صوبوں میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹ قوتوں کا ایجنڈا واضح ہوچکا ہے۔

دہشت گردانہ واقعات میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سب سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں ۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے مطابق افغانستان کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کہاں پر ہیں۔

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن منصوبوں کی تیاری، عملدرآمد، پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کی مکمل ڈوزیئر افغان عبوری حکومت کو فراہم کر دی گئی ہے۔

اب افغان حکومت ایک ذمے دار ہمسایہ ملک کا فرض ادا کرتے ہوئے مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے لیکن افغان حکومت نے تاحال پاکستان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا ہے، بلکہ افغانستان میں ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہونے سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔


افغانستان کے مذہبی رہنما نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کچھ عرصہ قبل فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ افغان حکومت مسلسل کہتی رہی ہے کہ افغانستان میں نہ تو کوئی دہشت گرد تنظیم ہے نہ اس کا ٹھکانہ ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گرد، جن میں ٹی ٹی پی سرفہرست ہے، کس طرح افغانستان سے آکر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان نے جو ڈوزیئر افغانستان کے حوالے کر رکھے ہیں، اس پر افغان حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔

دوسری جانب یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ ابھی تک اندرونی سہولت کاروں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے سیاسی و مذہبی جماعتیں اور لیڈر ایکشن پلان پر من و عن عمل درآمد میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

دہشت گردی کی کارروائی کو انجام دینے کے لیے فنڈز ضروری ہیں۔ پوری دنیا میں دہشت گرد مسلح گروہ اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے سرمایہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ اس کے کئی ذرایع سامنے آئے ہیں، دہشت گرد تنظیمیں، چاہے وہ قوم پرست ہوں یا مذہبی ہوں، ان کے درمیان ایک خاموش ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔

وائٹ کالرز جرائم مافیا بھی دہشت گردوںکو استعمال کرنے کے لیے ان کی فنڈنگ کرتا ہے۔ہتھیار بلیک مارکیٹ سے خریدے جاتے ہیں اور یہ کاروبار نقد ادائیگی کی بنیاد پر چلتا ہے۔

مڈل کاروباری طبقات خیراتی تنظیموں کی مالی مدد کرتا ہے، انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ تنظیمیں ان کے عطیات اور خیرات کے طور پر جمع کی گئی رقم ہتھیاروں، آلات کی خریداری اور تربیت دینے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ لہٰذا، دہشت گردی کو ایک مناسب ڈھانچے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لوگ عام طور پر یہ نہیں پوچھتے کہ جو رقم وہ خیرات کی شکل میں دیتے ہیں اس کا کیا کیا جا رہا ہے؟

خیراتی اداروں، فلاحی و تعلیمی ٹرسٹوں، چندوں پر چلنے والے اسپتال وغیرہ کے فنڈز کا پورا حساب رکھا جانا چاہیے، میڈیا ایسا رپورٹس اکثر شایع کرتا رہتا ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں امیر طبقہ دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دیتا ہے لیکن اس تناسب سے انکم ٹیکس، دولت ٹیکس وغیرہ کا حجم بہت کم ہے۔

ان کے مالی معاملات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کرنے والے پاکستان کے ساتھ وفادار نہیں ہوسکتے۔ دینی مدارس پر حکومت توجہ دے رہی ہے لیکن اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مدارس کو ملنے والے عطیات، زکوۃ اور دیگر ادائیگیوں کا مکمل ریکارڈ مرتب ہونا چاہیے۔

مدارس کے اساتذہ کا بائیوڈیٹا، ان کی تنخواہ، رہائش اور دیگر اخراجات کا تخمینہ ریکارڈ پر ہونا چاہیے۔ وہاں پر پڑھنے والے بچوں کا بھی پورا ڈیٹا موجود ہونا چاہیے ۔ ہنڈی/حوالہ کا نظام پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ یہ اتنے لمبے عرصے سے دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت ہر طرح کے کالے دھن کو لانڈرنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

دہشت گرد گروہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ یہ بہت سے جائز کاروباروں میں کامیاب رہتا ہے اور ہمارے بینکرز، تاجروں اور مقامی تاجروں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔ جرائم کی زیادہ تر آمدنی غیر قانونی ذرایع سے ہوتی ہے، یعنی بدعنوانی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ (بنیادی طور پر اس کی افغان سرحد سے)، اسمگلنگ، غیر قانونی جوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں وغیرہ۔

پاکستان کو تدارکِ دہشت گردی پر اتنی ہی توجہ دینی ہوگی جتنی اس نے انسدادِ دہشت گردی کے طریقوں پر دی تھی کیونکہ اس سے نہ صرف کارروائیوں میں آسانی و تیزی آئے گی بلکہ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں اور سرگرمیوں کی تغیر پذیری سے نمٹنے کے لیے متنوع قانون نافذ کرنے والے اداروں کی باہم کارروائیوں کو بھی منظم کیا جا سکے گا۔

دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں، کالعدم تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا تدارکِ دہشت گردی کا ایجنڈا ہے اور اگر حالیہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے جواب میں انسداد دہشت گردی کی یہی پہلی والی حکمت عملی استعمال کی گئی تو اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور اور بروقت کارروائی کر رہی ہیں' سیکیورٹی ادارو ںکا دہشت گردوں کو بھرپور جواب اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عزم غیرمتزلزل ہے اور دہشت گردی کے خلاف ہونے والی قربانیاں اور شہادتیں ان کے ارادوں کو کمزور نہیں کر سکتیں۔دہشت گرد مسلح کارروائیوں کے علاوہ نظریاتی محاذ پر بھی شہریوں کے اندر کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔

اب یہ ریاستی اور حکومتی سول اداروں کا کام ہے کہ وہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کریں کہ دہشت گردوں کو نظریاتی محاذ پر بھی شکست دی جا سکے۔دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز تو اپنے فرائض پوری جانفشانی سے سرانجام دے رہی ہیں مگر سول ادارے دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم کو نظریاتی محا ذ پر متحد کرنے میں تساہل کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔
Load Next Story