بلوچستان مذاکرات وقت کی ضرورت

وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے لاپتہ افراد کے بارے میں غیر مناسب ریمارکس دیے


Dr Tauseef Ahmed Khan February 01, 2024
[email protected]

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا اسلام آباد میں طویل دھرنا اختتام کو پہنچ گیا اور شرکاء واپس چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین نے اکتوبر کے مہینے میں تربت میں تین بلوچ نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف تحریک شروع کی تھی اور ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کر کے اسلام آباد پہنچے اور سخت سردی میں ایک ماہ تک نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دے کر ایک مثال قائم کی ہے۔

عجب المیہ یہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین کے ساتھ سرکاری اداروں نے ہر قسم کا برا سلوک کیا۔ نامعلوم افراد نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سیمی بلوچ کو متنازعہ بنانے کے لیے سارے حربے استعمال کر لیے۔ اسلام آباد نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ کو بھی ہراساں کیا گیا۔ اس پریس کلب کے سامنے میدان میں یہ لوگ خیمہ زن تھے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ 1993میں ایک بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئی، یہ خاندان کوئٹہ میں آباد تھا۔ ماہ رنگ کے والد عبد الغفار لانگو ایک مزدور تھے، انھیں نامعلوم افراد نے اغواء کیا تھا'بعد ازاں ان کی مسخ شدہ لاش ملی۔

ماہ رنگ بلوچ کے والد کا کیا قصور تھا' اس کو کیوں اغواء کیا گیا؟ کس نے عبد الغفار لانگو کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا؟ ماہ رنگ بلوچ اور اس کے ساتھیوں نے اپنے والد سمیت سیکڑوں لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اس پرخطر راستے کا انتخاب کیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان مظاہرین کو تحفظ فراہم کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے لاپتہ افراد کے بارے میں غیر مناسب ریمارکس دیے۔ بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے اسلام آباد میں دھرنا دینے والے افراد پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کیے مگر نہ دھرنے کے شرکاء کے حوصلے متاثر ہوئے، نہ ہی ان لوگوں کے لیے پنجاب اور اسلام آباد کے عوام میں ہمدردی کا جذبہ کم ہوا۔

چند سال قبل لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ماما قدیر کی قیادت میں ایک وفد گوادر سے اسلام آباد آیا تھا' تب ان کے بارے میں عام لوگوں کا رویہ سرد مہری پر مبنی تھا۔ اسلام آباد کے اطراف میں اس دھرنے کے خلاف بعض گروہوں نے مظاہرے تک کیے تھے مگر اب ملک کی فضاء خاصی تبدیل ہوچکی ہے۔

اب ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف سے لے کر اسلام آباد تک لوگوں نے ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کا جس انداز میں پرجوش استقبال کیا اور اسلام آباد کے مکینوں نے ان افراد کے لیے گرم کپڑے اورکھانے پینے کا سامان، بستر اور کمبل رضائیاں وغیرہ اتنی تعداد میں دیں کہ ان لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ انھیں اپنے گھر جیسی محبت مل رہی ہے۔

بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اراکین، صحافیوں، ادیبوں، خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ہر روز دھرنا کے شرکاء سے یکجہتی کا اظہارکیا۔ ان افراد سے یکجہتی کرنے والو ں میں کراچی سے آنے والی خواتین بھی شامل تھیں اور وزیرستان اور سابقہ قبائلی علاقوں کے معمر پختون بھی شامل تھے۔

انسانی حقوق کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس دھرنے کے شرکاء کے ساتھ انتظامیہ کے ناروا سلوک کی مذمت کی ہے اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ عوام نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین کے ساتھ محبت کا اظہار کیا'عالمی ذرایع ابلاغ میں اس دھرنے کی بھرپورکوریج ہوئی۔ برطانیہ، امریکا اورکینیڈا کے اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس دھرنے کی کوریج کی۔

لندن اور نیویارک میں مقیم باشعور پاکستانیوں نے اسلام آباد کے دھرنا کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے مگر اس اہم معاملے کی گہرائی کو وفاقی حکومت نے محسوس نہیں کیا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس مسئلے کے قطعی حل کے لیے کوئی سنجیدہ پیشکش نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو متنازعہ بنانے کی مہم چلائی گئی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے سامنے بلوچستان شہداء فورم (بی ایس ایف) نے بھی دھرنا دیدیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان کے ساتھیوں نے ایک ماہ کی طویل جدوجہد کے بعد واپسی کا فیصلہ کیا، یوں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں قافلہ جب واپس کوئٹہ پہنچا تو ہزاروں افراد نے اس قافلے کا استقبال کیا۔ اب کوئٹہ کے نوجوان جوش و خروش کے ساتھ اس قافلے کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکر رہے تھے۔

اس کارواں کا واپسی میں ہر شہر میں استقبال ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں ہونے والے جلسے میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھورکا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں ایک بوڑھے بلوچ نے سرداروں کی پگڑی ڈاکٹر ماہ رنگ کو پہنا دی اورکہا کہ اب آپ ہماری سردار ہیں۔ ایک خاتون کو قبائلی معاشرے میں یہ اعزاز ملنا ایک بڑی سماجی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے۔

بلوچستان میں موجودہ صورت حال نے پرانے نظام کو بھی ہلا دیا ہے، یوں خواتین کی یہ تحریک بلوچ سماج کو تبدیل کررہی ہے۔ دوسری طرف 1973 کے آئین کے تحت بلوچستان کے مسئلہ کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعتیں عوامی دھارے سے کٹ کر رہ گئی ہیں جوکہ منفی صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے۔

ان جماعتوں کے امیدوار دہشت گردی کی بناء پر انتخابی مہم نہیں چلا پا رہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں 8 فروری کے دن جو امیدوار کامیاب ہونگے ان کے پاس بلوچستان کے عوام کا حقیقی مینڈیٹ نہیں ہوگا، مگر خواتین کے مارچ میں ایک سبق سرمچاروں کے لیے بھی ہے کہ مسلح جدوجہد سے صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ساتھیوں کو ملک بھر سے جو حمایت ملی ہے وہ سیاسی جدوجہد کی وجہ سے ملی ہے۔ یہی وقت ہے کہ اسلام آباد کی مقتدرہ بلوچستان کے حقیقی نمایندوں سے مذاکرات کے لیے اقدامات کرے۔ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے اور لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، یوں مذاکرات کا ماحول سازگار ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔