ووٹ کی شرعی حیثیت

وطن عزیز پاکستان میں حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں

ashfaqkhan@express.com.pk

تمام تر شکوک و شبہات اور غیر یقینی صورتحال کے باوجود ملک الیکشن کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے، تاخیر سے ہی سہی لیکن سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے، جو اس وقت پورے جوبن پر ہے۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان قائم ہوئے کم و بیش آٹھ دہائیاں بیت چکی ہیں اور آج بھی ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے ہم سن سنتالیس میں کھڑے ہیں، جو مسائل و مصائب اور مشکلات ایک نوزائیدہ ریاست کے لیے ہوسکتے ہیں آٹھ دہائیوں کے بعد بھی مسائل و مصائب اور مشکلات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فیصلے کے وقت ہم درست فیصلہ نہیں کرپاتے، ایسے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنے مفادات کے غلام بن جاتے ہیں اور ملک و قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے عام انتخابات کی صورت میں ایک بار پھر ہمیں موقع دیا ہے مگر پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناتے ان انتخابات میں بحیثیت ووٹر ہماری اخلاقی اور شرعی ذمے داری کیا ہے۔

مجھے اپنے مرشد و مربی ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ کے ساتھ 1988 کے انتخابات کے دوران ایک نشست یاد آگئی جس میں انھوں بہت سادہ الفاظ میں سمجھایا تھا کہ ووٹ کی اہمیت اور ووٹر کی کیا ذمے داری ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس مجلس کا خلاصہ یہاں پیش کروں۔ ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا ہمارا عقیدہ ہے کہ:

ہم اللہ رب العزت کے دربار میں اپنے ہر عمل حتیٰ کہ دوسروں کے لیے دل میں بغض اور حسد رکھنے کے لیے جواب دہ ہونگے، تو کیا ہم ووٹ کی اس طاقت کے استعمال کے لیے جواب دہ نہیں؟ جس کے زور و طاقت کے ذریعے قوم کے نمایندوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، ان کو قانون سازی اور قومی خزانے تک رسائی کا اختیار ملتا ہے اور اہم ترین قومی معاملات میں فیصلے کا اختیار ملتا ہے۔

اور کیا اللہ رب العزت ہم سے ووٹ کے صحیح اور غلط استعمال کے بارے نہیں پوچھے گا؟ ڈاگئی باباجیؒ نے فرمایا، اللہ رب العزت اپنے دستور و قانون اور ہمارے عقیدے کے مطابق ہر ووٹر سے ضرور پوچھے گا۔ ہمارے ووٹ سے منتخب ممبر اچھا، اخلاقی، شرعی، دیانت و امانت والا رویہ اختیار کریگا تو بحیثیت منتخب ممبر ان کے تمام اچھے کاموں کے اجر و ثواب میں حصے دار ہوگا اور اگر منتخب ممبر برا، غیر اخلاقی، غیر شرعی اور خیانت والا رویہ اختیار کریگا تو وہ ان کے تمام جرائم و گناہوں کی سزا میں حصہ دار ہوگا۔

لہٰذا یہ بات اپنے ذہن میں راسخ کر لیں کہ ووٹ ایک قومی امانت ہے جو اللہ رب العزت نے آپ کو دی ہے اس کے بارے وہ ضرور پوچھے گا۔ پھر انھوں فرمایا کہ اہم اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ووٹ ایک گواہی ہے اور اللہ رب العزت نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 135میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

''اے اہل ایمان! اللہ کے لیے عدل کے ساتھ گواہی دینے کے لیے تیار ہو جائیے، اگرچہ یہ آپ کے اپنے یا والدین یا رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

(جس کے خلاف آپ گواہی دے رہے ہیں) وہ خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ ان کی نسبت فوقیت رکھتا ہے۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے عدل سے نہ ہٹ جائیے۔ اگر آپ حق کو چھپائیں گے یا منہ موڑیں گے تو پھر یاد رکھیے کہ جو آپ کر رہے ہیں، اللہ اس سے واقف ہے۔''

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ووٹ ایک گواہی ہے ایک امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے۔ اس اسلامی ذمے داری کو مفاد پرستی، سڑکوں، گلی کوچوں، کھمبوں، ٹرانسفارمروں اور آلو پیاز کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ وطن عزیز پاکستان میں حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، پورا ملک اس وقت اغیار کے رحم و کرم پر ہے، کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں 76 سال گزرنے کے باوجود ہم قرآن و سنت کے مطابق شریعت مطہرہ کا نظام نافذ نہیں کرسکے۔

سود کی لعنت کی شکل میں ہم بحیثیت قوم اللہ رب العزت سے آمادہ بہ جنگ ہیں اور یہ محض اس لیے کہ ووٹ ڈالتے وقت ہم ایسے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جنھیں ملک و ملت اور دین سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ اپنی خواہشات اور مفادات کے اسیر ہوتے ہیں۔ ہم انتخابات میں ووٹ استعمال کرتے وقت اس کو خالص دنیاوی معاملہ سمجھتے ہیں، حقیقت میں ایسا نہیں ہے، کسی کے لیے گواہی دینا دنیاوی نہیں دینی معاملہ ہے، گواہی دیتے وقت دین کے اصولوں کی پیروی کرنا ہوگی۔


یہ قوم کی امانت ہے یہ کسی معروف ایماندار کو دینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع نور اللہ مرقدہ نے انتخابات کے حوالے سے ایک جامع فتویٰ میں پوری قوم کی رہنمائی فرمائی ہے میں اس معروف فتوی کا خلاصہ یہاں نقل کر رہا ہوں تبدیلی کے قارئین اور مسلمانان پاکستان اس فتویٰ کو ضرور پڑھ لیں۔

''آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اور جماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، کہ زورو زر اور غنڈہ گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کر کے یہ چند روزہ موہوم اعزاز حاصل کیا جاتا ہے، اور اس کے عالم سوز نتائج ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک وملت کے ہمدرد و سمجھدار انسان اپنے مقدور بھر اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں، لیکن عام طور پر اس کو ایک ہار جیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندہ سمجھ کر ووٹ لیے، اور دیے جاتے ہیں۔

پڑھے لکھے دیندار مسلمانوں کی بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع و نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا، بلکہ اس کے پیچھے کچھ اطاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے، جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی ہمارے گلے کا ہار عذاب جہنم بنیں گے، یا پھر درجات جنت کی بلندی اور نجات آخرت کا سبب بنیں گے۔

اگر چہ آج کل اس اکھاڑے کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہیں، جو فکر آخرت اور خدا اور رسولؐ کی اطاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں، اور اس حالت میں ان کے سامنے قرآن وحدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی وعبث فعل معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی، ہر زمانہ اور ہر جگہ کچھ لوگ حق پر بھی قائم رہتے ہیں۔

جن کو اپنے ہر کام میں حلال وحرام کی فکر اور خدا اور رسولؐ کی رضا جوئی پیش نظر رہتی ہے۔'' حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کے قیمتی ملفوظات ہمیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، آنے والے انتخابات میں ہر مسلمان اپنے ضمیر کے مطابق درست گواہی دے۔ مفتی محمد شفیع نور اللہ مرقدہ نے جواہر الفقہ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ ہمارے ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں :

اس کی ایک حیثیت شہادت کی ہے۔

دوسری حیثیت سفارش کی ہے۔

تیسری حیثیت وکالت کی ہے۔

تینوں حیثیتوں میں نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا صحیح شہادت، صحیح سفارش اور صحیح وکالت موجب ثوابِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو دین و دنیا میں ملنے والے ہیں، اسی طرح نا اہل یا غیر متقی شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت، بری اور غلط سفارش اور ناجائز وکالت ہے اور اس کے تباہ کن اثرات بھی اس کے نامہِ اعمال میں لکھے جائیں گے اور بقول حضرت مفتی محمد شفیع نور اللہ مرقدہ اسے اس کی سزا بھی بھگتنا ہوگی۔

جس طرح نا اہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم ہے، بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔

آٹھ فروری کو ووٹ کے ذریعے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، نوکری، روڈ، ترقیاتی کام کے بلند آہنگ جھوٹے دعوے آپ کے ووٹ کی قیمت نہیں، یہ کام ویسے بھی آپ کا حق ہیں، قومی خزانے سے ترقیاتی کام احسان نہیں آپ کا اپنا حق ہے۔ اس لیے ووٹ اپنے ضمیر و بصیرت سے شرعی تقاضوں اور رضائے الٰہی کے لیے استعمال کیجیے۔
Load Next Story