سرطان کی اقسام تشخیص اور علاج

بروقت تشخیص سے ایک تہائی اموات پر قابو پایا جا سکتا ہے

ہر سال تقریباً ایک لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

اردو کے بے مثال شاعر مرزا غالب نے انیسویں صدی میں ایک عجیب فلسفیانہ شعر کہا تھا:

دلِ ہر قطرہ ہے ساز انا البحر

ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

یہاں ایک قطرہ آب اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ سمندر ہے۔ قطرہ خود سمندر ہو یا نہ ہو مگر وہ سمندر کا ترجمان ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح ریت کے ایک ذرے سے پورے صحرا کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اگر انسان کا جائزہ لیا جائے تو پورا جسم ان گنت خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔

انسانی جسم کا ایک خلیہ پورے انسان کی خصوصیات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر خلیات ختم ہوجائیں، تو زندگی کی شام ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ یہی خلیات اپنی شکل تبدیل کر لیتے ہیں اور تیزی سے تعداد میں بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔خلیات کا یہ بدلا ہوا رویّہ اس مرض کو جنم دیتا ہے، جسے سرطان یا کینسر کہا جاتا ہے۔ یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بروقت تشخیص اور معیاری علاج کے ذریعے کینسر سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

سرطان کی تشخیص اور علاج کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی وجوہ اور پورے عمل کو سمجھ لیا جائے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیاہے کہ خلیہ زندگی کی بنیادی اکائی کا دوسرا نام ہے۔ خلیات کی اپنی زندگی کا مخصوص دورانیہ ہوتا ہے۔ فطر ت کی منصوبہ بندی کے تحت خلیات پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کا دورانیہ پورا کرتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ مرنے والے خلیات کی جگہ نئے خلیات سنبھال لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اورا نسانی زندگی بھی پیہم رواں رہتی ہے۔

سرطان کے مرض میں یہ سلسلہ بوجوہ بالکل الگ شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جسم کی ضرورت اور خواہش کے بغیر بے تحاشا نئے خلیات جنم لیتے ہیں اور ان کا حجم بھی بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ جن خلیات کا ختم ہوجانا بہتر تھا وہ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور نئے خلیات کے ساتھ مل کر ورم یا رسولی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔رسولی کو انگریزی زبان میں ٹیومر(Tumour) کہا جاتا ہے۔اسی رسولی یا ٹیومر کا دوسرا نام سرطان یا کینسر ہوتا ہے۔ رسولی جسم کے کسی بھی حصّے مثلاً دماغ، جگر، گْردہ، مثانہ اور معدہ وغیرہ میں پیدا ہوسکتی ہے۔

بنیادی طور پر سرطان کی دوقسمیں ہوتی ہیں، جنہیں کیفیات، علامات اور شدّت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممیز کیا جاتا ہے۔ وہ سرطان جو بے ضرر یا کم خطرناک ہوتے ہیں، انہیں حلیم یا Benign کہا جاتا ہے۔ بینائن ٹیومرکی اصطلاح سے اب عام لوگ بھی واقف ہو چْکے ہیں۔ سرطان کی دوسری قسم کو اْردو میں عنادی سرطان کہا جاتا ہے۔

اس نام سے ظاہر ہے کہ یہ سرطان انسانی زندگی سے بغض و عناد رکھتا ہے اور جسم کی تباہی کاباعث بنتا ہے۔انگریزی میں اس قسم کے سرطان کو Cancer Malignant کہتے ہیں۔ بینائن ٹیومر ایک ہی جگہ پر موجود رہتا ہے، البتہ اس کے بڑھتے ہوئے حجم کی وجہ سے جسم کے اس حصّے یا قریبی حصّوں کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ ایسی صْورت میں اس قسم کی رسولی کو جَراحت یا آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے اورا نسان عام صحت مند زندگی بسر کرنے کے قا بل ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف عنادی سرطان یا میلگننٹ کینسر نہ صرف جسم کے اس حصّے کو متاثر کرتا ہے، جہاں وہ موجود ہوتا ہے، بلکہ سرطانی خلیات Cells Cancerous مختلف ذرائع سے جسم کے دوسرے صحت مند اعضاء تک پہنچ جاتے ہیں۔ سرطانی خلیات کی اس منتقلی کو میٹاس ٹیسزMetastasis کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جگر اور معدے کے سرطان کے اثرات انسانی دماغ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح سے دوسرے مقام پر بھی سرطان پیدا ہو جاتا ہے، جسے ثانوی سرطان یا Cancer Secondary کہا جاتا ہے۔

اس وقت ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں دو کروڑ کے قریب سرطان کے مریض پائے جاتے ہیں۔ ان میں 55 فی صد کے لگ بھگ مَرد اور 45 فی صد خواتین ہیں۔

تناسب کے اعتبار سے کینسر کی زیادہ عام اقسام میں بالترتیب چھاتی کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، بڑی آنت اور مقعد کا کینسر، مردانہ غدود یا پروسٹیٹ کا کینسر ، معدے کا کینسر ، جگر کاکینسر، بچّہ دانی کا کینسر، غذا کی نالی کا کینسر، تھائی رائڈ کا کینسر اور مثانے کا کینسرشامل ہیں۔ سرطان کی اور بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، مگر ہم نے اْن دس اقسام کا تذکرہ کیا ہے جو دْنیا میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ مذکورہ بالا جائزہ جنس اور عْمر کی تخصیص کے بغیر لیا گیا ہے۔ دْنیا میں ہر سال ایک کروڑ سے زائد افراد سرطان کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دْنیا بَھر میں امراضِ قلب کے بعد سرطان کو موت کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ سے 20 لاکھ کے درمیان ہے اور ہر سال ایک لاکھ کے قریب افراد سرطان کی وجہ سے موت کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔

سرطان کی تشخیص صرف علامات کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی کیوں کہ زیادہ تر علامات بڑی عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں اور ہم اکثر و بیش تر ان کا سامناکرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جسم کے کسی بھی حصّے میں ورم یا گلٹی کا نمودار ہونا، کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون آنا، سانس لینے میں مشکل، نگلنے میں دشواری، وزن میں کمی، تھکن،جسم میں درد، اسہال یا قبض، مقعد کے راستے خون آنا، جسم پر کسی نئے تِل کا نمودار ہونا یا پْرانے تل میں تبدیلی واقع ہونا، زخم اور السر کا ٹھیک نہ ہونا، خواتین کے سینے میں گلٹی پیدا ہونا، بھوک نہ لگنا، رات کوپسینے آنا، پیشاب کرنے کی عادت میں تبدیلی ہونا وغیرہ وغیرہ۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ علامات عمومی نوعیت کی ہیں، مگر ان کی مسلسل موجودگی تقاضا کرتی ہے کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

اس موقعے پرمناسب ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے پانچ اقسام کے سرطان کا تذکرہ کیا جائے۔

بریسٹ کینسر

یہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والا سرطان ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہے۔اگر ابتدائی مرحلے میں اس مرض کی تشخیص ہوجائے، تو مکمل صحت یابی کا نوّے فی صد امکان ہوتا ہے۔ مرض کا آغازچھاتی میں گلٹی بننے سے ہوتا ہے۔خواتین کو خود اپنی چھاتی کا معائنہ کرتے رہنا چاہیے او رکسی بھی شبہے کی صْورت میں ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرناچاہیے۔سرطان کے مجموعی مریضوں میں سے 14.5 فی صدکا تعلق اس مرض سے ہوتا ہے۔

ہونٹوں اور منہ کا کینسر

تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں اس سرطان کا نمبر دوسرا ہے۔ 9.5 فی صد مریض اس مرض کا شکار ہیں۔ یہ عام طورپر ایسے لوگوں کو ہوتاہے، جو پان، چھالیا، گٹکا، تمباکو، سگریٹ اور شراب کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس مرض کی ابتدائی علامات مختلف قسم کی ہوتی ہیں، مثلاً ہونٹوں پر یا منہ کے اندر ایسے چھالے کا بننا جوکسی بھی طرح ٹھیک نہ ہوسکے۔ منہ کے اندرونی حصّے میں سفید یا سْرخ دھبّوں کا نمودار ہونا، دانتوں کا ہلنا، منہ میں درد ہونا، نگلنے، چبانے اور منہ کھولنے میں تکلیف محسوس کرنا وغیرہ۔ علاج کے باوجود 40 سے 50 فی صد مریض موت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ زندہ بچ جانے والے مریضوں کو بھی مشکل حالات اور تکلیف دہ زندگی کا سا منا کرنا پڑتا ہے۔

پھیپھڑوں کا کینسر

پاکستان میں سرطان کے مجموعی مریضوں میں سے تقریباً چھے فی صد مریض پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس سرطان کی وجہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے یعنی تمباکونوشی۔ اس مرض کا شکار ہونے والے نوّے فی صد افراد تمباکونوشی کے عادی ہوتے ہیں۔ مریضوں کی بڑی تعداد میں مرض کی ابتدا بغیر کسی علامت کے ہوتی ہے۔ دیگر مریضوں میں کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون کی آمد، سانس لینے میں دشواری اور وزن میں کمی کی شکایات پائی جاتی ہیں۔ اکثر تمباکو نوش افراد کے ساتھ ایک مسئلہ اورہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کو اپنی عادتِ بد سے ''مستفید'' کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ ان کی '' صحبتِ صالحہ'' میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ان کے اگلے ہوئے دھویں کو طوعاً و کرہاً سانس کے ذریعے اپنے پھیپھڑوں تک پہنچانا پڑتاہے۔ اس عمل کو Inhalation Passive کہا جاتا ہے اور یہ بھی پھیپھڑوں کے لیے باقاعدہ تمباکونوشی کی طرح خطرناک ہے۔

غذا کی نالی کا کینسر

پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد غذا کی نالی کے سرطان میں مبتلا ہے۔ تناسب کے لحاظ سے یہ تعداد 5.7 فی صد بنتی ہے۔ اس سرطان کی نمایاں علامات میں نگلنے میں دشواری، سینے میں جلن، بھوک اور وزن میں کمی شامل ہیں۔ تمباکو کا کثرت سے استعمال اور شراب نوشی اس مرض کی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔

بڑی آنت اور مقعد کا کینسر


مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے اس کینسر کا پاکستان میں پانچواں نمبر ہے اور 4.8 فی صد مریض اس موذی بیماری کا سامنا کررہے ہیں۔ اس بیماری کے دوران لوگوں کو اسہال یا قبض، پیٹ میں درد، مقعد سے خون کا اخراج، تھکن اور وزن میں کمی کی شکایات ہوتی ہیں۔

ہم پچھلی سطورمیں عرض کرچکے ہیں کہ محض علامات کی بنیاد پر سرطان کی تشخیص نہیں کی جاسکتی۔سرطان کی تشخیص کے لیے مریض کو عمومی طورپر چارمراحل سے گزرنا پڑتاہے۔

1۔ جسمانی معائنہ

2۔ لیبارٹری ٹیسٹ

3۔ ایکس رے، الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی اسکین وغیرہ

4۔ بائیوپسیBiopsy

یہ سارے مراحل اہمیت کے حامل ہیں ، مگر سرطان کی حتمی تشخیص بائیو پسی کے ذریعے ہوتی ہے جس میں متاثرہ مقام سے چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرکے خوردبین سے اس کا معائنہ کیا جاتا ہے اور یوں سرطان کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ تشخیص کے ساتھ یہ جاننا بھی انتہائی ضروری ہے کہ سرطان کی شدّت اورپھیلاؤ کتنا ہے، سرطان ایک مقام پر محدود ہے یا دوسرے اعضاء بھی اس کی زد میں آچْکے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بروقت تشخیص سے ایک تہائی اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

سرطان کی شدّت اور پھیلاؤ سے آگہی کے بعد باقاعدہ علاج کا مرحلہ آتا ہے۔ آج کل سرطان کے علاج کے لیے متعدّد جدید طریقے منظرِعام پر آچْکے ہیں، مگر گزشتہ کئی برسوں سے مندرجہ ذیل تین طریقے زیادہ مستعمل ہیں۔

جَراحت یا سرجری

آپریشن کے ذریعے سرطان کو مکمل طورپر یا اس کے بڑے حصّے کو جسم سے نکال دیا جاتا ہے۔ جَراحت کی بدولت سرطان کے مکمل خاتمے کا امکان ہوتا ہے۔

کیموتھراپی

یہ علاج کا دوسرا معروف طریقہ ہے، جس میں بطور خاص سرطان کے لیے تیار کی ہوئی ادویہ کا استعمال ہوتا ہے۔ ان ادویہ کے خاصے مضراثرات ہیں، مگر اصل مقصد کے حصول کے لیے انھیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ریڈیوتھراپی

اس طریقہ علاج میں ایکس رے سے مشابہ طاقت ور شعاعیں استعما ل کی جاتی ہیں جو سرطانی خلیات کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ پاکستان کے متعدّد بڑے شہروں میں اس قسم کے علاج کے مراکز موجود ہیں۔ اسی علاج کی جدید شکل سائبرنائف سسٹم ہے، جو زیادہ معتبر اور موثر ہے۔ اس میں روبوٹ کا استعمال ہوتا ہے اور براہِ راست سرطانی خلیات کو ہدف بنایا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں کچھ مزید طریقوں سے بھی سرطان کے علاج کیا جاتا ہے جن میں ہڈیوں کے گْودے کی پیوندکاری یا بون میرو ٹرانس پلانٹ، ہارمون تھراپی، کرایو ابلیشن (Cryoablation) (شدید ٹھنڈک کے ذریعے سرطانی خلیات کا خاتمہ)، ریڈیو فریکوئنسی ابلیشن (Radiofrequency Ablation) (برقی توانائی کے ذریعے حرارت پہنچا کر سرطانی خلیات کو تباہ کرنا)، امیونو تھراپی (ImmunoTherapy) (انسان کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم متحرک کرکے سرطان کا خاتمہ)، جینیاتی علاج (Gene Therapy) (ناکارہ جین کی جگہ صحت مند اور متحرّک جین جسم میں منتقل کرنا) شامل ہے۔

سرطان کی شدّت اور وسعت کے لحاظ سے مندرجہ بالا کوئی ایک یا ایک سے زائد طریقے علاج کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے جینے کا انداز تبدیل کرلیں، تو سرطان کے مریضوں میں چالیس فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے۔ درجہ ذیل پانچ عوامل ایسے ہیں، جن پر توجّہ دے کر سرطان کے مرض پر خاصی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

٭سگریٹ نوشی اور تمباکو کااستعمال ختم کردیا جائے۔

٭ شراب نوشی اور نشے کی دیگر عادات کو ترک کیا جائے

٭خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال کیا جائے

٭ وزن کی زیادتی اورمٹاپے پر قابو پایا جائے

٭ غیرفعالیت کو ترک کرکے باقاعدہ ورزش کا آغاز کیا جائے۔

سرطان کے علاج کے لیے اتنے مہنگے اور مشکل طریقوں سے بچنے کے لیے ہمیں صحت مند طرز زندگی کو اپنانا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔ اپنے رویّوں اور معاملات میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ غصّے، اشتعال، حسد، بغض، کینے اور دیگر منفی جذبات سے گریز کیا جائے۔ صرف تکالیف میں نہیں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے۔ باقاعدگی سے مطالعہ قرآن اور نماز کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اندازِ زندگی اختیار کرنے سے ہمیں اندر کا اطمینان نصیب ہوتا ہے اور ہمارے جسم کا داخلی نظام درست ہوتا ہے۔اس طرح ہمیں مختلف امراض سے محفوظ رہنے میں مددملتی ہے اور اگر پھر بھی کسی مرض میں مبتلا ہو جائیں، تو ہمّت اور حوصلے کے ساتھ مرض کا سامنا کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔

(مضمون نگار، ماہرِ صحت عامہ اور نفسیاتی امراض کے معالج ہیں اور اسلام آباد میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔)
Load Next Story